ازقلم(مولانا) عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگار و آزاد صحافی، حیدرآباد
سورہ کہف مکی ہے اور اس میں ایک سو دس آیات اور بارہ رکوع ہیں۔
یہاں سے ان سورتوں کا آغاز ہوتا ہے جو مکی زندگی کے تیسرے دور میں نازل ہوتی ہیں۔ یہ دور تقریباً ۵ نبوی کے آغاز سے شروع ہوکر قریب قریب ۱۰ نبوی تک چلتا ہے۔ سورہ کہف کے مضمون پر غورکرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ تیسرے دور کے آغاز میں نازل ہوئی ہوگی۔ جبکہ ظلم و ستم اور مزاحمت نے شدت تو اختیار کرلی تھی مگر ابھی ہجرت حبشہ واقع نہ ہوئی تھی۔ اس وقت جو مسلمان ستائے جارہے تھے ان کو اصحاب کہف کا قصہ سنایا گیا تاکہ ان کی ہمت بندھے اور انھیں معلوم ہو کہ اہل ایمان اپنا ایمان بچانے کیلئے اس سے پہلے کیا کچھ کرچکے ہیں۔ یہ سورت مشرکین کے تین سوالات کے جواب میں نازل ہوئی ہے جو اُنھوں نے حضرت نبی ا کا امتحان لینے کیلئے اہل کتاب کے مشورے سے آپ ا کے سامنے پیش کئے تھے۔
(۱) اصحاب کہف کون تھے ؟
(۲) قصہ خضر کی حقیقت کیا ہے؟
(۳) ذوالقرنین کا قصہ کیا ہے ؟
(۱) جواب میں اصحاب کہف کے متعلق بتایا گیا کہ وہ اسی توحید کے قائل تھے جس کی دعوت قرآن پیش کررہاہے۔ اور ان کا حال مکہ کے مٹھی بھر مظلوم مسلمانوں کے حال سے اور ان کی قوم کا رویہ کفار قریش کے رویہ سے کچھ مختلف نہ تھا۔ پھر اسی قصے سے اہل ایمان کو یہ سبق دیا گیا کہ اگر کفار کا غلبہ بے پناہ ہو اور ایک مومن کو ظالم معاشرے میں سانس لینے تک کی مہلت نہ دی جارہی ہو ، تب بھی اس کو باطل کے آگے سر نہ جھکانا چاہئے۔ (چاہے اس کیلئے اسے گھر بار اور اہل و عیال سب کچھ چھوڑ دینا پڑے)۔
(۲) اصحاب کہف کے قصے سے راستہ نکال کر اس ظلم و ستم اور تحقیر و تذلیل پرگفتگو شروع کردی گئی جو مکے کے سردار مسلمانوں کے ساتھ برت رہے تھے۔ اس سلسلہ میں حضرت نبی ا کو ہدایت دی گئی کہ نہ ان ظالموں سے کوئی مصالحت کرو اور نہ غریب صحابہؓ کے مقابلے میں ان بڑے بڑے لوگوں کو کوئی اہمیت دو۔ دوسری طرف ان رئیسوں کو نصیحت کی گئی کہ اپنے چند روزہ عیش زندگی پر نہ پھولو بلکہ ان بھلائیوں کے طالب بنو جو ابدی اور پائیدار ہیں۔
(۳) اسی سلسلہ کلام میں قصہ خضر و موسیٰ کو کچھ اس انداز سے سنایا گیا کہ اس میں کفار کے سوالات کا جواب بھی تھا اور مومنین کیلئے تسلی بھی۔ اس قصے میں دراصل جو سبق دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی مشیت کا کارخانہ جن مصلحتوں پر چل رہا ہے وہ چونکہ تمہاری نظروں سے پوشیدہ ہے ، اس لئے تم بات بات پر حیران ہوتے ہو کہ یہ کیوں ہوا ؟ یہ کیا ہوگیا ؟ حالانکہ اگر پردہ اُٹھادیا جائے تو تمہیں خود معلوم ہوجائے کہ یہاں جو کچھ ہورہا ہے ٹھیک ہورہا ہے۔
(۴) اسکے بعد قصہ ذوالقرنین ارشاد ہوتا ہے اور اس میں سائلوں کو یہ سبق دیاجاتا ہے کہ تم تو اپنی اتنی ذرا ذرا سی سرداریوں پر پھول رہے ہو ، حالانکہ ذوالقرنین اتنا بڑا فرمانروا اور ایسا زبردست فاتح اور اس قدر عظیم الشان ذرائع کا مالک ہوکر بھی اپنی حقیقت کو نہ بھولا تھا اور اپنے خالق کے آگے ہمیشہ سر تسلیم خم رکھتا تھا۔ خاتمہ کلام میں بھی انہی باتوں کو دہرایا گیا ہے جو آغاز کلام میں ارشاد ہوئی ہیں۔ یعنی کہ توحید و آخرت سراسر حق ہیں اور تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ انھیں مانو۔ (تلخیص تفہیم القرآن)
سورۂ کہف کے فضائل بھی کثرت سے وارد ہوئے ہیں، کچھ روایات درج ذیل ہیں۔
حضرت ابوسعد خدری صسے رسول اللہ ا نے فرمایا :
’’جس شخص نے سورہ کہف اس کی نازل شدہ ترتیب اور تجوید کے ساتھ پڑھی اس کے لئے قیامت کے دن اس کے مقام سے مکہ کی مسافت کے بقدر نور ہوگا اور جس شخص نے سورہ کہف کی آخری دس آیتیں پڑھیں دجال کا اس شخص پر بس نہ چلے گا‘‘۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ا نے فرمایا:
’’تورات میں سورہ کہف کا نام حائلہ (حائل ہوجانے والی ہے) یہ سورہ اپنی تلاوت کرنے والے اور جہنم کے درمیان حائل ہوجاتی ہے‘‘۔ (فضائل قرآن از مولانا افتخار احمد قادری)