حقوق انسانی کا عالمی منشور اوراسلام کے عطا کردہ بنیادی حقوق(قسط:6)

فرائض وحقوق کی ادائیگی احساس جوابدہی کے بغیر ناممکن!

تحریر: محمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگارو آزاد صحافی۔ فون نمبر: 9849099228

گزشتہ سطور میں مختصر طور پر اس بات کا ذکر کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی خاص تاکید فرمائی ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان کی جان کا احترام کرے اور فرمایا کہ قتل نفس کا ارتکاب نہ کرو۔ اس طرح انسانی جان کی اہمیت واضح ہوگئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں بنیادی حقوق کا تصور بہت قدیم ہے یعنی اتنا ہی قدیم جتنا کہ انسان کا وجود۔ انسان کے خالق و مالک نے اپنے بندوں کیلئے ان کی ہر ضرورت کو پورا فرما دیا، جس میں طبعی ومعاشرتی تمام ضروریات کا سامان فراہم کردیا، خواہ ہوا وپانی ہو یا پھر خوراک و روشنی غرضیکہ جتنے بھی اسباب زندگی (نوع انسانی ) کیلئے شدید ضرورت ہوتی ہے یہ سب چیزیں ان پر نچھاور فرمادی گئی ہیں۔ وہیں پر اللہ رب العالمین نے اپنے بندوں کیلئے معاشرتی زندگی میں حسن پیدا کرنے اور انسانی مساوات و احترام کو ان میں قائم رکھنے کیلئے ایک ایسا ضابطہ حیات بھی ان کی (حیات) دنیا کے آغاز پر ہی انہیں دے چکا۔ جیسا کہ یہ بات گزشتہ گزر چکی کہ انسان زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے، اس منصب خلافت پر حضرت انسان کو فائز کرنے سے قبل ہی اسے اس بات کا شعور عطا فرما دیا کہ کس طرح دنیا میں ایک دوسرے کے ادب واحترام کے ساتھ زندگی بسر کی جانی ہے!
رب عظیم، مقتدر اعلیٰ و خالق کائنات نے انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی اسے علم سے روشناس کروایا، جس کا ذکر سورۃ البقرہ آیت: 31 میں یوں ہوا ’’اللہ نے آدمؑ کو ساری چیزوں کے نام سکھائے‘‘ مولانا مودودیؒ نے اس کی تشریح یوں فرمائی ’’انسان کے علم کی صورت صرف یہی ہے کہ وہ ناموں کے ذریعہ اشیاء کے علم کو اپنے ذہن کی گرفت میں لاتا ہے۔ لہٰذا انسان کی تمام معلومات دراصل اسماء اشیاء پر مشتمل ہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام کو سارے نام سکھانا گویا ان تمام اشیاء کا علم دینا ہے۔ (تفہیم القرآن جلد اول صفحہ64) اور ایک مفسر مولانا محمد عبدالحق حقانیؒ یوں رقمطراز ہوئے ’’خدا ئے تعالیٰ نے آدم کے دل میں یہ القا کردیا کہ فلاں شے کا یہ نام ہے، فلاں کا یہ، یعنی آدم کی سرشت میں وہ اجزائے مختلفہ اور قوائے متبائنہ رکھے کہ جس نے اس کو طرح طرح کے معقولات اور محسوسات و متخیالات و متوہمات اور حقائق اشیاء اور ان کے خواص اور نام اور اصول علم و قوانین صفت اور ان کے آلات کی کیفیت کا علم معلوم ہوسکے۔ (اقتباس تفسیر حقانی)
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان سے زندگی کے آغاز میں ہی اس بات کا اقرار لے چکا اور خود انسان اس کی گواہی دے چکا ہے کہ وہ شکر و شرافت پر قائم رہے گا اور اس کا حق ادا کرے گا۔ اس اولین عہد کے سلسلہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ عزوجل نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان صادق سے یوں کہلوا رہا ہے کہ
’’اور اے نبی! لوگوں کو یاد دلائو وہ وقت جب تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناکر پوچھا تھا ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟‘‘ انہوں نے کہا ’’ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں۔ یہ ہم نے اس لئے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اس بات سے بے خبر تھے یا یہ نہ کہنے لگو کہ شرک کی ابتداء تو ہمارے با پ دادا نے ہم سے پہلے کی تھی اور ہم بعد کو ان کی نسل سے پیدا ہوئے، پھر کیا ہمیں اس قصور میںپکڑتے ہیں جو غلط کار لوگوں نے کیا تھا (سورۃ الاعراف: 172تا173)
آیات بالا پر غور کرنے سے پانچ نکات ہمارے سامنے آتے ہیں۔
پہلا یہ کہ ’’اللہ جل شانہ کو اپنا حقیقی اور واحد رب ماننے کا اقرار‘‘۔
دوسرا ’’آغاز آفرینش سے، یعنی ازل سے ابد تک تمام انسانوں نے خدائے تعالیٰ کے سامنے اس بات پر حلف اٹھایا ہے کہ وہ اس کے وفادار بنے رہیں گے اور اس پر خود اسی کی گواہی وشہادت فرداً فرداً ہوئی۔‘‘
تیسرا: ’’کسی اور کو خدائی میں شریک نہ کرنے اور شرک کا ارتکاب کرتے ہوئے کسی اور کو خدا ماننے اور اس کا شریک ٹھہرانے سے قطعی طور پر باز رہنے کا پختہ عہد۔‘‘
چوتھا: ’’باپ دادا کی بدعقیدگی و اعمال غیر صالح کو بنیاد بنا کر، اپنے مشرکانہ و غیر صالحانہ اعمال و عقائد کی ذمہ داری سے فراری کا خاتمہ‘‘۔
پانچواں ’’آخری چیز یہ کہ کل روز قیامت اپنی ذاتی زندگی سے متعلق ایک ایک چھوٹے بڑے عمل کی جوابدہی‘‘۔ اس طرح اس میثاق اول میں ان5 بنیادی باتوں پر اللہ تعالیٰ نے ہر ایک انسان سے عہد لیا اور ہر انسان کو اس پر خود گواہ بنا دیا گیا۔ اس طرح رب تعالیٰ نے انسان کو علم سے نوازا اور پھر بندگی رب کا عہد لیا اور دنیا میں پھیلا دیا اور ایک بہترین ضابطہ عطا فرما دیا تاکہ انسان ارتقائی منازل طے کرتا رہے۔ غرضیکہ انسان ایک کامل آدمی اور تمام مخلوقات میں اشرف ترین مخلوق بناکر اتارا گیا ہے۔
مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں ’’حق کا‘‘ جو پہلا مسئلہ حضرت آدم علیہ السلام کی زندگی میں ان کے دو بیٹوں کے درمیان پیدا ہوا جو تاریخ انسانی کا پہلا مسئلہ رہا ہے، اس کا ذکر سورۃ المائدہ میں یوں نقل فرما دیا ’’اگر تو مجھے قتل کرنے کیلئے ہاتھ اٹھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کیلئے ہاتھ نہ اٹھائوںگا، میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔‘‘
’’ میں جانتا ہوں کہ میرا اور اپنا گناہ توہی سمیٹ لے اور دوزخی بن کررہے۔ ظالموں کے ظلم کا یہی ٹھیک بدلہ ہے‘‘ (سورۃ المائدہ :28,29)
فطری حقوق و پیدائشی حقوق کو سمجھنے کیلئے درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔
یہ الفاظ صاف بتارہے ہیں کہ ہابیل کو انسانی جان کے احترام و تحفظ سے متعلق اللہ تعالیٰ کی ہدایات کا علم تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ ایک گناہ کا کام ہے اوراس کا مرتکب جہنم میں ڈالا جائے گا۔ اس نے محض خوف خدا کی بنا ء پر اپنی جان دے دی م گر بھائی پر ہاتھ اٹھانا گوارا نہ کیا۔
حضرت آدمؑ کو خدا، بندگان خدا اور دوسری مخلوقات خدا کے سلسلہ میں حقوق و فرائض کا جو ضابطہ عطا کیا گیا تھا وہ انسانی زندگی کے مختلف ارتقائی مراحل میں وقت کے مسائل اور تقاضوں کے مطابق نئی تشریحات، توضیحات اور اضافی احکام کے ساتھ حضرت آدمؑ سے لے کر حضرت محمدؐ تک معبوث ہونے والے انبیاء کرام کے ذریعہ انسانیت کو اپنی ہدایت و رہنمائی کیلئے مسلسل ملتا رہا۔ انسانی تعلقات کے دائرے جوں جوں پھیلتے گئے ان کو مضبوط کرنے والے احکام بھی نازل ہوتے رہے تاآنکہ نبی آخر الزامانؐ پر آکر انسانیت کی تعلیم وتربیت کا یہ سلسلہ مکمل ہوگیا اور اعلان کردیاگیا۔
الیَومَ اکمَلتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاَتمَمتُ عَلَیْکُم نِعمَتِی وَرَضِیتُ لَکُمُ الاِسْلَامَ دِیْنًا (المائدہ: ۳)
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے۔
یہ دین جو حضرت محمدؐ پر آکر مکمل ہوا، چلاکہاں سے تھا؟ اس کی تاریخ ملاحظہ ہو؟
’’ اللہ نے آدمؑ اورنوحؑ اور آل ابراہیمؑ اور آل عمرانؑ کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر اپنی رسالت کیلئے منتخب کیا تھا۔یہ ایک ہی سلسلہ کے لوگ تھے جو ایک دوسرے کی نسل سے پیدا ہوئے تھے (آل عمران: ۳۴)
گویا حضرت آدمؑ نے انسانیت کی ہدایت و رہنمائی کے جس سلسلہ کا آغاز ہوا تھا وہ کسی تعطل کے بغیر یکے بعد دیگرے مختلف انبیائؑ کے ذریعہ مستقل قائم رہا۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ بات صرف اتنی ہی نہیں کہ الہامی تعلیمات تسلسل کے ساتھ جاری رہیں بلکہ اس سے بھی اہم تر حقیقت یہ ہے کہ تمام انبیاء کرام کسی فرق واختلاف کے بغیر ایک ہی دین کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے رہے۔ ان کا مشن ایک تھا وہ ایک ہی ضابطہ حیات کے علمبردار تھے اور یہ ضابطہ حیات ان کا مقرر کردہ نہیں بلکہ انہیں منصب رسالت پر مامور کرنے والے مقتدر اعلیٰ کا عطا کردہ تھا۔
’’ اللہ نے مقرر کردیا ہے تمہارے لیے وہ دین جس کی ہدایت کی تھی اس نے نوحؑ کو اور جس کی وحی کی گئی (اے محمدؐ) تمہاری طرف اورجس کی ہدایت کی گئی ابراہیمؑ اورموسیٰؑ اورعیسیٰؑ کو اس تائید کے ساتھ کہ تم لوگ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجائو۔ (الشوریٰ: ۳۱)
یہ دین محض عقائد کی اصلاح تک محدود نہیں تھا بلکہ اصلاح عقائد سے لے کر زندگی کے تمام معاملات کی درستی تک پھیلا ہوا تھا اوراس میں ہر شعبہ زندگی سے متعلق مفصل ہدایات موجود تھیں۔
’’اور ہم نے موسیٰؑ کو ہر شعبہ زندگی سے متعلق نصیحت اور ہر پہلو کے متعلق واضح ہدایت تختیوں پر لکھ کر دی اوراس سے کہا ان ہدایات کو مضبوط ہاتھوں سے سنبھال اور اپنی قوم کو حکم دے کہ ان کے بہتر مفہوم کی پیروی کریں‘‘۔ (الاعراف: ۱۴۵)
اب خالص حقوق وفرائض کی زبان میں سنئے کہ یہ دین اوراس کی مفصل ہدایات کیاتھیں؟
’’ یا دکرو! اسرائیل کی اولاد سے ہم نے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ، رشتہ داروں کے ساتھ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا، لوگوں سے بھلی بات کہنا، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا مگر تھوڑے آدمیوں کے سوا تم سب اس عہد سے پھرے ہوئے ہو۔ پھر ذرا یاد کروہم نے تم سے عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا اور نہ ایک دوسرے کو گھر سے بے گھر کرنا۔ (البقرۃ: ۸۴۔۸۲)
اسی سورۃ میں ایک فرد کے آسمان سے لے کر زمین تک پھیلے ہوئے تمام تعلقات سے متعلق الہامی احکام وہدایات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا:
’’ جو لوگ اللہ کے عہد کو مضبوط باندھ لینے کے بعد توڑ دیتے ہیں، اللہ نے جسے جوڑنے کاحکم دیا ہے اسے کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔ (البقرہ: ۲۷)
یہی بات ایک دوسری جگہ ان الفاظ میںدہرائی گئی ہے۔

’’جو لوگ ان رابطوں کو کاٹتے ہیں جنہیں اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اورجو زمین میںفساد پھیلاتے ہیں وہ سخت لعنت کے مستحق ہیں اور ان کیلئے آخرت میں برا ٹھکانا ہے۔ (الرعد: ۲۵)
ان روابط اور رشتوں کی تشریح کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:
’’یعنی جن روابط کے قیام اور استحکام پر انسان کی اجتماعی و انفرادی فلاح کا انحصار ہے اور جنہیں درست رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے ان پر یہ لوگ تیشہ چلاتے ہیں۔ اس مختصر سے جملہ میں اس قدر وسعت ہے کہ انسانی تمدن واخلاق کی پوری دنیا پر، جو دوآدمیوں کے تعلقات سے لے کر عالمگیر بین الاقوامی تعلقات تک پھیلی ہوئی ہے، صرف یہی ایک جملہ حاوی ہوجاتا ہے۔ روابط کو کاٹنے سے مراد محض تعلقات انسانی کا انقطاع ہی نہیں بلکہ تعلقات کی صحیح اور جائز صورتوں کے سوا جو صورتیں بھی اختیار کی جائیں گی وہ سب اسی ذیل میں آجائیں گی کیونکہ ناجائز اور غلط روابط کا انجام وہی ہے جو قطع روابط کا ہے یعنی بین الانسانی معاملات کی خرابی اور نظام اخلاق وتمدن کی بربادی۔ (تفہیم القرآن جلد اول صفحہ نمبر۲۰)
قرآن کی پیش کردہ یہ تاریخ انسانی حقوق اس امر کا واضح ثبوت مہیا کردیتی ہے کہ اسلام میں بنیادی حقوق کا تصور اولین انسان کی پیدائش کے دن سے موجود ہے۔ اور اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ ان حقوق کا ماخذ کیا ہے۔ یہ انسان اور اس کی خود ساختہ ریاست کے حکمرانوں کی باہمی نزاع وکشمکش اور ان کے درمیان ہونے والے معاہدوں سے وجود میں نہیں آئے۔ اورنہ کسی فلسفی، سیاسی مفکریا ماہرقانون کی دماغ سوزی کا نتیجہ ہیں۔ بلکہ یہ اپنی مخلوق کیلئے خالق اور اپنی رعایا کیلئے حقیقی متقدر اعلیٰ کا عطیہ ہیں۔ اورانسان کی ذات سے لازماً وابستہ ہیں ان کا تعین انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی ہوگیا تھا، ان کی آخری اور مفصل وضاحت حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت میں کردی گئی ہے۔ یہ حقوق زمان و مکان کی حدود سے ماورا ہیں۔ انسان اگر زمین سے پرواز کرکے چاند یاکسی اور سیارے پر جابسے تو وہاں بھی ان کی نوعیت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ جس طرح تبدیلی زمان و مکان سے انسان کی جسمانی ساخت اور اس کی فطری ضروریات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی اسی طرح اس کے حقوق وفرائض کی دائمی حیثیت میں بھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔ یہ حقوق ناقابل تغیر اور قطعی غیر منفک Inalienable ہیں۔ ریاست کا کام حقوق کا تعین نہیں بلکہ متعین حقوق کا نفاذ ہے۔
اہل مغرب کا دعویٰ ہے کہ بنیادی حقوق کی تاریخ صرف تین چار سو سال پرانی ہے۔ اور انہوں نے اس عرصہ میں اپنے ہاں بڑی جدوجہد اور کاوشوں سے جو کچھ حاصل کیا ہے، آج پوری دنیا اس سے فیضیاب ہورہی ہے لیکن قرآن جو تاریخ ہمارے سامنے پیش کررہا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس دن اولین انسان نے اس دنیا میںقدم رکھا تھا بنیادی حقوق اسی دن سے اس کے احساس وشعور کا حصہ ہیں۔ اور ان کا حصول وتعین اس کا اپنا کارنامہ نہیں بلکہ خود مقتدر اعلیٰ نے اسے بتدریج یہ حقوق عطا کئے ہیں۔ آج جہاں کہیں ان حقوق کی بازگشت سنائی دے رہی ہے وہاںالہامی تعلیمات کے پرتو ہی سے بنیادی حقوق کا شعور بیدار ہواہے۔
نارمن کزنس (Norman Cousins) کی کتاب ’’ہم خدا پر یقین رکھتے ہیں god We trust in مطبوعہ نیویارک ۱۹۵۸ء میں امریکہ کے بانیان دساتیر ( Founding Fathers) کے مذہبی عقائد پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ بنجامن فرنکلین، جارج واشنگٹن، جان ایڈمز، تھامس جیفرسن، جیمز میڈیسن، الیگزنڈر ہملٹن، سیموئل آدم، جان جے، اور تھامس پین سب کے سب عیسائیت کی تعلیمات پر پختہ یقین رکھتے تھے اور ان کے خیالات پر ان کے عقائد کا گہرا اثر تھا۔ جیمز میڈیسن ’’حق‘‘ کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: ’’ یہاں ایک انسان کا جو بھی حق ہے وہ دراصل دوسرے انسانوں پر خدا کی طرف سے عائد ہونے والا فرض ہے۔ (ص۱۷)
اسی طرح برطانوی اور فرانسیسی دساتیر کامطالعہ اگرمذہبی پس منظر کے ساتھ کیاجائے تو وہاں بھی بنیادی حقوق کااصل ماخذ مذہبی تعلیمات اور بالخصوص یورپ پر اسلام کے گہرے اثرات میں ملے گا۔

قرآن کی پیش کردہ تاریخ کے آئینہ میں دیکھا جائے تو فطری حقوق ( Natural Rights) اور پیدائشی حقوق ( Birth Rights) کی اصطلاح استعمال کرنے کا حق صرف اسلام کو ہے کیونکہ ان اصطلاحوں کے سلسلہ میں مغرب کے تصور حقوق میں جو ابہام پایا جاتا ہے وہ یہاں موجود نہیں ہے۔ اسلام اس سوال کا واضح جواب دیتا ہے کہ ان حقوق کو متعین کس نے کیا ہے جبکہ نظریہ فطری حقوق کے مغربی علمبردار بینتھم (Bentham) اوردوسرے معترضین کے اس سوال کا کوئی معقول جواب نہیں دے سکے کہ فطرت سے ان کی کیا مراد ہے؟ اور ان حقوق کا تعین کرنے والی اتھارٹی کونسی ہے؟ بہ الفاظ دیگر ان کی پشت پر سند جواز (Sanction) کیا ہے؟ اسلام نے حقوق کے فطری اور پیدائشی پہلو کو پوری وضاحت سے پیش کرکے اس طرح کے کسی اعتراض کی گنجائش نہیں چھوڑی ہے۔ (اقتباس کتاب ’’بنیادی حقوق ‘‘ از مولانا محمد صلاح الدین۔ ایڈیٹر جسارت)
اسلامی ریاست میں بنیادی حقوق کا دائرہ بہت پھیلا ہوا ہے اوراس میں بہت زیادہ وسعت رکھی گئی ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں پائے جانے والے غیر الٰہی دستاتیر اور اسلامی دستور حقوق انسانی اپنے اندر جو قوانین رکھتا ہے اس میں یہ فرق پایا جاتا ہے کہ دنیا کے دستور فقط ’’فرد اور ریاست‘‘ کے باہمی تعلق تک سکڑ کررہ جاتا ہے، اور اسلامی و قرآنی دستور کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ اس کا دائرہ اطلاق انسان کی پوری زندگی کو اپنے آغوش میں لیے ہوتا ہے۔ چنانچہ عقائد، عبادات واخلاق کا معاملہ ہو یا پھر معاشرت، تمدن اور معیشت سے تعلق ہو غرضیکہ سیاست، عدالت، صلح وجنگ کے علاوہ انسانی زندگی کے دیگر تمام شعبوں کے لاتعداد تعلقات ومتعلقات کو کچھ اس طرح منضبط ومستحکم کردیا ہے کہ اس طے شدہ ضابطے کے بعد اب ریاست کیلئے قانون سازی کی گنجائش بہت ہی محدود رہ گئی اور اگر کبھی کسی چیز کی ضرورت پیش آجائے تو اس محدود موقع سے استفادہ کرتے وقت بھی آزادانہ قانون سازی کی اجازت نہیں ہے البتہ اس موقع پر یہ شرط عائد ہے کہ ہر قانون قرآن وسنت کے احکام اور ان کی روح کے عین مطابق ہی ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو ایک جامع، حقوق انسانی کا تصور دیا اور اپنی حیات طیبہ میں ہی اسے عملی جامعہ پہنا کر ایک صالح معاشرہ کی تشکیل فرمائی جس کی بدولت انسانی معاشرہ پر ایسے حسین اثرات مرتب ہوئے کہ آدمی خود سے حقوق انسانی کا پاسدار و محافظ بن چکا۔
(جاری)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے