رشوت کا بول بالا

ازقلم: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

بہار کی تین نگرانی ایجنسی بی، آئی بی(BIB)اس وی یو (SVU)اور ای او یو (EOU)نے گذشتہ تین مہینوں میں انیس (۱۹)افسران کے خلاف کاروائی کی ، جس کے نتیجے میں ان افسران کے یہاں سے چھ(۶) سو کروڑ روپے کا کالادھن چھ (۶) کروڑ روپے کے زیورات ، سونے کے بسکٹ اور چاندی کے گہنے ملے ہیں، ہر افسر نے نوے لاکھ سے زیادہ کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، ڈی سی ایل آر، راجیش کمار گپتا نے رانچی میں تینتالیس کٹھے میں عالی شان گھر بنارکھا ہے، ایم وی آئی مرتنجو کمار سنگھ کا پٹنہ میں شاندار پنٹ ہاؤس ہے، اور نتیش پرکاش کا پھلواری شریف میں اکیس (۲۱) کٹھے میں فارم ہاؤس معروف ومشہور ہے، سی ڈی پی او جیوتی کمار کا عالیشان اپارٹمنٹ بھی پٹنہ میں ہے، ان کے علاوہ کچھ افسروں نے فرضی کمپنی بھی بنا رکھی ہے، یہ کمپنیاں بیوی، سالا اور دوسرے رشتہ داروں کے نام سے چل رہی ہے۔
اس مہم کے دوران نگرانی ایجنسیوں نے تینتیس(۳۳) رشوت خوروں جن میں دھن چن منی تیواری انجینئر دفتر ضلع پریشد سیوان، روندر کمار بہار راجیہ پل نرمان نگم لمیٹڈرجنیش لال ضلع ٹرانسپورٹ افسر، کانتیہ کمار، محکمہ سڑک تعمیرات کے یہاں سے علی الترتیب ۵۵-۱، ۲۴-۷۶۱-۱،۲۶-۲ ؍ کروڑ روپے بر آمد کیے گیے، ا ن کے علاوہ ڈھاکہ محکمہ گرامین کے رام چندر پاسوان اور ان کے اعداد وشمار کے آپریٹر ششی کمار کو اسی ہزار روپے ، محکمہ ضلع تعلیم کے کلرک سُرجیت سنگھ کو پندرہ ہزار روپے اور ایک انجینئر کو آٹھ لاکھ روپے رشوت لیتے ہوئے محکمہ نگرانی نے دھر دبوچا ہے اور ان سے انیس لاکھ چھیاسی ہزار روپے بر آمد کیے، حالاں کہ یہ تعداد حقیقی طور پر رشوت وصولنے اور مالی اُگاہی کرنے کا ایک فی صد بھی نہیں ہے، صورت حال یہ ہے کہ چھوٹے بڑے ہر کام کے کے لیے فائل کے نیچے روپے کی رشوت کا پہیہ لگا نا پڑتاہے، تبھی فائل آگے سرکتی ہے، ورنہ جہاں ہے وہیں پڑی رہتی ہے، ہر ٹیبل کی ایک رقم مقرر ہے، وہ رقم اس ٹیبل تک پہونچی تو فائل خود بخود آگے بڑھ جاتی ہے، یعنی ہر نگر ہر ڈگر ایک سا حال ہے، غلط کاموں کی انجام دہی میں کام کرانے والوں کی قوت خرید ہی اصلا معتبر سمجھی جاتی ہے اور اس کا کوئی معیار نہیں ہے، صحیح کام بھی کرانے جائیے تو رشوت کی گرم بازاری اس قدر ہے کہ پسینے چھوٹ جاتے ہیں، بھاگ دوڑ اس کے علاوہ ہے، سارا قصور ان افسروں کا ہی نہیں ہے، جب ایم ایل اے، ایم پی کے ٹکٹ کی خرید بکری کروڑوں میں ہوتی ہے، منافع بخش عہدوں اور جگہوں پر تعینات کے لیے بھی اچھی خاصی رقم صرف کرنی پڑتی ہے، دروغ بر گردن راوی، ابھی ایک بورڈ کے چیرمین کے عہدے کی قیمت ایک کروڑ اور ایک اسکارپیو لگ چکی ہے، ایسے میں افسران اس کی وصولی رشوت کے ذریعہ ہی کر سکتے ہیں، دوسرا کیا راستہ رہ جاتا ہے، اسلام نے رشوت دینا اور لینا دونوں حرام قرار دیا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت دینے اور لینے والوں کو جہنمی قرار دیا ہے، اسلام کے باہر جو لوگ ہیں ان کے نزدیک بھی یہ قانوناً جرم ہے، اس لیے ہر حال میں اس سے بچنا ضروری ہے، دنیا وی قانون کے اعتبار سے بھی اور اخروی سزا کے اعتبار سے بھی، فلاح اسی میں ہے کہ رشوت نہ لیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے