تنکوں میں نہ بانٹو!

ازقلم: مدثراحمد، شیموگہ کرناٹک

رمضان کی آمد ہوتے ہی مختلف تنظیمیں ،ادارے اور دوردراز کے مدارس سے یہ آواز نکلتی ہے کہ ہم مستحق ہیں اور ہمارے لئے آپ کا زکوٰۃ دیں،سال2019 میں ایک سروے کیاگیاتھا جس میں بھارت کے77 فیصد لوگ اپنے مال کا زکوٰۃ نکالتے ہیں جو اوسطاً 8ہزار کروڑ سے لیکر40 ہزار کروڑ روپئے کا زکوٰۃ ہے۔اس سروے میں اس بات کاانکشاف ہواہے کہ ایک فرد اوسطا10 ہزار سے لیکر ایک لاکھ روپئے تک کا زکوٰۃ تقسیم کرتاہے،لیکن اس پورے زکوٰۃ میں سے50 فیصد حصہ مدارسِ اسلامیہ حاصل کرتے ہیں،جبکہ30 فیصد حصہ مختلف تنظیمیں وادارے حاصل کرتے ہیں اور محض20 فیصد حصہ ہی زکوٰۃ کی رقم انفرادی طورپر یا خاندانی نظام میں تقسیم کی جاتی ہے یا پھر جان پہچان کے غریب وضرورتمندوں کو پہنچائی جاتی ہے۔امسال رمضان کے مہینے سے پھر سے اپیلیں ہورہی ہیں کہ ہمارا مدرسہ مستحق ہے،ہماری جماعتیں مستحق ہیں،اس لئے آپ اپنے مال کے زکوٰۃ کو ہمارے ادارے یا مدرسے کو پہنچائیں۔گذشتہ چند سالوں میں مسلمانوں کے یہاں مدارسِ اسلامیہ میں داخلوں میں تو اضافہ نہیں ہواہے،البتہ مدارس کی تعدادمیں بے تحاشہ اضافہ ہونے لگاہے،اس کی وجہ سے محدود طلباء کیلئے لاکھوں روپئے خرچ کرنے پڑرہے ہیں۔دراصل ان مدارس کا جائزہ لیاجائے تو ہر مدرسے میں تعلیمی نظام الگ الگ نہیں ہوتا،البتہ ان مدارس میں مختلف اساتذہ اور مہتمم الگ ضرور ہوتے ہیں،جس وقت مدارس قدم رکھنے کیلئے جگہ نہیں ہوتی تھی اُس وقت سارے ضلع یاشہرکیلئے ایک مدرسہ ہواکرتاتھا،اب طلباء کی تعداد داخلوں کیلئےنہ ہونےکے باوجود کم ازکم دو محلوں کیلئے ایک مدرسہ عمل میں لایاگیاہے۔سوچئے کہ ان مدارس سے کیا آئوٹ پٹ مل رہاہے۔ایسا نہیں ہے کہ تمام مدارس بیکارہیں،اور اُن مدارس سے کچھ حاصل نہیں ہورہاہے۔لیکن بیشتر مدارس کو صرف مقابلےکی بنیاد پرعمل میں لایاگیاہےا ور ان مدارس میں اُمت مسلمہ کا قیمتی سرمایہ یعنی زکوٰۃ کو استعمال کیاجارہاہے۔ایک طرف زکوٰۃ کی رقومات نامعلوم مدارس اورچند گنے چنے طلباء پر لاکھوں روپئےکی مقدارمیں خرچ ہورہے ہیں تو وہیں دوسری جانب بعض تنظیمیں مسلمانوں کے درمیان صرف جذباتی اور جوشیلی باتیں کہہ کروڑوں روپئے چندہ کے طو رپر اکٹھا کررہی ہیں۔کوئی ان سے پوچھیں کہ ان کےقیام کے بعد کتنے نوجوانوں کو آئی اے ایس،آئی پی ایس کروایاگیا،کتنے تعلیمی ادارے بنائے گئے،کتنے بچوں کو میڈیکل تعلیم حاصل کرنے کیلئے خرچ کئے گئے،کتنے بچے وکیل ہوئے، کتنے لوگوں کیلئے روزگار کے وسائل فراہم کئے گئے؟۔ان تنظیموں کے پاس آپ کو کوئی جواب نہیں ملے گا،سوائے اس کے کہ وہ اس بات کا دعویٰ کرینگے کہ وہ سوشیل جسٹس کیلئے لڑرہے ہیں،جبکہ سوشیل جسٹس اُسی وقت ملتاہےجب مسلم قوم کے نوجوان تعلیم حاصل کرتے ہوئے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے لگیں اور خود حق کیلئے آواز بلند کرنے لگیں۔مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مال کے زکوٰۃ کو تنکوں میں نہ بانٹیں بلکہ اس طرح سے خرچ کریں کہ کسی ایک گھر کو فائدہ ہو،کسی ایک محلے کو فائدہ ہو،یاپھر کسی ایک شہر کو فائدہ ملے۔کہیں ایسانہ ہوں کہ آپ کے تنکوں کی امداد فاختوں،چیلوں کبوتروں میں بٹ نہ جائے،کوشش کی جائے کہ زکوٰۃ کی رقم سے مسلمانوں کی نسلوں کو اچھی تعلیم دلوائی جائے اور انہیں ہر شعبے میں نمائندگی کرنے والابنائے۔