آن لائن تعلیم: مسائل و مشکلات

تحریر: محمد ثناءالہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ


کورونا وائرس کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہیں اور ایسالگتا ہے کہ مدارس اسلامیہ کا تعلیمی سال بندی میں ہی نکل جائے گا، ایسے میں بہت سارے لوگ آن لائن تعلیم کی وکالت کرتے ہیں ، بلکہ بہت سارے ادارے عملاً آن لائن تعلیم کا اہتمام کر رہے ہیں اور مطمئن ہیں کہ تعلیمی نظام جاری ہے ۔ اس نظام کا آغاز پہلی بار ویسٹرن بی ہیورل سائنس انسٹی چیوٹ لاجولا کیلوفورنیا نے ۱۹۸۲ئ؁ میں کیا تھا اور اسکول آف منیجمنٹ اینڈ اسٹریجٹک اینڈریز میں اس کا تجربہ کیا اور کمپیوٹر کانفرنسنگ کے ذریعہ بزنس ایگزیکیٹوکی شروعات کی ، ۱۹۸۹ئ؁ میں امریکہ کی فینکس یونیورسیٹی نے اسے اپنایا اور ۱۹۹۸ئ؁ آتے آتے امریکہ کی کئی بڑی یونیورسیٹیوں نے اسے اپنا لیا اور آن لائن تعلیمی سلسلہ شروع کیا، لیکن یہ طریقہ تعلیم اب تک اس قدر مقبول نہیں ہوا کہ اسکول و کالج کھولنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔
ہندوستان میں بھی یہ طریقہ پہلے سے رائج ہے اور اعلیٰ نصاب کی تکمیل کے لئے اسے استعمال کیا جاتا رہا ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے مختلف علوم و فنون کے ماہرین سے استفادہ آسان ہوتا ہے، اس کی اسی اہمیت کے پیش نظر ہندوستان میں بڑے پیمانے پر اس کی مارکیٹنگ کی جاتی رہی ہے، ۲۰۱۶ئ؁ میں ہندوستان میں آن لائن ایجوکیشن کی مارکیٹ چوبیس کڑوڑ ستر لاکھ امریکی ڈالر تھی، اب کوونا وائرس کی وجہ سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ۲۰۲۲ئ؁ کے آخرتک یہ۱۰۹۶؍ ارب امریکی ڈالر کی حد کو پار کرلے گا، تعلیم کی مارکیٹنگ کرنے والے اس پر پوری توجہ اس لئے بھی صرف کر رہے ہیں کہ کلاس روم کے تعلیمی نظام کی بہ نسبت آن لائن تعلیم پر ایک سو پچھتر (۱۷۵)فی صد کم خرچ آتا ہے، لیکن یہ تصور کا ایک رخ ہے۔
دوسرا رخ یہ ہے کہ ہندوستان اب بھی غریب ملک ہے، یہاں یومیہ آمدنی فی کس لاک ڈاؤن کے پہلے بھی ۲۔۳ امریکی ڈالر سے زیادہ نہیں تھی، ایک سروے کے مطابق ایسے لوگوں کی تعداد اکاسی کڑوڑ بیس لاکھ تھی، لاک ڈاؤن کے بعد ایسے لوگوں کی تعداد اکانوے کڑوڑ پچاس لاکھ ہو گئی ہے ۔ ۲۔۳ امریکی ڈالر کا مطلب آج کے اعتبار سے صرف دو سو انتالیس روپئے ہے، اتنی کم آمدنی میں آدمی اپنی ضروریات زندگی کھانا، کپڑا اور مکان کے لئے فکرمند ہوگا،یا اپنے بچوں کو انڈرائیڈ موبائل ، ٹیبلیٹ یا لیپ ٹوپ خرید کر دیگا یا اور خرید بھی دے کسی طرح تو ماہانہ انٹرنیٹ کا خرچہ کہاں سے لائے گا، بھوکے رہ کر بچوں کے مستقبل کے لئے یہ سب کر بھی لے تو دیہات اور گاؤں میں موبائل چارج کرنے کے لئے بجلی کہاں سے دستیاب ہوگی، ان میں سے کوئی ایک بھی کڑی ٹوٹی تو آن لائن تعلیم سے فائیدہ اٹھانا بچوں کے لئے مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔
آن لائن تعلیم کی حمایت کرنے والے بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ اب ہر شخص کے پاس انڈرائیڈ موبائل ہے، اس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہندوستان جنگلوں اور دیہاتوں میں بھی بستا ہے، بلکہ ساٹھ سے ستر فی صدی آبادی وہیں بستی ہے، جہاں موبائل کا نیٹ ورک نہیں رہتا اور بجلی غائب ہوتی ہے تو ہفتوں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔
ان ساری مشکلات پر قابو پا لیاجائے توبھی آن لائن تعلیم کلاس روم کا بدل نہیں ہے، کلاس روم میں استاذ صرف پڑھاتا ہی نہیں، بچوں کی نفسیات اس کی حرکات و سکنات پر بھی نگاہ رکھتا ہے، اس کے ہوم ورک اور روز مرہ کی کاپیوں کو بچوں کے سامنے چیک کرکے ان کی غلطیوں کی نشان دہی کرتا ہے، بچے کلاس روم میں صرف استاذ کا لکچرہی نہیں سنتے وہ اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کے لئے بھی استاذ سے رجوع کرتے ہیں اور جواب پاتے ہیں، استاذ کے لکچر کی طرف طلبہ کی توجہ مرکوز ہوتی ہے۔
آن لائن کلاس میں بچہ گھر پر ہوتا ہے، اسے اسکول کا ماحول نہیں ملتا، گھر میں دوسرے بچے اورلوگ دوسری مشغولیت میں لگے ہوتے ہیں، گھر میں ہو رہے شور شرابے سے طلبہ کا ذہن اسباق پرمرکوز نہیں ہو پاتا، اساتذہ بھی طلبہ پر آن لائن کلاس میں توجہ نہیں دے سکتے ، ان کی ساری توجہ اسکرین پر رہتی ہے، بچہ لیپ ٹاپ کے اسکرین پر بیٹھا کیا کر رہا ہے، یہ استاذ کو معلوم نہیں ہوتا اور بیش تر گارجین کی دلچسپی اپنی کم علمی اور صلاحیتوں کے فقدان کی وجہ سے آن لائن کلاس کے وقت بچوں کی طرف نہیں ہوتی، وہ صرف موبائل یا لیپ ٹاپ پر اسے بٹھا کر مطمئن ہو جاتے ہیں اور بچے کارٹون اور ڈیجیٹل گیم میں لگ جاتے ہیں، جب کہ کلاس روم میں عموماً ایسا نہیں ہوتا ۔
جو لوگ اس کام پر لگائے گئے ہیں وہ اساتذہ ہی ہیں، لیکن انہیں اس طریقۂ تدریس کی تربیت نہیں دی گئی ہے اور انہیں یوں ہی بورڈ اور اسکرین پر کھڑا کر دیاگیا ہے، یہ عجیب و غریب بات ہے کہ کلاس روم میں پڑھانے کے لئے تو دو سال کی ٹریننگ ضروری قرار دی جائے اور آن لائن تعلیم کے لئے دس بیس روز کاتربیتی کورس بھی نہ کرایا جائے ، یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ کلاس روم میں جو الٹا سیدھا استاذ پڑھا دیتاہے اس کا کوئی رکارڈ نہیں ہوا کرتا، معلومات بچوں میں صحیح منتقل ہوتی ہے یا غلط اس کا جائزہ لینے والا کوئی نہیں ہوتا، لیکن آن لائن کلاس کا رکارڈ ہوتاہے اور ہمیں اندیشہ ہے کہ بعض وجوہات سے ہماری جگ ہنسائی نہ ہو، جیساکہ اساتذہ سے ذرائع ابلاغ والوں کے ذریعہ لئے گئے انٹرویو سے باربار خفت کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جو لوگ آن لائن تعلیم دلوارہے ہیں اور ابتدائی نہیں اعلیٰ درجات میں ماہر پیشہ ور اساتذہ کو اس کام میں لگا رکھا ہے، وہ بھی اس طریقۂ تعلیم سے مطمئن نہیں ہیں، وہ اسے گپ شپ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے، جب اعلی درجات میں اس طریقہ تعلیم کا فائیدہ اس قدر نہ یں ہوا کہ نصاب کو مکمل قرار دے کر امتحان لیا جائے اور بچوں کی کامیابی ، ناکامیابی کی بنیاد پر ترقی کا فیصلہ لیا جائے ، تو بھلا پرائمری اور ثانوی درجات کے بچے کس قدر اس طریقۂ تعلیم سے استفادہ کر سکیں گے، جگ ظاہر ہے۔
ایسے میں دو سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے، ایک یہ کہ جو اساتذہ آن لائن پڑھا رہے ہیں یا پڑھانا چاہتے ہیں، سرکاری سطح پر ان کی تربیت کا نظم کیا جائے ، دوسرے کرونا وائرس سے بچنے کے لئے جو گائید لائن حکومت نے دیا ہے اس کی پابندی اور پاسداری کرتے ہوئے اسکول کو کھولا جائے، ثانویہ اور اعلیٰ درجات میں تویہ چنداں مشکل نہیں ہے، جب کارخانے اور دفاتر پچاس فی صد کارکنوں کے ساتھ کھولے جا سکتے ہیں تو کئی شفٹ میں سوشل ڈسٹنسنگ کا خیال کرتے ہوئے تعلیمی ادارے اپنی سرگرمیاں کیوں نہیں جاری رکھ سکتے، ایسا لگتا ہے کہ سرکار کی نظر میں معاشی مسائل کے مقابلہ میں تعلیم کی بہت اہمیت نہیں ہے، اس لئے معاشی سرگرمیوں کے لئے چھوٹ دی جارہی ہے اور تعلیمی سرگرمیوں پرمضبوط پہرہ بحال رکھا ہے، اگر کورونا کا اتنا ہی ڈر ہے تو اساتذہ کو بھی اسکول و مدرسہ کی حاضری کا پابند نہیں کرنا چاہئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے