استاد جی کہتے ہیں کہ آج کا انسان ” عدد” میں منتقل ہوتا جارہا ہے ۔ اتنا کہہ کر استاد جی تو نکل گۓ اور ہم سوچتے رہ گۓ۔ آجکل اتنا سوچ رہا ہوں کہ کہیں نیوٹن نہ بن جاؤں۔ جب اس جملہ پر غور کیا تو دماغ کی بتی جل اٹھی اور عقل کے ہزار طبق روشن ہوگۓ۔ آج کا دور ڈیجیٹل دور ہے ،اب انسان کی شناخت عدد یا نمبر سے ہوگئ ہے ۔ کل شام کی بات ہے کہ راہ چلتے ذوق صاحب سے سامنا ہوگیا۔ پوچھا تو کہنے لگے کہ وہ گلی نمبر 12 کے اپارٹمنٹ نمبر 7 کے فلیٹ نمبر 705 سے تشریف لا رہے ہیں ۔ انہوں نے بھی رسما” یہی سوال پوچھ ڈالا تو ہم نے بھی یہی بتایا کہ گلی نمبر 15 کے فلیٹ نمبر 506 پر جارہا ہوں۔ پہلے کے زمانہ میں لوگ ناموں سے جانے جاتے تھے ،آج نمبروں سے جانے جاتے ہیں ۔ اب تو جینا – مرنا دونوں اعداد کے گرداب میں ہی غوطہ زن رہتا ہے۔ اسپتال میں مریض ان ہی اعداد کے رحم وکرم پر زندہ رہتا ہے، جب تک یہ آلات اعداد بتا رہے ہیں، تب تک امید کا چراغ روشن ہے ، جب صفر کا اعلان ہوا تو ہم بھی صفر ہوجاتے ہیں ۔
آپ نے ضرور کہانی ” علاء الدین کا چراغ ” پڑھی ہوگی، آج کے بچے پڑھتے نہیں ہیں، دیکھتے ہیں ۔ اب آپ بھی اسی طرح حکم دیں گے یا چٹکی بجائیں گے اور ساری نعمتیں آپکے سامنے حاضر ہوجائیں گی۔ امیزون نے صارفین کے لئے ” وائس آرڈر ” یعنی آپ زبان سے حکم دیں اور حکم کی تعمیل ہوگی ، شروع کیا ہے، اب انگلی گھمانے یا کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، ویسے ہم لوگوں کو انگلی کۓ بغیر قرار کہاں حاصل ہوتا ہے۔ لوگ اتنے سہل پسند ہوگۓ ہیں کہ پہلے 48 گھنٹوں کے اندر ایک ملین لوگوں نے اس سہولت کا استحصال کیا۔ یہ سہولت امیزون کے علاوہ دوسری آن لائن شاپنگ کمپنیاں بھی شروع کی ہیں ۔ اسنیپ ڈیل تو انگریزی زبان کے علاوہ دیگر ہندوستانی زبانوں میں بھی یہ سہولت شروع کرنے جارہا ہے ، ان میں ہندی، تمل، کنڑ، تلگو، ملیالم، گجراتی، پنجابی اور مراٹھی زبانیں ہیں، مگر بےچاری اردو نہیں ہے اور ہو تو کیوں ہو؟ جب ہم اپنے گھروں پر نیم پلیٹ اردو میں نہیں نصب کرتے، دکانوں کے بورڈ اردو میں پسند نہیں کرتے ، یہ تو دور کی بات ہے بلکہ زیادہ تر شادی بیاہ اور ذاتی تقریبات کے دعوت نامے اردو زبان میں نہیں ہوتے تو پھر کاروبار کرنے والی کمپنیاں اردو زبان کی اہمیت و افادیت کیا سمجھیں! جب تک کوئ زبان روزگار ،کاروبار سے نہیں جڑے گی، وہ زبان ترقی نہیں کرسکتی خواہ آپ لاکھوں کے مجمع میں مشاعرہ کرلیں ،سیمینار و سمپوزیم کرلیں یا سرکار اردو والوں کی سہولت کے لئے ہر دفتر میں لائق مترجمین کیوں نہ مامور کردے۔ معاف کریں، اردو کی محبت کی وجہ سے موضوع سے انحراف کر گیا تھا، ویسے ایک صاحب عقل کا قول ہے کہ آج اردو کا ذکر کرنا بھی ایک نیکی ہے۔
ڈیجیٹل ہونے کا فائدہ یہ ہے کہ اب تو من سلوی کی طرح کھانا آپکے منھ تک آجاۓ گا۔ آپکے گھر تک من پسند کھانا پہنچانے والی کاروباری ایجنسی زومیٹو اور سوئگی اب ڈرون اور روبوٹ کے سہارے خوردنی اشیاء فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
ذرا آپ ٹوٹل لاک ڈاؤن کا تصور کریں ،جب شہر بند تھا ، قرین قیاس ہے کہ شہر کے بازار بند ہوجائیں گے اور اب لوگ آن لائن شاپنگ کریں گے۔ جب آن لائن شاپنگ شروع ہوئ تھی تو اس وقت محض تین فیصد لوگ ہی اسکا استعمال کر رہے تھے ،آج تو غیر متوقع طور پر کئ گنا اضافہ ہوا ہے، کورونا کال نے مزید مہمیز لگایا ہے۔ آج ہندوستان کی 700 ملین آبادی انٹرنیٹ کا استعمال کررہی ہے اور تقریبا” 100 ملین لوگ رقم کا آن لائن لین دین کر رہے ہیں ۔ اب آپکو نہ اے ٹی ایم کارڈ کی ضرورت پڑے گی اور نہ کریڈٹ کارڈ کی، موبائل ہی ماں باپ بن جاۓ گا۔ اسٹیٹ بینک آف انڈیا تو ٹائیٹن کی مدد سے اسمارٹ واچ لانے جارہا ہے ،جس سے بینکنگ کے سارے کام انجام پائیں گے، مگر پاس ورڈ تو یاد رکھنے پڑیں گے، صرف دنیا میں ہی نہیں آخرت میں بھی ۔ آج تو پاس ورڈ یاد رکھنا بھی ایک مسلہ بن گیا ہے، ہر قدم پر پاس ورڈ۔ اب تو گھروں میں داخل ہونے کے لۓ بھی پاس ورڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب تو بیویاں مال میں اپنی مرضی کی خریداری کریں گی اور بل ” پیارے میاں ” کی موبائل پر چلا جاۓ گا کیونکہ بل کی ادائیگی کے لئے ایک اور تکنیک آگئ ہے ، جسکا نام ہے ٹوکنائزیشن، بل کے لۓ نہ تو کاؤنٹر پر جانے کی ضرورت ہے اور نہ کارڈ کی ضرورت پڑے گی ۔
مگر سوچنے والی بات یہ کہ سائنس اور ٹکنالوجی نے اتنی ترقی کرلی ہے اور ہم اسکا شب وروز استعمال کر رہے ہیں، لیکن ان ترقیات میں ہمارا کتنا حصہ ہے۔ انگریزوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی ایجادات و کھوج کا استعمال تو ہم خوب کرتے ہیں اور پھر پانی پی پی کر کافروں کو گالیاں دیتے ہیں بلکہ انکی بنائ ہوئ چیزوں کے سہارے ہی۔ کیا وہ آپکی ان حرکات سے بےخبر ہیں ؟ جب ہم ان کے شکنجے میں پوری طرح جکڑ جاتے ہیں تو پھر اپنی بےچارگی کا رونا روتے ہیں ۔ ہم میں سائنٹفک ٹمپرامنٹ کا فقدان ہے ۔ ہمارے علماء و اکابرین کو فرقہ – فرقہ کھیلنے سے فرصت کہاں۔ انہیں اس سے فرصت ہی نہیں ہے کہ داڑھی، مسواک کی لمبائ کتنی ہونی چاہئے ۔ کبھی ہمارے اسلاف نے ریاضی، کیمیا، طبیعات، حکمت میں بڑی ترقی کی تھی، جسکی نقل کر کے یوروپ اور امریکہ نے کافی ترقی کی ہے۔ مسلم سائنسداں جابر بن حیان کو باباۓ کیمیا کہا جاتا ہے۔ یعقوب بن طارق نے الجبرا پر کافی کام کیا تھا۔ اسی طرح محمد العزاری نے ریاضی و فلکیات کے میدان میں کام کیا تھا ،الاصمعی نے حیوانیات و نباتیات کے میدان میں شہرت پائ تھی۔ اب ہمیں تو پیچھے مڑ کر دیکھنے کی بھی فرصت نہیں کیونکہ دیگر معاملات میں اتنا الجھا دیا گیا ہے کہ ہم اسی میں گول گول گھومتے رہ جاتے ہیں اور کوئ سرا نظر نہیں آتا۔
آپ اس خوش فہمی میں مبتلا نہ رہیں کہ ہم جس تکنیک کا استعمال کرتے ہیں، وہ بدلے میں کچھ نہیں لیتی۔ یہ آپکی رازداری، ایمانداری، صبر و قناعت، طرز زندگی ، سوچنے کا نظریہ اور بھی بہت کچھ چھین لیتی ہے اور ہم محض ایک ” عدد” بن کر رہ جاتے ہیں ۔
ویسے ہملوگ تو بہت پہلے سے ہی ڈیجیٹل تھے ، ہر کام ۷۸۶ سے شروع کرتے ہیں مگر اختتام کس نمبر پر ہوگا، مجھے تو پتہ نہیں، اگر آپکو معلوم ہوجاۓ تو استاد جی کو ضرور بتائیں گے!
تحریر: (ڈاکٹر) محفوظ عالم