خلاصۂ قرآن(چوبیسواں پارہ)

تحریر: ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی

چوبیسواں پارہ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَبْ سے شروع ہے،اس کے تین حصے ہیں ،سورہ زمر کا بقیہ حصہ ،سورہ مومن مکمل اور حٰم سجدہ کا اکثر حصہ ہے، سورہ زمر کے بقیہ حصہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا اظہار کیا ہے کہ ہر جاندار کی روح اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے ،وہ ہر جاندار کو موت کے وقت وفات دیتا ہے اور روح قبض کر لیتا ہے ، روح قبض کی دوسری شکل نیند ہے ،جب آدمی سوجاتا ہے تو سوتے وقت بھی روح قبض کر لی جاتی ہے ،پھر جب آدمی نیند سے بیدار ہوتا ہے تو روح لوٹا دی جاتی ہے ،یہ موت کی دوسری شکل ہے ،غرض موت و حیات اللہ کے قبضہ میں ہے ، وہ مختلف طرح سے لوگوں کے سامنے دلائل کے طور پر پیش کر کے سمجھاتا ہے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جانا مشکل نہیں ہے ،یہ اللہ کے اختیار میں ہے ،پھر توبہ کی دعوت دی گئی ہے ،توبہ کی دعوت میں قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْاعَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَاتَقْنَطُوْامِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ کہا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دین کی دعوت دی تو وہ کہنے لگے کہ آپ جس چیز کی طرف دعوت دیتے ہیں وہ تو بہتر ہے ،مگر ہم نے جو گذشتہ برسوں میں گناہ کئے ہیں ،جیسے قتل کیا ،زنا کیا ،شراب پی ،اس کا کیا ہو گا ،اگر ہم ایمان لے آئے تو کیا ہمارے گناہ معاف ہو جائیں گے،تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ،حقوق العباد کو چھوڑ کر خواہ کوئی بھی گناہ ہو ،صدق دل سے توبہ کرنے سے وہ گناہ معاف ہو جاتا ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بہت وسیع ہے ، پھر اس کے بعد قیامت کے احوال بیان کئے گئے ہیں،اللہ تعالی نے کہا کہ جو لوگ اللہ تعالی کی طرف جھوٹ کی نسبت کرتے ہیں ،قیامت کے دن ان کے چہرے کالے ھونگے اور ان کا ٹھکانا جہنم ھوگا ، یہ بھی بتایا گیا کہ قیامت کے دن پوری زمین اللہ کی مٹھی میں ھوگی ، قیامت کے دن کے منظر کو بیان کیا گیا کہ اس دن کافروں کو گروہ در گروہ جہنم کی طرف لایا جائے گا،اور ان کو جہنم میں داخل کیا جائے گا ،پھر جہنم کا داروغہ سے جو سوال و جواب ھوگا ،اس کا ذکر ھے ، ایسے ھی اہل جنت کے احوال بیان کئے گئے ہیں ، پھرسورہ مومن شروع ہے، یہ حم سے شروع ہے، سات سورتیں ایسی ہیں جو حٰم سے شروع ہوتی ہیں، وہ یہ ہیں، سورہ مومن ،حم سجدہ ،سورہ زخرف ،سورہ دخان ،سورہ جاثیہ اورسورہ احقاف ،سورہ مومن میں ایک واقعہ کا ذکر بھی ہے، وہ یہ ہے کہ فرعونیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا مشورہ کیا ،تو ایک مرد مومن نے فرعون اور اس کی قوم کو سمجھایا، مگر وہ نہ مانے، فرعون نے مذاق کے طور پر اپنے وزیر ہامان سے کہا کہ ایک عمارت بناو ،میں اس پرچڑھ کر دیکھوں کہ موسیٰ کا اللہ کہاں ہے؟ وہ ہے بھی کہ نہیں ،اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اللہ کے عذاب کا مستحق ہوگیا ، پھر اللہ تعالیٰ نے انبیاء اور مومنین سے اپنی مدد کا وعدہ کیا ہے ،بہت سے انبیاء کے ساتھ تو اللہ کا وعدہ دنیا ہی میں پورا ھوا ، جیسے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد کا وعدہ کیا تو وہ غزوہ بدر اور غزوہ احد میں پورا ہوا ،اور بہت سے رسولوں سے وعدہ کیا تو وہ عذاب کی شکل میں پورا ہوا، اس کے بعد حٰم السجدہ شروع ہے، اس سورت میں یہ بتایا گیا ہے کہ کفار مکہ کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار اپنی دعوت پیش کی ،مگر ان لوگوں نے ایمان قبول نہیں کیا ،ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں تشریف رکھتے تھے ،سرداران قریش نے آپ کے پاس آکر کہا کہ اگر تم حکومت چاہتے ہو تو ہم اس کا بھی انتظام کر دیتے ہیں ، اگر عرب کے کسی شریف گھرانے میں شادی کرنا چاہتے ہو تو ہم شادی بھی کرا دیتے ہیں،مگر ایک شرط ہماری یہ ہے کہ تم ہماری بتوں کو بُرا کہنا چھوڑ دو ،اور اپنی تبلیغ سے باز آجاؤ،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں یہ آیت تلاو ت فرمائی ،فان اعرضو ا الخ یعنی اگر تم میری دعوت سے منہ موڑتے ہو تو میں تمہیں اس عذاب سے ڈراتا ہوں جو قوم عاد و ثمود پر چیخ کا عذاب نازل ہوا، اس آیت کے سننے کے بعد ایک شخص نے اپنا ہاتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک پر رکھ دیا ،اور آگے پڑھنے سے منع کر دیا ،کیونکہ اس کو یقین تھا کہ اللہ کا عذاب کہیں ان پر نہ نازل ہو جائے ، پھر اس کے بعد مشرکین کی ضد اور ہٹ دھرمی کا بیان کیا گیا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ آپ جس دین کی طرف دعوت دے رہے ہیں ،اس کی طرف سے میرے دل پر پردے پڑے ہوئے ہیں ،اور ہمارے کانو ں پر بوجھ ہے ،میں کوئی بات نہیں سنتا ہوں ،اس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے ہی جیسا بشر اور انسان ہوں ،میں زبر دستی تم کو اپنی بات منوا نہیں سکتا ہوں ،صرف مجھ میں اور تم میں یہ فرق ہے کہ میرے پاس وحی آتی ہے کہ اللہ صرف ایک ہے ،وہی معبود ہے ،اور مشرکین کے لئے تباہی و بربادی ہے ، اس میں قوم عاد وثمود کا واقعہ بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ قوم عاد بڑی مضبوط قوم تھی، مگر سرکش تھی ، اس کو ہوا کے عذاب سے اورقوم ثمود کو چیخ کے عذاب سے ہلاک کردیا گیا ،اس کے بعد دین پراستقامت اختیار کرنے والوں کے فضائل بیان کرتے ہوئے بتایا گیا کہ جو لوگ دین پراستقامت اختیار کرتے ہیں ان کو نہ خوف ہوتا ہے اورنہ غم ،ان کے لئے جنت کی بشارت ہے ،مزید کہا گیا کہ جن لوگوں کو دنیا اور آخرت میں حق کا یقین ہے ، ان میں وہ زیادہ قابل ستائش ہیں جو لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔