ازقلم: غلام مصطفیٰ عدیل قاسمی
ایسوسی ایٹ ایڈیٹر بصیرت آن لائن و جنرل سیکریٹری رابطہ صحافت اسلامی ہند
شریعت مطہرہ کے خلاف عدالت سے اس طرح کا فیصلہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا ہے۔
یاد کیجیے 27/سمتبر 2018 اسماعیل فاروقی کے کیس کو اس میں بھی عدالت عظمیٰ نے بعینہ یہی بات کہی تھی کہ ” مساجد اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہیں”
اسی طرح ڈاڑھی رکھنے کے لیے ایک مسلم ملازم کی درخواست پر عدالت نے خود اس کیس کے مسلم وکیل کو ہی یہ کہہ کر کٹہرے میں کھڑا کر دیا تھا کہ "اگر ڈاڑھی اسلام کا لازمی حصہ ہوتی تو آپ کے چہرے پر بھی سجی ہوتی”
حجاب قضیہ میں بھی ہماری یہی کمزوری سامنے لائی گئی کہ حجاب اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے اگر ہوتا تو ساری مسلم عورتیں پردہ کرتیں جبکہ حقیقت میں عصری تعلیم یافتہ طبقہ مساجد، ڈاڑھی اور پردہ ہی نہیں بلکہ شعائر اسلام سے بھی یک گونہ بے نیاز نظر تا ہے۔
اس لیے آپسی الزام تراشیوں اور باہم دست و گریباں ہونے سے پہلے عدالت کے پرانے فیصلوں کو بھی سامنے رکھیے، اپنے گریبانوں میں بھی جھانکیے کہ آخر کمزوری کہاں پر ہے؟ پھر حتیٰ المقدور اس کی تلافی کی خاموش تحریکیں چلائیے تبھی جا کر ہمارے حقوق محفوظ ہو سکیں گے، ایک بار پھر خدا کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ حجاب معاملہ کو لیکر آپس میں دست و گریباں ہونے کے بجائے اس کے محرکات پر غور کیجیے۔
اگر اب بھی مسلمان خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوئے اور شعائر اسلام کو مضبوطی سے نہیں تھاما تو ہم اسی طرح قسطوں میں ایک ایک شعائر سے ہاتھ دھوتے جائیں گے۔