ضرورت سے زیادہ مال جمع کرنے والے بروز محشر شدت کرب کا شکار ہوں گے

شریعت مطہرہ میں اعمال صالحہ بجالانے اور مامورات و واجبات کی ادائیگی کی بہ نسبت برائیوں کو دور کرنا اور فساد کو دفع کرنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ بحیثیت مسلمان ہم سب کی مذہبی ذمہ داری ہے کہ عبادات کی ادائیگی کے ساتھ انسانی معاشرے میں پھیلنے والے برائیوں کا تدارک کرنے میں اپنی حیثیت کے مطابق اہم کردار ادا کریں۔ مسلمانوں کی اکثریت نے اسلام کو نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج تک محدود کردیا ہے جبکہ دین اسلام مسلمانوں کو مکارم اخلاق، معاشرتی ، تہذیبی، تمدنی، عائلی ، سیاسی اور معاشی امور و معاملات اور مسائل و حالات سے متعلق تفصیلی ہدایات عطا کرتا ہے جن کا ایمانیات اور عبادات کے ساتھ گہرا تعلق ہے ۔ مثلاً اسلام کے اقتصادی نظام کے اصول و ضوابط پر عمل کرنا بھی مسلمانوں کے لیے واجب ہے چونکہ یہ اللہ اور اس کے حبیب مکرمؐ کے عطا کردہ ہیں۔ جب مال روحانی سکون و اطمینان کا باعث بنتا ہے تو قرآن مجید اسے خیر و فضل سے تعبیر کرتا ہے چونکہ مال کے ذریعہ ہی انسان زکوٰۃ اور حج و دیگر مالی عبادات کی ادائیگی کرکے عظیم اجر و ثواب کا مستحق بنتا ہے اور تقرب الٰہی حاصل کرتا ہے ۔ اور جہاں دنیاوی مال و متاع شر و فساد کا ذریعہ بنتا ہے قرآن مجید اس کی تحقیر و مذمت بھی کرتا ہے۔منجملہ ان میں ایک شکل مال کو جمع کرنا اور سمیٹنا بھی ہے جس کی دین اسلام نے سخت مذمت کی ہے چونکہ اس سے معاشی ظلم و فساد اور دیگر جرائم کو بڑھاوا ملتا ہے۔ مزاج شریعت کو سمجھنے کے بعد مسلمانوں پر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ مال کو جمع کرنے کی حرص سے حد درجہ اجتناب کریں چونکہ مال و دولت کا نشہ انسان کو اندھا بنادیتا ہے اور یہ غلط روش بسا اوقات مال کو خطرناک بت بنالینے، درہم و دینار کی بندگی اختیار کرنے اور اس کو عظیم سعادت سمجھنے پر مجبور کردیتی ہے۔ ایسے ننگ انسانیت افراد کی تحقیر و تذلیل کا ذکر کرتے ہوئے قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے ہلاکت ہے ہر اُس شخص کے لیے جو مال جمع کرتا ہے اور گن گن کے رکھتا ہے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ایسے لوگ اللہ تعالی کی خوب بھڑکائی ہوئی آگ میں پھینک دیئے جائیں گے جس کی تپش و سوزش سے دل بھن کر کباب ہوجائیں گے، جس کے شعلے لمبے لمبے ستونوں کی طرح ہوں گے۔ (العیاذ باللہ) حقیقی مومن کے لیے کسی بھی طرح سزاوار نہیں ہے کہ وہ اموال کو تمام مشکلات کا حل سمجھے چونکہ مال صرف ذریعہ اور وسیلہ ہے مصائب و پریشانیوں سے نجات دینے والی اور مستقبل کو سنوارنے والی ذات صرف اللہ تعالی کی ہے ۔ مال کو جمع کرنا یا سمیٹنا وہ بری خصلت ہے جو بندہ کو ان معاصی اور گناہوں میں مبتلا کردیتی ہے جس سے حقوق العباد برباد ہوجاتے ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے کہ معاشی ترقی کا انحصار دولت کے حصول یا اس کے منجمد کرنے میں نہیں بلکہ جائز مقامات پر اس کے خرچہ کرنے میں ہے۔ دنیا کے متمول حضرات جو دنیا کی معیشت کے بڑے حصہ پر قابض ہیں ان کی بیشتر دولت بینکوں میں منجمد ہے ۔ غرور و نخوت اور سرکشی نے انہیں اس قدر اندھا کردیا ہے کہ وہ بینکوں میں منجمند اموال سے نہ خود مستفید ہوتے ہیں اور نہ دنیا کو استفادہ کا موقع دیتے ہیں۔ان کی اس ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے انسانی معاشرے میں آئے دن امیر و غریب کی طبقاتی کشمکش میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ دین اسلام میں سودی کاروبار کے حرام ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس صورت میں پیسہ اشیاء کی قیمت کا اندازہ لگانے اور وسیلہ مبادلہ کے بجائے خود ایک شئی (Commodity) بن جاتا ہے اور لوگ اسے اپنے پاس منجمد رکھنا پسند کرتے ہیں۔ افسوس صد افسوس ہم سودی لین دین کو تو حرام سمجھتے ہیں لیکن بینکوں میں اموال کو غیر ضروری طور پر منجمد رکھنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ اگر بینکوں میں منجمد مال و دولت کو سرمایہ میں مشغول کردیا جائے تو قوت افراد کی اشد ضرورت پڑے گی جس کی وجہ سے بے روزگاری کا مسئلہ بہت آسانی کے ساتھ حل ہوجائے گا۔ جب چھوٹی اور بڑی صنعتوں میں قوت افراد کا زیادہ استعمال ہونے لگے گا تو مصنوعات کی پیداوار میں بھی اضافہ ہو گا جس کا راست اثر اشیاء کی قیمتوں میں پڑے گا اور بازار میں وہ اشیاء ارزاں قیمت میں فروخت ہونے لگیں گی اس طرح مہنگائی کے مسئلہ پر بھی بڑی آسانی سے قابو پایا جاسکتاہے۔ اکثر بے روزگاری اور مہنگائی کے باعث سنگین جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔ جو ممالک ترقی یافتہ ہیں وہ پوری دنیا میں دہشت پھیلائے ہوئے ہیں اور جو ممالک ترقی پذیر یا غیر ترقی یافتہ ہیں وہ ان کی حماقتوں کا شکار ہورہے ہیں۔ انسانی معاشرے کے ان سنگین مسائل کو دور کرنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ پیسہ کو بینکوں میں منجمد کرنے کے بجائے گردشِ زر کو یقینی بنایا جائے۔ اسی لیے دین اسلام نے مسلمانوں کو بارہا خرچ و انفاق کی تلقین کرتا ہے۔ قرآن مجید وضاحت کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے کہ انسان اپنی خفتہ توانائیوں کو اسی وقت ابھارسکتا ہے اور اپنی فطری کمزوریوں سے اسی وقت نجات پاسکتا ہے جب وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کو لازم و ملزوم سمجھے۔ انتہائی خشوع و خضوع اور حضور قلب کے ساتھ نماز کی ادائیگی کے علاوہ سائلوں و محروموں کی مالی اعانت کرنے کے ساتھ ساتھ رات کے اندھیرے میں ایسے لوگوں کو تلاش کرکے ان کی مالی مدد کرنے کی بھی کوشش کرے جو ضرورت مند ہونے کے باوجود کسی کے سامنے دست سوال دراز نہیں کرتے۔ اس طرح ایسے خوش بخت افراد اپنی انہی اچھی خصلتوں اور پسندیدہ افعال کے سبب قرب و وصول کے اعلی روحانی مدارج ومقامات طے کرتے ہوئے رب ذو الجلال کی حضوری سے مشرف ہوتے ہیں۔ یعنی حقیقی مومن وہ ہے جو گردش زر میں اہم کردار ادا کرتا ہے جس کی وجہ سے دنیا کی تمام معاشی پریشانیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ لیکن صدحیف آج مسلمانوں کی اکثریت پر مال و دولت کی محبت اس قدر غالب آچکی ہے کہ ان کے طرز حیات اور سرکش مجرمین کی معاندانہ روش میں کوئی زیادہ فرق باقی نہیں رہ گیا ہے۔ جس طرح اغیار دنیا کی محبت میں غرق ہوکر دولت اکٹھا کرنے میں تمام توانائیاں صرف کررہے ہیں اسی طرح آج مسلمانوں کی اکثریت بھی مال و دولت کو جمع کرنے اور سمیٹنے میں لگی ہوئی ہے جس کی وجہ سے غربا کی بھوک و افلاس کا احساس کیے بغیر مسلمانوں میں اسراف و تبذیر ، حد اعتدال سے زیادہ معیار زندگی کو بلند کرنے کی خواہش اور عیش و عشرت کی زندگی گزارنے جیسے غیر اسلامی جذبات ابھر رہے ہیں۔ مسلم معاشرے میں سودی کاروبار کے خلاف مذمتی بیانات جاری کرنے، مضامین تحریر کرنے اور سودی کاروبار کرنے والوں پر لعن طعن کرنے والے بہت مل جائیں گے لیکن بینکوں میں غیر ضروری منجمد اموال کو نکال کر سودی کاروبار کا خاتمہ کرنے کا عزم و حوصلہ دکھانے والوں کی تعداد بہت کم ملے گی۔ جبکہ ہم سب اس بات سے بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ قول و فعل میں تضاد رکھنے والوں کو رب کائنات بہت ناپسند کرتا ہے۔اگر مسلم معاشرے کے متمول حضرات ایمانی حرارت کے ساتھ عزم مصمم کرلیں اور بینکوں میں غیر ضروری منجمد اموال کو سرمایہ میں مشغول کرنے کی کوشش کریں تو مسلم معاشرے سے نہ صرف سودی کاروبار کا خاتمہ ہوجائے گا بلکہ انسانی معاشرے سے بے شمار برائیوں کا خاتمہ بھی یقینی ہوجائے گا۔ بینکوں میں غیر ضروری طور پر اموال کو منجمد رکھنے والوں میں دولت کی کثرت کے باعث اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھنے کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے اور جب یہ لوگ اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں تو بیشتر معاملات میں ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ حصول دولت کی خاطر میت کے ورثا میںشدید اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں ، بسا اوقات نوبت ہاتھا پائی اور قتل و غارت گیری تک پہنچ جاتی ہے، دلوں میں اس قدر بغض و نفرت بھر جاتی ہے کہ یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔ لہٰذا غیر ضروری طور پر پیسہ جمع کرنے سے بہتر ہے کہ مسلمان عوام الناس کی فلاح و بہبود میں اس کا استعال کریں تاکہ ہماری دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں۔ مسلم معاشرے میں بہت سارے ذہین بچے ایسے بھی ہیں جو اعلی تعلیم حاصل کرنے کی کامل اہلیت رکھتے ہیں لیکن غریب والدین کے فیس ادا نہ کرنے کی وجہ سے وہ اعلی تعلیم سے محروم ہوجاتے ہیں اگر متمول حضرات بینکوں میں غیر ضروری منجمد اموال کو ایسے طلباء و طالبات کے لیے استعمال کریں تو مسلم معاشرے سے نہ صرف تعلیمی پسماندگی کا خاتمہ ہوگا بلکہ غربت میں بھی کمی آئے گی۔ بینکوں میںپیسہ منجمد رکھنے والے اکثر اپنے اس عمل کو جائز ٹہرانے کے لیے یہ کہتے ہیں کہ دراصل یہ تو مستقبل کی منصوبہ بندی ہے لیکن جب تقاریب میں بے دریغ پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے تو اس وقت مستقبل کی منصوبہ بندی کیوں یاد نہیں آتی؟ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی ﷺ ہمیں قرآن اور صاحبِ قرآنﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

از :۔ پروفیسر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
کامل الحدیث جامعہ نظامیہ ، M.A., M.Com (Osm)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے