انوار الحق قاسمی (ناظم نشر و اشاعت جمعیت علماء ضلع روتہٹ نیپال)
خالق کائنات نے دنیاوی دستورایسا بنایا ہی ہے کہ دنیا میں قدم رکھنے والا ہر انسان، خواہ وہ قدر و منزلت میں دنیاوی اعتبار سے بڑاسے بڑا یا چھوٹا سے چھوٹا انسان کیوں نہ ہو،اسے ایک نہ ایک روز راہی ملک عدم ہونا ہی ہے:یعنی اسے یہ دنیا چھوڑ کراپنے خالق و مالک سے ملنا ہی ہے۔
اور موت ہی ایک اٹل حقیقت ہے،جس کے سامنے کسی کی نہیں چلتی ہے، ہر ایک کو اس کا جام بطیب خاطر ہو یا ناگوار خاطر بہر حال پینا ہی ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہےکہ آج تک کسی انسان کے اندر یہ ہمت اور جرات پیدا نہیں ہوئی ہے کہ وہ یہ کہہ دے کہ’ ہمیں یہ دنیا کبھی نہیں چھوڑنا ہے’ بل کہ ہر شخص دنیا چھوڑنے کا قائل ہی ہے۔مگر افسوس اس کا ہے کہ اکثرانسان ” موت "کو امر یقینی سمجھنے لینے کے باوجود بھی مرنے کے بعد والی زندگی کے لیے کوئی خاص تیاری نہیں کرتے ہیں اور عارضی زندگی کے لیے اتنی محنتیں کرتے ہیں،جن کی کوئی انتہا نہیں،جب کہ یہ محنتیں دائمی زندگی(بعد الموت والی زندگی)کے لیے ہونی چاہیے تھی؛مگر انہوں نے معاملہ بالکل برعکس کرلیاہے،جس کا خسارہ اور نقصان،تو انہیں اٹھانا ہی پڑے گا۔ کیوں کہ دنیا میں اگر کوئی نیک عمل کرتاہے،تو اپنے لیے کرتاہے اور اگر کوئی عمل بد کرتاہے،تو وہ بھی اپنے ہی لیے کرتاہے۔
واضح رہے کہ دنیاوی دستور اور قانون خداوندی کے مطابق میرے رفیق مکرم مولانا محمد توصیف صاحب کے استاذ محترم قاری حسین صاحب (استاذ تفسیر و فقہ دارالعلوم/اکواڈا گھوگھا روڈ بھاؤ نگر گجرات)کی والدہ محترمہ 95/سال کی ایک طویل عمر پاکر 12/جنوری 2022ء بروز جمعرات بوقت شام:3_45 پر اپنے آقا و مولا سے جاملیں انا لله وانا إليه راجعون. تغمدها الله بغفرانها.
اللہ مرحومہ کی بال بال مغفرت فرمائے،کروٹ کروٹ راحت نصیب فرمائے ،ان کی حسنات کو قبول فرمائے،سیئات کو حسنات سے مبدل عطا فرمائے اور حضرت قاری حسین صاحب کو مع جملہ پس ماندگان صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
شعر: آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے