تحریر: ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی
خادم تدریس:جامعہ نعمانیہ ویکوٹہ آندھرا پردیش
یوپی الیکشن سر پر ہے، ان دنوں ہر طرف یہی موضوع گفتگو ہے، شوشل میڈیا پر بھی یہ عنوان خوب چرچا میں ہے، خاص طور پر ہم مسلمان اس میں پیش پیش نظر آرہے ہیں،کوئی ڈرا رہے ہیں تو کوئی دلاسہ دے رہے ہیں،کوئی مستقبل کو بھیانک دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں تو کوئی اس کے برعکس نظر آرہے ہیں، گویا کہ مسلمان مخمصانہ حالت میں ہے اور یہ مخمصہ صورت حال صرف "صوبہ یوپی کے مسلمانوں کا نہیں ہے بلکہ پورے ملک کے مسلمانوں کا ہے” کیونکہ ملک کے مسلمانوں کے ذہن و دماغ میں یہ بات اب بھی ہے کہ ہم ہی دراصل "سرکار میکر” ہیں، جو حقیقت میں اب سراب ہے۔
اسی درمیان ملک کے ایک مقتدر عالم دین حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی صاحب دامت برکاتہم کا "ایک کھلا خط” بنام بیرسٹر جناب اسدالدین صاحب سوشل میڈیا پر آیا جس نے مزید تہلکہ مچا دیا ، اور اب دونوں جانب سے جواب الجواب کا تانتا لگ چکا ہے، ذرا سوچیں! کیا اس وقت یہی فعل عبث میں لگنے کا ہے کہ رد اور پھر جواب رد، اور اپنی بہترین صلاحیت کو یوں ہی ضائع کی جائے، نیز سونے سے زیادہ قیمتی وقت کو کسی کو اٹھانے اور کسی کو گرانے میں صرف کیا جائے۔
مولانا نعمانی صاحب دامت برکاتہم مسلمانوں کے متحدہ پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے "اسپوک پرسن” ہیں، ان کے بارے میں ملک کے تمام ہی دانشوران قوم و ملت اچھا نظریہ رکھتے ہیں وہ جو بھی لکھتے یا بولتے ہیں قدر کی نگاہ سے دیکھے اور سنے جاتے ہیں، حالیہ "کھلا خط” کے پیچھے بھی کوئی راز ہو، نیز مولانا محترم کی نیت پر ہم حملہ نہیں کرسکتے۔
ہاں! یہ ماننا ہوگا کہ اس خط سے کچھ نوجوانوں میں بے چینی کا سا معاملہ ہوا ہے اور وہ مذبذبین بین ذالک کے شکار ہوچکے ہیں، اس وقت انہیں ہر حال میں درست رہنمائی کرنے کی ضرورت ہے اللہ تعالی کسی کو اس کے لئے قبول فرمائے۔ (آمین)
تاہم اس وقت مولانا نعمانی صاحب دامت برکاتہم اگر اویسی صاحب سے خط و کتابت کے بجائے رو در رو گفتگو کرلیتے تو اچھا ہوتا مولانا کو حیدرآباد آنے میں بظاہر کوئی پریشانی بھی نہیں تھی، اور اگر وہ خود عوارض کی وجہ سے نہیں آسکتے تھے تو جناب بیرسٹر صاحب ہی کو بلا لیتے، قوی امید تھی کہ اویسی صاحب ضرور مولانا کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کی باتیں سنتے اور اگر خط ہی لکھنا تھا تو اسے وائرل کرنے کی ضرورت نہیں تھی، لیکن جو ہونا تھا وہ ہوچکا اب اس پر بحث کرنا شاید نقصان کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اب ایسی صورت حال میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئے، جب بیرسٹر اسدالدین اویسی صاحب بہار الیکشن میں آئے تھے، اس وقت فدوی نے لکھا تھا کہ اویسی صاحب کے لئے بہار میں آنا فائدہ مند نہیں ہے اور ایسا ہی ہوا۔
ہمارے پاس عقل سلیم ہے ہم دیکھ رہے ہیں کہ ملک کے تمام صوبوں میں وہی پارٹی کامیاب نظر آرہی ہے جو صوبائی طور پر ہے، اور آگے بڑھنے کے لئے یہ طریقہ بھی درست معلوم ہوتا ہے، ایسی صورت میں اویسی صاحب کو اپنے ہی صوبہ میں رہنا دوسرے صوبے میں جانے سے بہتر ہے، ماشاءاللہ وہ سیاسی بصیرت کے حامل بھی ہیں، وہ اپنے صوبہ سے ہی بہت کچھ کرسکتے ہیں۔
مسلمان آزادی کے بعد سے اب تک دوسروں کے سہارے ہی رہے ہیں یا واضح لفظوں میں بنا دئیے گئے ہیں، ایسی صورت میں مسلمانان بھارت کو بیساکھی چھوڑ کر دوسروں کے لیے بیساکھی بننے کی ضرورت ہے، اس وقت آپ کا کوئی مسیحا نہیں ہے اب آپ کو خود دوسروں کے لئے مسیحا بننا ہوگا اور آپ بآسانی ملک کے درماندوں کے لئے مسیحا بن سکتے ہیں ، وہ اس طرح کہ ہر صوبے میں آپ کی اپنی سیاسی پارٹی کی تشکیل ہونی چاہیے، اس کے لئے وقت درکار ہے لیکن اسی میں کامیابی کی کرن ہے ورنہ مستقبل کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
اللہ تعالیٰ برے دن کے آنے سے ہندی مسلمانوں کی حفاظت فرمائے (آمین)