تحریر: محمد ریحان ورنگلی
دین اسلام کا منبع اور سرچشمہ وحی الہی ہے، جو اللہ کی جانب سے حضورﷺ پر نازل کی گئی، وہ وحی الہی قرآن کریم کی صورت میں ہو یا سنت رسولﷺ اور احادیث رسول کی صورت میں ہو، آپﷺ سے اس وحی الہی اور دین اسلام کو لینے کے لئے صحابہ کرام کی ایک مقدس جماعت کا انتخاب فرمایا، صحابہ کرام کا شریعت اسلامی میں خاص مقام ہے، صحابہ آپ کے اور امت کے درمیان ایک ایسا واسطہ ہے جس کے بغیر امت تک نہ قرآن پہنچ سکتا تھا نہ آپﷺ کی تعلیمات امت تک پہنچ سکتی تھی، صحابہ کرام کو آپﷺ ہر چیز سے عزیز تھے، اور آپ ﷺ کی تعلیمات کو دنیا کے ہر گوشے میں پھیلانے والے صحابہ ہی ہیں، اللہ تبارک و تعالی نے اپنی کتاب قرآن مجید میں ان کے پسندیدہ صفات اور ایمانی کمالات کا تذکرہ فرمایا احادیث میں بے شمار فضائل وارد ہوئے ہیں، یہ الصحابۃ کلھم عدوات صحابہ کرام کی پوری جماعت عدل اور معیار حق ہے، اسی لیے صحابہ کرام سے محبت و عقیدت کے بغیر رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت نہیں ہو سکتی صحابہ کرام کی پیروی کے بغیر آپﷺ کی پیروی کا تصور محال ہے، کیونکہ صحابہ کرام نے جس انداز سے زندگی گزاری وہ عین اسلام اور اتباع سنت کے مطابق ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے فضائل و مناقب بیان کئے ہیں کہ تم لوگوں میرے صحابہ کرام کو برا بھلا نہ کہو کیوں کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر راہ خدا میں سونا خرچ کرے گا تب بھی وہ ان کے ایک مدیا نصف مد کو نہیں پہنچ سکتا، ہم تمام اصحاب سے محبت کرتے ہیں کہ ان میں سے کسی کی محبت میں تجاوز کرتے ہیں اور نہ ان میں سے کسی سے برات کا اظہار کرتے ہیں، صحابہ کرام سے محبت ہمارا دینی و ایمانی فریضہ ہے، صحابہ کرام نے بہت تکلیف اٹھائیں اور اسلام کو پھیلانے میں نمایاں کردار پیش کیا، اسی طرح صحابیات نے بھی اسلام قبول کرنے کے بعد بہت تکلیفیں اٹھائیں اور دین اسلام کو پھیلایا، چنانچہ دشمنان اسلام نے سب سے پہلے صحابہ کو ہی تنقید کا ہدف بنایا انہیں بد نام کرنے اور ان کے کردار کو داغدار کرنے کے لئے ہر قسم کے حربے اختیار کئے تاکہ امت محمدیہ اور ان کے نبی کے درمیان جو واسطہ ہیں وہ کمزور پڑ جاۓ، اور یوں ہی بلاکس کد و کاوش کے اسلام کا سرمایہ خود بخود زمین بوس ہو جاۓ، دشمنان صحابہ روافض کی طرح تشیع زدہ افراد اس وقت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر زبان طعن و تشنیع دراز کر رہے ہیں، اور ان نفوس قدسیہ کو اپنے سب و شتم کا نشانہ بنا رہے ہیں کبھی ان کے نشانے پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہوتے ہیں تو کبھی ابوہریرہ رضی اللہ کبھی ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کم عمر بن العاص رضی اللہ عنہ اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان کی نفرتوں کا مرکز ہوتی ہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر طعن و تشنیع کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے اسلام کا بیشتر حصہ سیکھا ہے، اللہ نے آپ رضی اللہ عنہا کی عمر میں برکت دی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی آپ تقریبا نصف صدی تک لوگوں کو مسلسل دین حنیف کی تعلیمات سے آراستہ کرتی رہی، اور لوگوں نے آپ سے بکثرت دین سیکھا اور فائدہ اٹھایا،ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں، انہوں نے کہا: کہ تم عورتیں اپنے شوہروں سے کہوکہ وہ پانی سے استنجاء کیا کریں، میں ان سے {یہ بات کہتے} شرما رہی ہوں،کیونکہ رسول اللہ ﷺ ایسا ہی کرتے تھے۔ دوستو اس حدیث پر سرسری نظر ڈالنے سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کس قدر شرم حیا والی عورت پاکدامن خاتون تھیں، آپ کی حیا کا عالم یہ تھا کہ بدر کے بھیڑ بھاڑ میں بھی آپ اپنی حیا کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتی تھی، سید حمزہ رسول اکرمﷺ کی صحبت و تربیت میں اپنی زندگی گزاری اسی لئے آپ کی سیرت و کردار سیرت و کردار پر انگلی اٹھانا دراصل آپ کی صحبت و تربیت پر حملہ ہے،اور وہ شخص قرآن کا انکار کرنے والا ہے، چنانچے باری تعالی کا ارشاد ہے الخبیثات للخبیثین والخبیثون للخبیثات اس آیت میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ خبیث مردوں کا نکاح خبیث عورت سے اور پاکیزہ مردوں کا نکاح پاکیزہ عورتوں سے ہوسکتا ہے ، مقصد حضرت عائشہ کی پاکی کو بیان کرنا ہے کہ ان میں خبائث کا ادنی شبہ بھی ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ نبیﷺ جو ازل سے ابد تک پاکیزہ ہستیوں کے سردار تھے ان کے ساتھ نہایت محبت سے کیسے نکاح کرتے اس آیت میں ام المومنین حضرت عائشہ کی عفت و عصمت کو بیان کیا گیا ہے، بہرحال حضرت عائشہ کے بارے میں نازیبا کلمات کہنا آپ کے آپ کے خلاف زبان طعن دراز کرنا اور ایسا کوئی بھی عمل کرنا جو ان کی شان اعلی کے لئے مناسب نہ ہو دراصل آپﷺ کو ایذا پہنچانا ہے، اور آپﷺ کی شان میں گستاخی کرنا ہے لہذا اس امت کے ہر فرد کے لیے ضروری ہے کہ حضرت عائشہ سے محبت کا ثبوت دے اور ان کی حفاظت کا پرچار کرے۔