ویلنٹائن ڈے: جس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں

تحریر: محمدقاسم ٹانڈؔوی

قرآن حکیم میں بندوں کو اللہ سے ہر حال میں ڈرتے رہنا کا حکم ہے، فرمایا گیا:
"اے ایمان والوں! اللہ سے ڈرتے رہو، جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے، اور تم اسلام کے علاوہ کسی اور حالت پر جان مت دینا”۔ (سورہ آل عمران:102)
قرآن پاک کی یہ آیت کریمہ جہاں ہمیں دعوت فکر و عمل پر آمادہ کرتی ہے، وہیں معاشرے کو بدعات و خرافات سے پاک، فضول اور بےمقصد لہو و لعب سے مبرہ اور ماحول کو پُرامن و پُرکیف بنانے میں معاون و مددگار ہوتی ہے؛ نیز ہر دور میں جنم لینے والے فتنوں سے بچاؤ اور اسلامی تشخص کو اپنا کر قرآن کے آفاقی پیغام سے دوسروں کو واقف و باخبر کرنے میں بھی بہت حد تک اس آیت کریمہ کا پیغام کارگر ثابت ہوتا ہے۔
معاشرہ آج کل بڑی تیزی سے روبہ زوال ہو رہا ہے؛ جس سے زندگی کے ہر شعبہ میں تنزلی اور گراوٹ کا احساس ہر شخص کو ہے، ہر جگہ اسلامی روایات اور اخلاقی زبوں حالی کا بول بالا ہے، لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے اذہان آخرت کے انجام سے غافل اور مادی دنیا کی چمک دمک میں کھو کر رہ گئے ہیں، اور ان سب کی بنیاد یہ ہےکہ امت کو قدم قدم پر منکرات و فواحش کا سامنا اور غلیظ و ناپاک لٹریچر سے سابقہ ہے، ایسے گئے گزرے حالات میں امت کو نار جہنم سے خلاصی دلانے اور وہاں کے عذاب الیم سے محفوظ رکھنے کے واسطے بڑے پیمانے پر محنت کرنے اور سخت جد و جہد کی ضرورت ہے۔ انہیں میں سے ایک مثبت و مفید طریقہ یہ بھی ہےکہ امت کے سامنے زیادہ سے زیادہ دینی مواد اور مفید معلومات پر مشتمل لٹریچر پیش کیا جائے، جس کا مطالعہ کرنے کے بعد لوگوں کے اذہان و قلوب دین قیم و صراط مستقیم کی طرف مائل و راغب ہوں اور انہیں اس بےثبات دنیا کی چمک دمک کے دھوکے سے نجات حاصل ہو۔
قرآن نے جہاں امت کے ہر غیور و باحمیت شخص کو امر بالمعروف (نیکی کا حکم) کرنے کی تاکید کی ہے؛ وہیں نہی عن المنکر (برائی پر نکیر) کے فریضہ کی ادائیگی کا بھی اسے مکلف بنایا ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اسی اہم فریضہ کی ادائیگی اور اسے خوش اسلوبی کے ساتھ نبھانے کی بدولت قرآن کی زبانی اس امت کو بہترین و افضل امت کے لقب سے نوازا گیا ہے؛ ارشاد باری تعالی ہے: "تم بہترین امت ہو جو لوگوں کےلئے برپا کی گئی ہے، تم بھلائی کی تلقین کرتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو” (آل عمران:110)
اس آیت کریمہ کی روشنی میں لوگوں کو اچھی بھلی بات کا بتانا اور ان کو بری باتوں سے روکنا یا منع کرنا؛ امور دعوت میں سے ایک اہم امر ہے، اس لئے تمام لوگوں کو دعوت کے اس پہلو کی جانب بھی غور کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ جہاں اپنی عبادت و بندگی میں مشغول رہ کر اپنی آخرت کی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے میں کوشاں ہیں، ویسے ہی اپنے لاپرواہ بھائی اور غافل و بےخبر دوست احباب کی عاقبت کی بھی فکر کرنی چاہیے۔ حقیقی سمجھدار اور عاقل بندہ اللہ کی نظر میں وہی ہے، جو اس کے گمراہ بندوں کو اس سے ملا دے اور خالق کا رابطہ اس کی مخلوق سے کرا دے۔
مواقع منکرات میں سے ایک اہم موقع 14/فروری یوم عشاق (ویلنٹائن ڈے) بھی ہے۔ یہ ویلنٹائن ڈے جس کی کوئی مستند اور قابل اعتماد تعریف و توصیف تو نہیں کی جاسکتی؛ البتہ وکی پیڈیا کے مطابق اسے ایک خیالی و مفروضہ داستان بتایا گیا ہے:
"14/فروری کو منائے جانے والے (ویلنٹائن ڈے) کے متعلق سچی بات یہ ہے کہ: تیسری صدی عیسوی میں ‘ویلنٹائن’ نام کا ایک پادری ایک راہبہ کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر ہو گیا تھا، چوں کہ مسیحیت میں راہبوں اور راہبات کےلئے نکاح ممنوع تھا۔ اس لئے ایک دن ویلنٹائن (راہب) نے اپنی معشوقہ (راہبہ) کی تشفی کےلئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں بتایا گیا ہےکہ 14/فروری کا دن ایسا ہے کہ اگر اس میں کوئی راہب یا راہبہ صِنفی ملاپ (ہمبستری) کر لیں تو اسے گناہ تصور نہیں کیا جائےگا”۔
لکھا ہے کہ وہ راہبہ اس راہب پر یقین کر بیٹھی اور پھر جوش عشق میں دونوں وہی کر بیٹھے؛ جو سب آج کا بدمست و سرپھرا نوجوان ٹولہ اس دن کرنے کے فراق و جستجو میں سرگرداں دکھائی دیتا ہے۔ لیکن راہب و راہبہ کی اس ناپاک حرکت اور خلاف روایت واقعہ کے بعد کیا ہوا؟ سنئے! ایک تو کلیسا کی سابقہ روایات کی اس طرح دھجیاں اُڑانے اور دوسرے ناپاک حرکت کو انجام دینے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے یعنی انہیں قتل کر دیا گیا، مگر بعد میں کچھ منچلوں اور رنگین مزاج بدبختوں نے اس ویلنٹائن نامی (زانی راہب) کو ’شہیدِ محبت‘ کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے اور اس کے اس گھناؤنے کام پر پردہ ڈالنے کےلئے 14/فروری کا دن متعین کر دیا، اور اس دن سے اس کی یادیں منسوب کر دیں۔ ادھر اہل چرچ کی طرف سے اس خرافات یا اس جیسے دیگر گندے و گھناؤنے کام کی ہمیشہ مذمت کی جاتی رہی اور اسے جنسی بےراہ روی کی تبلیغ پر مبنی فعل اور قابل تعزیر جرم قرار دیا جاتا رہا، اور اس خلاف امر واقعہ کے ظہور پذیر ہونے پر مسیحی پادریوں نے اس دن کی مذمت میں سخت ترین بیانات جاری کئے، یہاں تک کہ "بینکاک سٹی” میں تو ایک مسیحی پادری نے بعض افراد کو اپنے ہمراہ لےکر اس دوکان ہی کو نذرِ آتش کر دیا تھا جس پر ویلنٹائن ڈے کارڈ فروخت ہو رہے تھے”۔
14/فروری کے دن اس قسم کی بےحیائی کو فروغ دینا اسی مغربی دنیا کی دین ہے، جو آج تہذیب و تمدن سے مکمل عاری ہو جانے کے بعد دنیا بھر میں اپنے نظریات کا جال بچھانے میں کامیاب ہو گئی، اس حیا سوز دن کے انعقاد سے اس کا اصل مقصد اسلامی تہذیب اور اس کے پاکیزہ طریقوں اور حلال امور کو ملیا میٹ کرنا ہے، اس کی اس کج روی سوچ اور بےراہ روی کے ہتھکنڈوں کو فروغ دے کر مغربی دنیا آج کی نوجوان نسل کو بےحیائی اور عریانیت کے گڑھے میں د ھکیل دینا چاہتی ہے؛ تاکہ یہ نسل نو غیرمحسوس اور غیر شعوری طریقے پر ذہن و دماغ سے مفلوج ہو جائے؛ اہل دانش کے نزدیک مغربی دنیا کا یہ باطل نظریہ مذہبی منافرت کو پھیلانے اور سماجی برائیوں کو فروغ دینے والا تصور کیا گیا ہے، جو لوگ جدت پسندی کے حامی اور خدا کی واحدنیت کے خلاف ہیں، وہی لوگ اس باطل اور خرافاتی نظریہ سے متآثر ہیں اور انہیں کے یہاں مغربی دنیا کا پیش کردہ یہ انتہائی مذموم فلسفہ آہستہ آہستہ سرایت کر رہا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے نزدیک اس کلچر و ثقافت کو گلے لگانے کے بعد رشتوں کے تقدس کو پامال کیا جاتا ہے، کھلے عام بےحیائی کو فروغ دیا جاتا ہے، اس پر روک ٹوک کرنے والوں کو احمق و بےوقوف سمجھا جاتا ہے اور وہ اپنی مرضی کے مالک و مختار بن کر جنسی جرائم کے ذریعہ پوری مہذب دنیا کو ایک طرح سے منفی پیغام دے کر اس طرح سے لوگوں کی زندگی سے حقیقی آرام و سکون کو غارت کرنا چاہتے ہیں۔ بےحیائی اور حرام کاری پر مبنی لذت کوشی حاصل کرنے اور اس دن کو منانے کےلئے آغاز فروری ہی سے ہمارے نوجوان بےچین و بےقرار دیکھائی دینے لگتے ہیں، جسے وہ "عشق و محبت” کا نام دیتے ہیں۔
شرم و حیا کا جنازہ نکال دینے والی اس خرافات کو منانے اور دو مختلف جنسوں کا بےمحابہ اس طرح سے ملنے کو آج جس طرح سے دنیا نے گلے لگایا ہے، یقینا وہ اس کی فرسودہ خیالی اور غلیظ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے، اور وہ اپنے اس ناپاک مشن کے ذریعے پوری دنیا کو تباہی و بربادی کے کنارے پر کھڑا کر دینا چاہتی ہے، مذہب اسلام کے ماننے والوں کو ایسے مشن کا حصہ بننا اور اخلاق سوز عادتوں کو اپنانا ہرگز زیب نہیں دیتا، ان کےلئے ہر حال میں اپنے دامن عفت کی حفاظت کرنا اور حرام و ناجائز امور سے کنارہ کش ہونا لازم و ضروری ہوتا ہے۔ کیوں کہ ایک مسلمان کو اس دنیائے فانی کی لذت و خواہشات سے کہیں زیادہ اپنی آخرت کی فکر اور وہاں ملنے والے آرام و سکون کی فکر دامن گیر رہتی ہے، اور وہاں کا آرام و سکون انہیں لوگوں کو نصیب ہوگا جو اس مادی دنیا کے بہکاوے اور یہاں کی گمراہیوں سے خود کو محفوظ کرکے لے گئے ہوں گے۔ برخلاف ان لوگوں کو جنہوں نے بداطواری اور بدمزاجی کو اپنا شیوا بنایا ہوگا اور اللہ کی اس زمین پر اس کے مرضی کے خلاف چل کر اس کے بندوں کو مجرم بنانے اور ان کو گناہ گاری کی طرف مائل و راغب کیا ہوگا، وہ بروز جزا مجرم ٹہھرائے جائیں گے؛ ان کے بارے میں قرآن کا یہ ارشاد ہے: "یقینا جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بےحیائی پھیلے، ان کےلئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے”۔ (سورةالنور:19)
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ اور ارشاد فرمایا:
"ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کےلئے ہیں اور ناپاک مرد ناپاک عورتوں کےلئے ہیں، اور پاکباز عورتیں پاکباز مردوں کےلئے ہیں اور پاکباز مرد پاکباز عورتوں کےلئے ہیں، یہ لوگ اس بات سے پاک ہیں جو (منافق) ادھر ادھر بکتے پھرتے ہیں (تہمت و الزام لگاتے ہیں) ان ایمان والوں کےلئے مغفرت ہے اور ان کے رب کی طرف سے عزت کی روزی ہے”۔ (سورۃالنور:26)
واضح رہے کہ اس دنیا کا نظام مکافات عمل پر مبنی ہے، جو آج دیا جائےگا، کل وہی لوٹ کر ہم تک آئےگا، گندم کے دانہ سے گندم اور مکئی کے دانہ سے مکئی کی کاشت ہوتی ہے، یہ اس دنیا کا ضابطہ ہے۔ اہل ایمان کو ہمیشہ یہی اصول پیش نظر رکھنا چاہیے اور اسی پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ اور پھر ہم جس سچے مذہب کے پیروکار ہیں، اور جس صادق الوعد والامین نبیؐ کے امتی اور اس کی لائی ہوئی آخری شریعت کے حامل ہیں؛ اس میں صاف طور پر "لاتقربوا الزّنا” فرما دیا گیا ہے، لہذا ہمیں اگر اپنے گھر کی خواتین کی عزت و عصمت پیاری ہے، تو پھر ہمیں پہلے دوسروں کی عورتوں کی عزت و حرمت کی قسم کھانی ہوگی، ہمیں اگر اپنی بہن بیٹی کی عزت و عفت مطلوب ہے تو یاد رکھیں پہلے غیر عورتوں کے پاس جانے سے خود کی حفاظت کرنا ہوگی، اسی پہلو کی طرف سورۃ کے اگلے حصے میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد گرامی بھی مذکور ہےکہ:
مسلمان مردوں سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنے ستر کی حفاظت کیا کریں، یہ (بات) ان کےلئے زیادہ پاکی کی ہے، یقینا ان کے سب کاموں کی اللہ خوب خبر رکھتا ہے”۔ (سورۃالنور:30)
مؤمن کامل کا اس بات پر پختہ یقین ہونا چاہئے کہ اللہ ہمارے ہر عمل اور ہر قدم سے بخوبی واقف ہے، وہ "علیمٌ بِذاتِ الصُّدور” اور ہماری "رگِ جاں” سے بھی زیادہ قریب تر ہے، ہم اپنے ظاہر و باطن کی کوئی حرکت اس سے پوشیدہ رکھ نہیں رکھ سکتے؛ جب اس بات پر ہمارا یقین ہے تو پھر ہم کیوں اغیار و بےدین کے کلچر کے عادی ہوں اور کیوں ان کی طرف سے جاری کردہ بےہودہ ثقافت کا حصہ بنیں؟ ہماری راہنمائی کےلئے ہماری شریعت مطہرہ کافی ہے، جس میں دین و دنیا کے متعلق ہر چیز اور ہر حکم کو صاف صاف بتا دیا گیا ہے؛ تو کیوں نہیں اسی کی راہنمائی میں اپنی زندگی کے اس مختصر دورانیہ کو پورا کرکے خوش و خرم اور بامراد لوٹا جائے؟ اور ہر قسم کی نجس و ناپاک مجالس سے دوری اور حرام و غلیظ امور سے بچ کر رہا جائے؟
(اللہ پاک ہمیں اپنی رضا و خوشنودی والے اعمال کی توفیق عطا فرمائے اور تمام شیطانی امور سے ہماری حفاظت فرمائے؛ آمین)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے