از قلم : مجاہد عالم ندوی
استاد : الفیض ماڈل اکیڈمی بابوآن بسمتیہ ارریہ بہار
رابطہ : 8429816993
وقف ایک ایسا ادارہ ہے جو اسلامی تعلیمات کے مطابق مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کی گئی جائیدادوں کا نگران ہوتا ہے ، یہ جائیدادیں تعلیمی ، دینی ، ملی ، سماجی اور فلاحی مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی ہیں ۔ لیکن 2024 میں پاس ہونے والا ” وقف ترمیمی بل” مسلمانوں کے تشویش کا باعث بن گیا ہے ۔ وقف ترمیمی بل 2024 کے نفاذ کے بعد مسلمانوں کو کئی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ اس قانون کے مطابق حکومت کو یہ اختیار حاصل ہو جائے گا کہ وہ وقف کی جائیدادوں کا انتظام و انصرام سنبھالا سکے اور ان جائیدادوں کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کر سکے ۔ یہ چیز وقف کی خود مختاری اور اس کے اصلی مقصد سے انحراف کے مترادف ہے ۔ وقف جائیدادوں کا ایک بڑا حصہ مساجد ، مکاتب ، مدارس ، خانقاہیں ، درگاہیں ، قبرستانوں اور عیدگاہیں ، یتیم خانے اور دیگر دینی و فلاحی اداروں کے تحت ہوتا ہے ۔ اگر حکومت ان جائیدادوں کو کنٹرول کرتی ہے تو ان اداروں کی خود مختاری ختم ہو جائے گی ۔ جس سے مسلمانوں کی مذہبی اور تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہو سکتی ہیں ۔ مدارس و مکاتب اور مساجد کے لیے وقف زمینوں کا استعمال دینی تعلیم شعار اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے کیا جاتا ہے ، لیکن اس قانون کے تحت حکومت کے ذریعے ان زمینوں کے استعمال کے قواعد و ضوابط تبدیل کیے جا سکتے ہیں ، جو مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر براہ راست اثر ڈالے گا ۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد وقف جائیدادوں کی غیر معمولی فروخت یا نیلامی کا خدشہ بھی ہے ، اس وقف جائیدادوں کی قدر و قیمت کم ہو سکتی ہے اور ان جائیدادوں کو دیگر مقاصد کے لیے فروخت کیا جا سکتا ہے ۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے منصوبے اور تنظیمیں مالی مشکلات میں گھر سکتی ہیں ، کیونکہ ان کے پاس وقف جائیدادوں سے حاصل ہونے والے مالی وسائل کم ہو جائیں گے ۔ وقف کی نگرانی کے لیے بنائی جانے والی کمیٹیوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کو بھی کم کرنے کی بات کی جا رہی ہے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو وقف جائیدادوں کے بارے میں فیصلے کرنے میں مسلمانوں کی رائے کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے ۔ یہ مسلمانوں کے لیے بڑا نقصان ہے کیونکہ وقف کا اصل مقصد ہی مسلمانوں کی فلاح و بہبود ہے ، یہ قانون مسلمانوں کے سماجی اور تعلیمی مقاصد کے لیے بھی نقصاندہ ہو سکتا ہے ۔ وقف جائیدادوں کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ تعلیمی اداروں اور طلبہ کی مدد کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ اگر ان جائیدادوں کا انتظام حکومت سنبھال لیتی ہے تو یہ مالی وسائل تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہو سکیں گے ۔ جس سے مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچے گا ۔ اس بل کی مخالفت میں مسلمانوں نے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ حکومت اس بل پر نظر ثانی کرے ۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وقف ایک دینی ادارہ ہے اور اس کی جائیدادوں کا انتظام مسلمانوں کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے ۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت کو وقف جائیدادوں میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور انہیں ان کے اصل مقصد کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے ۔ مجوزہ وقف بل سے حکومت کی بد نیتی اور اس کے برے ارادوں کی نشان دہی ہوتی ہے ، حکومت موجودہ وقف قانون میں ایسی تبدیلیاں کرنا چاہتی ہے جس سے وقف املاک پر غیر قانونی قبضہ داروں ، مافیاوں کے قبضہ کی راہ ہموار ہو جائے ۔ دانشوروں نے اس تاثر کو بھی سختی سے مسترد کیا کہ وقف کے پاس ریلوے کے بعد سب سے زیادہ جائیدادیں ہیں ۔ موجودہ وقف ترمیمی بل مسلمانوں سے دشمنی نکالنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے ، بل کا مسودہ کسی ایسے شخص نے تیار کیا ہے جو وقف کے تصور سے بھی ناواقف ہے ۔ اس بل میں وہ تمام خرابیاں موجود ہیں جس سے وقف املاک پوری طرح خطرہ سے دو چار ہو جائیں گی ۔ پچھلے دس برسوں کے دوران ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے حقوق میں کئی قانون جبریہ طور پر لائے اور نافذ کیے گئے ہیں ۔ یہ وقف ترمیمی بل بھی ان میں سے ایک ہے جسے کسی بھی طرح منظور کروا کر مسلمانوں پر جبرا لاگو کرنے کی سازش ہو رہی ہے ، جسے ہم قبول نہیں کر سکتے ۔ وقف اسلام کا ایک اہم ترین عمل ہے اور مالی عبادت ہے ۔ اس کی حفاظت پوری ملت اسلامیہ کا فریضہ ہے ۔ اس وقت مرکزی حکومت جو وقف ترمیمی بل 2024 لائی ہے ، جس کو لوک سبھا میں پیش کیا گیا ہے اور مختلف ممبران کے اعتراض پر جے پی سی کے حوالہ کر دیا گیا ہے ، اس نے تمام لوگوں سے اس بارے میں رائے طلب کی ہے ۔ یہ بل پوری طرح وقف کے تحفظ ، اس کے مقاصد اور انتظامی ہیئت کو نقصان پہنچانے کے لیے بنایا گیا ہے اور اس کے بہت سنگین نقصانات کا اندیشہ ہے ۔ اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور تمام ملی تنظیمیں حکومت سے اس بل کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہیں ۔ مختصر یہ کہ وقف ترمیمی بل 2024 کے نفاذ کے بعد مسلمانوں کے لیے کئی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں ، اس سے ان کی مذہبی آزادی ، تعلیمی مواقع اور فلاحی کاموں پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔