وقت کا تقاضہ ہے کہ ماحول کو سمجھا جائے

تحریر:محمدقاسم ٹانڈوی

فی الوقت ریاست یوپی کے عوام دو موسموں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں؛ ایک سردی کا موسم ہے، اور دوسرا انتخابی موسم۔ موسم سرما نے عوام کی حالت یہ کر رکھی ہے کہ لوگ بہت ہی اہم ضرورت کے وقت گھر سے باہر نکلتے دکھائی دے رہے ہیں، اور اس میں بھی وہ جگہ جگہ جلتے الاؤ کے اردا گرد بیٹھ کر اپنے تن بدن کو گرمی اور خون کو حرارت دے کر اپنے کام نمٹا رہے ہیں، تو وہیں انتخابی موسم نے بےوقت اور بغیر ضرورت کے بھی لوگوں کو چائے خانہ اور گلی نکڑ پر جمع کر رکھا ہے۔ جہاں عوام کی گفتگو اور تمام تر بحث و مباحثہ کا مرکزی عنوان صرف دو نقاط پر مرتکز رہتا ہے۔
(1) اب کی بار حکمراں جماعت کو اقتدار سے باہر ہونا چاہیے، اور (2) غیر بی جے پی حکومت کو سرکار بنانے کا موقع ملنا چاہیے۔ ان دونوں پہلوؤں میں سے سیاست کا یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھےگا یا کس کو وہ اپنی پیٹھ پر بٹھا کر پانچ سال ریاست کی سواری کرائےگا؛ یہ وقت طے کرےگا، اس سلسلے میں ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا، ویسے بھی الیکشن کمیشن کی طرف سے سروے اور جائزوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
جہاں تک عوامی رجحان اور لوگوں کی پسند کا اندازہ کیا جا رہا ہے، وہ یہی ہےکہ اکھلیش کی سماج وادی پارٹی اور اس کے اتحادی حکمراں جماعت کو سخت ٹکر دے رہے ہیں، اور جیسے جیسے انتخابی وقت قریب آتا جا رہا ہے، ویسے ویسے ووٹر کا مزاج اور ریاست کا ماحول اسی اتحادی دل کی لہر میں رنگتا جا رہا ہے، اس کے علاوہ کانگریس، عام آدمی پارٹی، بی ایس پی اور ایم آئی ایم (مجلس) بھی میدان میں قسمت آزمائی کر رہی ہیں؛ مگر آخری تینوں میں سے کوئی ایک بھی اس پوزیشن میں نہیں ہے، جو حکمراں جماعت کو اقتدار سے باہر کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہو، بلکہ آخر الذکر دو پارٹیوں کے تئیں عوام کا زیادہ تر خیال مثبت نتائج اخذ کرنے اور کوئی بہتری انجام دینے کا نہیں ہے، اس لئے کہ بی ایس پی کی سربراہ مایاوتی پر عوام کو کوئی زیادہ اعتماد نہیں رہ گیا ہے، کیونکہ ان کی مفاد پرستی مشہور ہے اور کئی مرتبہ ان کی طرف سے عوام کو دھوکہ اور مایوسی ہاتھ لگی ہے، وہ عین وقت پر اپنا نیلگو لباس اتار کر اس کی جگہ زعفرانی اور گیروا چوغہ زیب تن کر چکی ہیں، جس سے کہ ان کا بیمار ذہن ہونا اور مفاد پرست ہونے کا ثبوت بارہا عوام کے سامنے آ چکا ہے، ایسے میں اگر عوام کا ذہن و رجحان ان کی پارٹی کے امیدواروں کی طرف نہیں بھی ہو رہا ہے تو قصور عوام کا نہیں؛ بلکہ خود ان کا اپنا ہے۔
رہی بات مجلس کی تو اس کی ایک مشکوک پالیسی اور دوسرے مذہبی شدت پسندی کی وجہ سے بھی عوام کا ہوش مند اور اعلی شعار طبقہ مطمئن نہیں ہے، اس لئے کہ وہ جہاں جاتے ہیں "اپنی سیاست، اپنی قیادت” اور خالص مسلم ایشوز کی بات کرتے ہیں، اور اپنے کیڈر کے درمیان اور مسلم عوام کے سامنے وہی جذباتی نعرے اور دو رخی باتیں دوہراتے نظر آتے ہیں، جو تقسیم وطن کے وقت کی گئی تھیں اور جن کا خمیازہ قوم ابھی تک بھگت رہی ہے، ان باتوں کی بدولت ہی فسطائی طاقتوں اور فرقہ پرست عناصر کو ملک کے ماحول کو پراگندہ کرنے کا موقع فراہم ہوتا ہے اور انہیں آگ و خون کے دریا بہانے میں توانائی حاصل ہوتی ہے۔ دوسرے ان کی اس شدت پسندی اور مسلم قیادت و سیادت کا اپنے دم پر کھڑا کرنے جیسے مدعوں سے ان سیکولر ذہن رکھنے والوں کے جذبات کو بھی مسلسل ٹھیس پہنچ رہی ہے، جو عوامی سطح پر منفی اظہار خیال کی آزادی کے خلاف مسلمانوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور یہ طبقہ کاندھے سے کاندھا ملا کر مسلمانوں کے حق و انصاف کی لڑائی لڑ رہا ہے اور ایوان و عدالت میں مجرمین کے خلاف آواز بلند کر انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کی تگ و دو کر رہا ہے؛ ایسے جذباتی نعرے اور مذہب کی بنیاد پر ایسی سیاسی سرگرمیاں ان کے قدموں میں لڑکھڑاہٹ پیدا کرتی ہیں اور حق و انصاف کی لڑائی سے انہیں مزید دور اور اصل مقاصد میں پیچیدگیاں لاتی ہیں۔
یاد رکھئے! ایسے مذہبی نعروں اور جوشیلے وعدوں سے مخالف کو مضبوط تو کیا جاسکتا ہے؛ مگر کمزور اور ختم نہیں کیا جاسکتا، مخالف کو کمزور اور بےہمت کرنے کےلئے ضروری نہیں کہ انہیں کی بولی بولی جائے اور جس زبان و بیان کا استعمال مخالف خیمہ کر رہا ہے، ہم بھی اسی طرز اور ادا کو اختیار کر میدان میں اتریں۔ نہیں؛ بلکہ ایسے مواقع پر مکمل دانشمندی اور ہوشیاری کے ساتھ میدان میں اترا جاتا ہے، اور حکمت عملی کے ساتھ اس کے بنائے کھیل اور ماحول کو خراب کیا جاتا ہے۔ ہم اپنے خلاف نفرت و تشدد کی پھیلی آگ کو نفرت آمیز لہجے اور بدزبانی سے نہیں بجھا سکتے اور نہ ہی ماضی میں کی گئی غلطیوں کو برسر عام لاکر ان سے ملے ہوئے زخموں کو کریدنے سے کوئی فائدہ حاصل ہونے والا ہے، بلکہ موجودہ وقت میں ضرورت ہے ایسا ماحول بنانے کی جس سے کہ ہمارے مشن و تحریک کو استحکام حاصل ہو اور ایوان میں ہماری نمائندگی گرچہ محدود و قلیل ہو لیکن دوران انتخاب عوام کے سامنے لائی گئیں ہماری پالیسیاں مابعد الیکشن قوم کو نقصان سے دوچار کرنے والی ثابت نہ ہوں۔ چونکہ اس وقت ہماری جو حالت اور کنڈیشن ہے وہ اقتدار میں خالص واپسی یا اپنے بل بوتے پر حصہ داری نبھانے کی نہیں ہے، ہمیں تو اس مقام پر آتے آتے ابھی کافی وقت کا انتظار کرنا ہوگا اور جب تک ہم مکمل اس مقام پر آ نہیں جاتے، تب تک ہماری طرف سے کوئی بھی قدم ایسا نہیں اٹھنا چاہئے جو ملتی مراعات اور حقوق سے بھی محروم کر دے اور اقتدار پر قابض جماعت کو یہ کہنے کا موقع فراہم کرا دے کہ: "تم نے اپنا ووٹ دیا ہی کب تھا ہمیں، جو اب ہم سے صلے اور نفع کی بات کر رہے ہو”؟
رہی بات کانگریس پارٹی کی، تو اگر چہ وہ کوئی خاص پ وزیشن میں نہیں نظر نہیں آ رہی ہے، مگر اس کی اہمیت اور زمینی محنت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اس کے پاس طویل تجربہ ہے، وہ قدیم اور بڑے لیڈروں کی موجودگی میں میدان سیاست کا حصہ بنی ہوئی ہے، اس سے وابستہ افراد اور لیڈران مسلسل اس کی سیاسی زمین کو ہموار و وسیع کرنے میں لگے ہیں، جو موقع آنے پر ذاتی مفاد پر قومی و ملی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ لینے کا استحقاق رکھتے ہیں۔ یقینا کانگریس پارٹی آج اپنے بد ترین دور سے گزر رہی ہے اور مرکز سمیت ملک کی بیشتر ریاستوں میں اقتدار سے باہر ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ آنے والا دور کانگریس کا دور ہوگا اور یہ جو ملک میں مذہب کی افیم لوگوں کو چٹا رکھی ہے، بس اس کا نشہ ذرا اتر جائے اور لوگوں کو بھلے برے کی تمیز آجائے؛ یہ لوگ خود محسوس کریں گے کہ ایک طویل تجربہ کار اور سیاست کے داؤ پیچ سے واقف ملک کی سب سے بڑی اور قدیم پارٹی کو اقتدار سے باہر کرنے اور دور رکھ کر ہم نے ملک کو جس رخ اور غلط سمت پر ڈالا تھا، وہ ہماری بڑی بھول تھی اور اس بھول کے نتیجہ میں ملک و قوم کا جو نقصان ہوا ہے اس کی بھرپائی نصف صدی تک بھی نہیں ہوسکتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے