تحریر:محمد طفیل ندوی
جنرل سکریٹری ! امام الہندفاؤنڈیشن ممبئی
آج سے چودہ سوسال قبل ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کو بیگمات(ازواج مطہراتؓ) کے بارےمیں یہ حکم دیاگیا کہ وہ پردہ کریں ،آپ یہ سوچیےکہ اس زمانے کی معززخواتین سے اللہ مخاطب ہے، یہ ان کو احساس دلاناتھا کہ تم ساری امت کی مائیں ہوں، اسلئے اپنے مرتبے کاخیال رکھنا اوران سے یہ بھی کہاگیا کہ تم عام خواتین نہیں ہو، اللہ سےتم ڈرنیوالی ہو تو دبی زبان میں بات نہ کرنا کہ دل کی خرابی کاکوئی شخص لالچ میں پڑجائے بلکہ صاف اورسیدھی بات کیاکرو، اپنے گھروں میں ثابت قدم رہو اورسابقہ دورجاہلیت کی طرح سج دھج کراپنے آپ کو نہ دکھاتی پھرو(سورہ احزاب)اس وقت کے سب سے معززین مرد حضرات کےسامنے سب سے معززخواتین نے پردےکااہتمام کیایہ ہماری شریعت اور دین کااہم حصہ ہےاگر کوئی اس کو عمل میں نہیں لائے تویقینا وہ گنہگاراور شریعت کیخلاف ہے،پردہ کوئی ایساقیدخانہ نہیں ہے جس کومغربی تہذیب کی بنیادپر ایک واویلاکھڑاکیاجائے آج یقینا پردہ کےنام پر جو مغرب کی وادیوں میںایک ہنگامہ خیز خوفناک طریقے سے پیش کیاجارہاہے وہ ایک دکھاواہے ،اسلام ایک ایسامذہب ہے جس نے خواتین کو وہ عزت دی ہے کہ آج وہ اپنا سرفخرسے اونچا کررہی ہیں، اسلام سے قبل کی تاریخ اٹھاکردیکھیں خواتین کس زمرے میں شمارکی جاتی تھی اور کس حیثیت سے ان کو مقام دیاجاتاتھا لیکن آج اسی اسلام کو دقیانوسیت کااڈہ قراردیاجارہاہے، آج یہ کہاجارہاہے کہ اسلام نے عورت کو قیدکررکھاہےاس کے حقوق کو سلب کرلیاہے، اور گھرکی ایک قیدی بناکر چہاردیواری میں رہنےپرانہیں مجبورکیاجاتاہے ،ان سے یہی کہاجاسکتاہے کہ تعصب کاچشمہ ہٹاکر اسلامی تعلیمات کامطالعہ کیجئے،اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فیصلہ متعصبانہ طورپرپیش کیاگیا ہے اگرہم آئین ہندکامطالعہ کرتےہیں تو اس چیز کی ہمیں اجازت دی گئی ہیں ہر مذاہب کے ماننے والوں کو یہ اختیارحاصل ہے کہ وہ اپنے مذاہب پر عمل کریں تلنگانہ کے وزیراعلی چندرشیکھرراؤنے بہترین پیرائے میں بات کہی ہےکہ کوئی دھوتی پہنتاہےتوکوئی شیروانی اس سے حکومت کاکیاتعلق ،اسلئے کہ آئین ہند ہے لیکن کیاکیاجائے جب نگاہیں اور دل ودماغ تعصب کاشکارہوجائے تو حق اور صاف واضح قوانین بھی دھندلےنظرآتےہیں، چاہے شریعت کاکوئی بھی مسئلہ یامسلمانوں کے تعلق سے کوئی معاملہ ہو، بابری مسجد کامعاملہ اسی کانتیجہ ہے تمام ثبوت ہونےکےبعد فیصلہ کارخ غلط پیش کیاگیا اورجج صاحب کو ایک منظم طورپر راجیہ سبھاکی سیٹ ہدیۃ پیش کی گئی ، وہی عدالت عظمی کا چیف جسٹس آف انڈیا اپنےاوپر لگے الزامات کودورکرنے کی غرض سےیہ کہتےہوئے انصاف کیلئے عدالت جانے سے گریز کرتےہےکہ میں عدالتنہیں جاؤنگا انصاف نہیں ملتا جس پرپوراملک حیرت زدہ رہ گیاآپ خود سوچئےعدالت عظمی کاعلمبردار جس نے بابری مسجد پرفیصلہ سنایا اسکےقول کیاثبوت پیش کررہےہیں خیر یہ مسلمانوں کی اعلی ظرفی کی مثال ہےکہ انہوں نے اس کو ناچاہتےہوئے بھی دنیاوی فیصلےکےاعتبارسے قبول کرلیا اور ایسے کسی واقعہ کو انجام دینا مناسب نہیں سمجھا جس سے ملک عزیز کا ماحول خراب ہو،یہی معاملہ طلاق ثلاثہ میںہواجوشریعت کامسئلہ ہے اگرچہ اللہ کےنزدیک ناپسندیدہ عمل ہے لیکن شریعت کا ایک حصہ ہےجیسے پورے گھر میں عالیشان سنگ مرمر اور بہترین نقاشی کی گئی ہو مگر بیت الخلاء نہ ہوتو وہ گھر نامکمل شمارکیاجاتا ہے،بیت الخلامیں کون جاتا ہے اس کی خوبصورتی دیکھنے یا خوشبو سونگھنےکیلئےلیکن اس کارہناضروری ہے،ٹھیک اسی طرح طلاق کامسئلہ ہے شریعت میں ہے لیکن ناپسندیدگی کے طورپرکیوں کہ اس سے کئی خاندان اجڑتےہیںمگر اس پر کیسے شورمچایاگیا چند خواتین کو جمع کرکے ان کی زبان سے بیان درج کرانا کوئی عقلمندی کاکام تونہیں ہے، جب کہ وہ خود شریعت سے دورہی نہیں بلکہ شکوک وشبہات یہ کہ وہ مسلم بھی تھی کہ نہیں ،اسلئے کہ مختلف مواقع پر غیرمسلم مہذبانہ طورپردیکھی گئی ،کبھی مندرمیں دیکھاگیا ،تو ہاتھ کی کلائیوں میں علامتی دھاگا بھی دیکھا گیا،تو کبھی پیشانی پر مخصوص ٹیکہ بھی نظرآیا لیکنہندوستان کی لاکھوں کی تعدادمیں سڑکو ، میدانوں ، گلی کوچوں میں احتجاج کرتی ہوئی خواتین سے صرف نظرکرکے حکومت اورقوت کی بناپر فیصلہ سنادینا یہ کہاں کی حکمت عملی ہے؟
ابھی فی الوقت موجودہ تنازعہ کرناٹک کاہے جہاں کالج کی طالبات کو اس کے حجاب میں وہاں کی انتطامیہ کالج کی چہاردیواری میں داخل ہونے سےمنع کردیتی ہے ،انہیں مجبورکیاجاتاہے کہ وہ حجاب کے بغیر کالج میں داخل ہوں لیکن وہ طالبات شریعت کی پابندی کولازمی قراردیتےہوئے اس بات پر راضی نہیں ہوئی کہ حجاب کے بغیر کالج میں آئیں ،ان طالبات نے احتجاجا گیٹ کےپاس ہی بیٹھ کر پڑھنا شروع کیایہاں تک کہ کتنی طالبات امتحان سے بھی محروم ہوگئیں چنانچہ معاملہ طول پکڑتاگیا اورحالات بدسے بدتر ہوتےگئے پھر کالج کے طلباء وطالبات دوجماعتوں میں تقسیم ہوگئے،ان کی تعلیم کا کتنانقصان ہوا،ذہن ان کاکتنامنتشرہو اایک ساتھ کالج کی چہاردیواری میں اخوت ومحبت کیساتھ تعلیم حاصل کرنیوالے ایک دوسرےکے دشمن بن گئے ،ان تمام امورکولےکرکئی مرتبہ شورشرابہ بھی ہوا اورناگہانی حالات بھی پیش آئیں ، پوری دنیا نے جس منظرکو دیکھا وہ کسی سے چھپانہیں ہے ،کالج کی طالبہ مسکان خان جو اپنی ضروریات کیلئے کالج جارہی تھی تو چند سرپھرے نوجوانوں نے انہیں کس طرح زد وکوب کیا انہیں حجاب اتارنے کو کہامگروہ نہیں اتاری اور جب وہ حجاب کیساتھ کالج میں داخل ہوئی تو ان ہی سرپھروں نے نعرہ بازی کی ،ڈرانے دھمکانے جیسااہم رول اداکیا لیکن وہ غی
رت مند اور حوصلہ وپرعزم سے مزین ہوکر نعرۂ تکبیر بلند کرتی ہے یہ منظر آنافانا پوری دنیا میں پہونچ گیاپوری عالمی میڈیانےاسے اپنی سرخیاں بنائی جس سے ہماراملک عزیزایک بے فضول بحث ومباحثہ میں داخل ہوکر اپنی پیشانی پر بدنماداغ لگابیٹھا مزیدجب یہ معاملہ اور طول پکڑاتو طالبات اپنی انصاف کی لڑائی کیلئےکرناٹک ہائی کورٹ کا رخ کیا مگرجس چیز کوکورٹ نے حوالے کےطورپریہ کہتےہوئے پیش کیاکہ حجاب اسلام وشریعت کالازمی جزنہیں یہ بالکل قرآن مقدس کیخلاف ہے، قرآن صاف اور واضح طورپر بیان کررہاہے احادیث میں پوری صراحت موجود ہیں جس کا ذکر اوپرکیاگیا دوسری چیز یہ کہ یہ ابھی کا مسئلہ تونہیں تھا کہ یہ طالبات ابھی پہن کر آناشروع کیاہویا اسے پہن کر احتجاج کررہی ہو یہ تو ایک زمانے سے بغیرکسی چوں چراں کے حجاب کااستعمال کررہی تھی ،پھر ہماراآئین بھی اس کی اجازت دیتاہےاسی طرح کاواقعہ ممبئی میں پیش آیاتھا کہ ایک میڈیکل کالج کی طالبہ جب حجاب میں کالج گئی تو انتظامیہ نے اسے منع کردیا وہ طالبہ اپنےحقوق کیلئے ممبئی ہائی کورٹ کادروازہ کھٹکھٹایااور اپنی بات پیش کی کہ مجھےحجاب میں رہ کرتعلیم حاصل کرنے کی اجازت دیں اگریہ نہیں ہوسکتاتو مجھےکسی دوسرےکالج میں منتقل کردے تاکہ میں اپنی تعلیم کیساتھ مذہب کی بھی پابندرہ سکوں ،اس وقت بامبےہائی کورٹ نے انتظامیہ کویہ فیصلہ سنایاکہ کسی دوسرےکالج میں منتقل کرنےکی ضرورت نہیں ہے بلکہ انہیں اپنے حجاب میں تعلیم حاصل کرنے دیں ،یہ۲۰۱۸ءکا فیصلہ ہے حالیہ فیصلہ جو اسی بنیادپر کرناٹک ہائی کورٹ کاہے بالکل اس کے برعکس ہے،ہائی کورٹ کو چاہیے کہ وہ اپنے فیصلہ پرنظرثانی کریں ،کیوں کہ قرآن میں صاف واضح الفاظ میں ہے ، صرف یہ کہدینا کہ حجاب اسلام کالازمی جز نہیں ہے توپھر یہ انصاف سے منہ موڑنا ہوگا سب سے پہلےتوہم یہ سمجھیں کہ حجاب کیاہےحجاب اپنے آپ کو حفظ وامان میں رکھنےکا ایک لباس ہےاورشریعت الہی کی نظرمیں اس کو استعمال کرنیوالی خواتین پابندشریعت ہے،دوسری چیزحکومت ہندتسلسل کیساتھ یہ آواز بلندکرتی ہے کہ ہماری حکومت خواتین کی حفاظت منظم طورپرکرتی ہےاورکرےگی اورہر اسٹیج سے یہ نعرہ بلند کیاجاتاہے ’’بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ‘‘لیکن آج حکومت کے غلط رویےنے ان نعروں میں جکڑی ہوئی بیٹی کو اپنے تحفظات کیلئے سڑکوں پر ، میدانوں میں آواز بلند کرنی پڑرہی ہے اگر یہ مسلمان لڑکیاں ہے تو ان کیلئے بھی حکومت کانعرہ ہے سب کاساتھ سب کاوکاس،مزید اس نعرہ کو تقویت دیتےہوئے لفظ سب کاوشواس بھی بڑھایامگرشاید یہ الفاظ کی لفاظی ہی سمجھی جائے کیوں کہ مسلسل ان کیساتھ ناانصافی کاکھیل کھیلاجارہاہے جو رکنے کانام نہیں لےرہاہے ایک مسئلہ کوحل نہیں کیاجاتاکہ دوسرے مسائل کاشوشہ چھوڑکر انہیں ذہنی طورپرالجھادیاجاتاہے،اور اس کے بعدانہیں مکمل ثبوت کےبعد بھی انصاف سے محروم کردیاجاتاہے،یقینا یہ فیصلہ بھی اسی سطح پرمبنی ہے جسے قبول کیاجانا اسلام اور قرآن حدیث کیخلاف ہوگا میں ان تمام طالبات کو دل کی گہرائیوں کیساتھ لاکھوں سلام پیش کرتاہوں جو اپنی اورشریعت الہی کی تحفظات کیلئے مسلسل کوشاں ہیں ، انہیں اس کیلئے بھی سلام ہے کہ ہائی کورٹ سےفیصلہ ناحق آنےپر عدالت عظمی سے انہوں نے رجوع کیا ہے، اللہ رب العزت سے دعاءہےکہ اللہ ان کے عزم وحوصلوں کوقبول فرمائیں ، اور تمام شروروفتن وحاسدین کی حسدسے حفاظت فرمائیں ۔