آج خاتون کیوں مطعون؟

تحریر: اظفر منصور
معاون مدیر دینی اصلاحی تحریکی ادبی و انقلابی ماہنامہ مجلہ سراغ زندگی لکھنؤ

جس طرح عبادت و ریاضت، قیام و طعام، لیل و نہار، غروب و طلوع کے لیے کسی خاص ڈے دن کا تقرر یا متعینہ تاریخ نہیں ہوتی ایسے ہی ماں باپ کی عظمت و تقدس، اساتذہ کرام کی رفعت و بلندی، بچوں کی معصومیت و طفلانہ تدبر، بھائی بہن، شوہر و شریک سفر کے رشتے کی پاکیزگی، مرد و خواتین کی عظمت کے لیے بھی کوئی دن خاص کر لینا چہ معنی دارد،
لیکن انسانی فطرت کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ وہ کسی ایک خاص دن کو اجتماعی طور پر خوش بہار بنائے، لیکن اس کے لیے مذاہب عالم نے تو پہلے ہی دنوں کو مقرر کر دیا جیسے آفاقی مذہب اسلام نے عید الفطر اور عیدالاضحیٰ مذہب ِہنود میں ہولی دیوالی اور نہ جانے کتنے ہیں جو سب پہلے سے ہی طئے ہیں، پھر یہ مڈرس ڈے فادرس ڈے، چلڈرن ڈے، ہومنس ڈے، یہ ڈے وہ ڈے وغیرہ وغیرہ آخر کہاں کی اصطلاح ہے؟ کونسی ضرورت نے انہیں ایجاد کیا ہے؟
تو قارئین ہر یادگار وقت کے پیچھے ایک یادگار تاریخ ہوتی ہے جو کہ مثالی بھی ہوتی ہے، اسی طرح آج کا یوم خواتین بھی 1909کی اُن امریکی خواتین کے عزائم کی داستان دلانے اور حقوق نسواں کا پیغام عام کرنے کا دن ہے، جب ان کی تنخواہوں کے سلسلے میں جائز احتجاج کو طاقت کے پاؤں سے کچل دیا گیا تھا،
عالمی یوم خواتین سب سے پہلے 28 فروری 1909 میں امریکہ میں منایا گیا، پہلی عالمی خواتین کانفرنس 1910 میں کوپن ہیگن میں منعقد کی گئی، 8 مارچ 1913 کو یورپ بھر میں خواتین نے ریلیاں نکالیں اور پروگرام منعقد کیے، اور اب برسوں سے 8 مارچ کو عالمی سطح پر پورے جوش و جذبہ کے ساتھ اس دن کو یادگار بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن کیا سال میں صرف ایک دفعہ اس دن کو یاد کر لینے سے، حق نسوانیت پر تقریریں کر لینے سے وہ مسائل حل ہو جائیں گے جو آج درپیش ہیں؟ یہ حقیقت ہے کہ آج یورپی تہذیب نے خواتین کو آزادی کے نام پر خوب استعمال کیا، آج سے چودہ سو سال قبل جس صنف کے اندر آقائے نامدار مدینہ کے تاجدار ﷺ نے ایک نئی روح پھونکی تھی، ایک صالح معاشرہ کا ضامن بنایا تھا، گھروں کی ملکہ بننے کا سنہرا موقع دیا تھا، بیٹیاں گھروں کی رحمت ہیں بول کر عزت و افتخار میں چار چاند لگا دیئے، لڑکی اگر بیٹی کی شکل میں ہے تو رحمت ہے، بیوی کی شکل میں ہے تو عزت نفس، ماں کی شکل میں ہے تو قدموں میں جنت۔
لیکن تہذیب حاضر نے خواتین سے وہ تمام امتیازی حیثیتیں چھین لی جن کی وہ حقیقی حقدار ہیں، آج چہار جانب ہوسناکی کا جام پئے لوگوں کا ایک ہجوم اس فراق میں ہے کہ کب اسے نربھیا، آصفہ، گلناز جیسی پاکیزہ شکار مہیا ہوں، آج اکثر والدین اور بھائی اپنی بیٹی اور بہن کو وراثت سے بے دخل کرنے کی طاق میں ہیں، آج اخبارات و ٹیلی ویژن کی سرخیوں میں انہیں کی مظلومیت کے چرچے ہوتے ہیں، آج انسانوں کا کمزور ترین طبقہ انہیں خواتین کو سمجھا جاتا ہے، آج گھر میں اس طرح سے رکھا جاتا ہے گویا پیشہ ور نوکرانی ہو، آج شادی کا مقصد فقط جھاڑو پوچھا گھر کی دیکھ بھال کھانا پکانا باقی رہ گیا ہے، آج ہمارے معاشرے میں عورت کو نہ جانے کیوں وہ مقام نہیں مل پا رہا ہے جو مقام اسے اسلام دینا چاہتا ہے، بس اسے خانہ داری کا حصہ تصور کرلیا گیا ہے یا پھر شوہروں کی طرح باہر سے پیسے کما کر لانے کا ذریعہ، بیٹی کی پیدائش کی جس کیفیت کو اسلام نے ختم کیا تھا وہی کیفیت اب پھر از سر نو بنتی جا رہی ہے، لڑکے کی پیدائش پر ڈھنڈورا پیٹ دیا جاتا ہے اور لڑکی کی پیدائش پر اول دن بلکہ خبرِ ولادت سنتے ہی فکر کھانے لگتی ہے کہ کیا کھائے گی؟ کیا پہنے گی؟ میک اپ میں کتنا خرچ کرے گی؟ کیسے کپڑے پہنے گی؟ کس سے بات کرے گی؟ کس سے ملے گی؟ کہاں کیا پڑھے گی؟ شادی کہاں کس ہوگی؟ اور اگر بیٹی سیاہ مائل ہو تو بالکل ہی نا امیدی کے بحر خیالات میں جاگرتے ہیں، اور اگر بیٹا پیدا ہوا تو گویا لاکھوں کا ٹکٹ مل گیا ہو، اور اس کی پرورش و پرداخت سے وہ بالکل ہی فارغ ہو گئے ہوں،
یہ ہے سوچ اور حال ہمارے معاشرے کا، اب تو عورت نفع رسانی کا بھی ذریعہ بن گئی، ہر کوئی اپنے برانڈ پر عورت کو ہی چسپاں کر رہا ہے، لیکن اب تو اس سے بھی بدتر سیاسی گلیاروں میں بھی عورت کا استعمال ہونے لگا،
اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ اغواء کسی کا ہوتا ہے تو وہ یہی بیچاری عورت ہے، سماج میں سب سے زیادہ ستم رسیدہ قوم یہی صنف نازک ہے، آج لوگوں کا ایسا مزاج بن گیا کہ اگر اولاد اچھی ہوگئی ترقی کر گئی اور خوب پیسے کمانے لگ گئی تو کہتے ہیں یہ تو اس کے باپ کا کمال ہے، اور اگر اولاد راہ ِسیہ پر چل پڑی تو اس کی ذمہ دار بیچاری عورت پر تھوپ دی جاتی ہے، خواتین سے منسلک ہمارے معاشرے میں اس سے بھی بڑھ کر جراثیم اور مسائل ہیں، اور یہ یوم خواتین انہیں جراثیم کو پاک کرنے کے عزائم کے لیے ہے، ہر ہر گاؤں محلہ میں باحمیت و غیرت مندوں کا ایک گروہ ہو جو ان سب چیزوں پر دقیق نظر رکھے، تبھی ایک خاتون کو اس کا اصل مقام و مرتبہ مل سکتا ہے، لیکن اس سلسلے میں خواتین کو بھی اہم رول ادا کرنے کی ضرورت ہے، سب سے پہلے اگر مسلمان ہے تو اپنا رشتہ اللہ سے مضبوط کرے، صوم و صلاۃ زندگی کا مقصد سمجھے، بلا ضرورت کی گفتگو سے اپنے آپ کو بالکل ہی دور رکھے اولاد کی پرورش و تربیت میں اصول ہائے اسلام کو فالو کرے، اور اپنے کو خوب صالح صفت بنا کر اہل خانہ میں پیش کرے اور اپنے ذوق و فہم، اورعلم و کردار سے ایسی فضاء بنائے کہ پورا کا پورا معاشرہ اس کے زیر نگیں آجائے اور ایسا تبھی ممکن ہے جب ہم اسلام کے عطاء کردہ اختیارات و حقوق کا مطالعہ و مطالبہ کریں، اور اس سے فائدہ اٹھائیں گے، ورنہ مغربی تہذیب تو ہمیں صرف اور صرف مضحکہ لگتی ہے جہاں نہ کوئی پائیدار اصول ہے نہ حقوق کی بازیابی کے لیے خاطر خواہ ذرائع۔