ازقلم(مولانا) عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگار و آزاد صحافی، حیدرآباد
اس سورۃ مبارکہ کا نام ’’العنکبوت‘‘ اس کی آیت کریمہ (۱۴) مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اﷲِ اَوْلِیَائَ کَمَثَلِ الْعَنْکَبُوْتِ سے ماخوذ ہے۔
حسن ، عکرمہ ، عطا اور جابر رحمہم اللہ کے نزدیک یہ ساری سورہ مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔ اس کی آیات ۵۶ تا ۶۰ سے یہ بات صاف طور پر مترشح ہوتی ہے کہ یہ سورت ہجرت حبشہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی۔
اگر ہم اس سورت کو غور و فکر کے ساتھ اور پوری توجہ اس کی طرف کرتے ہیں تو یقینا ہمیں احساس ہوجائے گا کہ اس کے نزول کے وقت مسلمانوں پر بڑے شدید مصائب کا دور دورہ تھا۔ ایک طرف کفار کی مخالفت پوری شباب پر تھی تو دوسری جانب نبی مکرم اپر ایمان لانے والے ایمانداروں پر کفار کی طرف سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے۔
اس سورت میں جہاں پر صادق الایمان لوگوں کی ہمت بڑھانے اور ان کے اندر عزم اور استقامت پیدا کرنے کیلئے کلام فرمایا گیا ہے وہیں پر ان لوگوں کی تربیت کا سامان کیا گیا جو اپنے اندر کمزوریاں رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ کفار مکہ کو بھی سخت طریقہ سے آگاہ کردیا گیا کہ اپنے حق میں اس انجام کو دعوت نہ دو جو عداوت حق کا طریقہ اختیار کرنے والے ہر زمانے کے لوگ دیکھتے رہے ہیں۔ ایک خاص بات جو اس سورت میں ہمیں ملتی ہے وہ یہ کہ جو نوجوان ، حضرت محمد ا کے دست حق پرست پر ایمان لاچکے تھے ، ان کے سامنے کچھ سوالات آرہے تھے ، جسکا جواب اس سورۃ کی آیت کریمہ ۸ میں دیاگیا۔ یعنی جو لوگ مسلمان ہوچکے تھے ان کے مشرک والدین کی طرف سے ان پر یہ زور ڈالا جارہا تھا کہ محمد (ا) کا ساتھ چھوڑ دو۔ (دین حق سے کنارہ کش ہوجاؤ) اور ہمارے ہی دین پر قائم رہو۔
یہ امربھی غور طلب ہے کہ مشرک والدین کی طرف سے قرآن ہی کا حوالہ دے کر یہ کہا جاتا تھا کہ دیکھو قرآن میں بھی تو یہ لکھا ہے کہ والدین کی نافرمانی نہ کرنا حقوق میں والدین کا حق سب سے زیادہ ہے۔ اگر تم ہماری بات کو نہ مان کر محمد (ا) کا ساتھ دیتے رہو گے تو تم اپنے ایمان کے خلاف کررہے ہو۔ اس کا بھرپور جواب اس میں دیا کہ …
’’ہم نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے (معبود) کو شریک ٹھہرائے جسے تو (میرے شریک کی حیثیت سے) نہیں جانتا تو ان کی اطاعت نہ کر‘‘۔
(اس آیت کریمہ کے شان نزول کے سلسلہ میں) مسلم ، ترمذی ، احمد ، ابوداؤد اور نسائی کی روایت ہے کہ یہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ وہ ۱۸ ، ۱۹ سال کے تھے جب اُنھوں نے اسلام قبول کیا۔ ان کی ماں حمنہ بنتِ سفیان بن اُمیہ (ابوسفیان کی بھتیجی) کو جب معلوم ہوا کہ بیٹا مسلمان ہوگیا ہے تو اس نے کہا جب تک تو محمدؐ کا انکار نہ کرے گا میں نہ کھاؤں گی نہ پیوں گی ، نہ سائے میں بیٹھوں گی۔ حضرت سعد ص اس پر سخت پریشان ہوئے اور حضرت محمد رسول اللہ ا کی خدمت میں حاضر ہوکر ماجرا عرض کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ کفار مکہ کو اپنے بے شمار خداؤں پر بڑا گھمنڈ تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ جب اتنے خدا ہماری پشت پناہی کرنے کیلئے موجود ہیں تو ہمیں محمد ا (روحی فداہ ا) کے ایک خدا سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ مادی وسائل کی بھی ان کے ہاں کمی نہ تھی۔ وہ کعبہ کے متولی اور خدمت گار تھے سب قبائل ان کی دل سے عزت کرتے تھے اور کسی ہنگامی موقع پر انکے ادنیٰ اشارہ پر شمشیر بکف میدان میں آنے کیلئے تیار تھے۔ شجاعت و مردانگی اور جنگی مہارت میں بھی ان کا جواب نہ تھا۔ ان حالات کے پیش نظر انھیں اپنے مستقبل کے بارے میں کوئی تشویش نہ تھی وہ یہ سمجھتے تھے کہ ان کا قلعہ اتنا مستحکم اور محفوظ ہے کہ اس پر کوئی یلغار کارگر ثابت نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کریم اکو فرماتے ہیں کہ اے حبیب ! انکے یہ سارے آسرے انکے یہ سارے سہارے مکڑی کے جالے کی مانند ہیں اور تمام گھروں سے کمزور ترین گھر مکڑی کا گھر ہی ہے جو ایسے کمزور اور بودے گھر میں بستا ہو اور پھر قہر خداوندی کی بجلیوں کو دعوت دے رہا ہو۔ اس سے زیادہ احمق کوئی اور ہوسکتا ہے۔ (ضیاء القرآن)اس سورت میں مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ اگر ظلم و ستم ناقابل برداشت ہوجائے تو ایمان چھوڑنیکے بجائے اپنے گھر بار چھوڑ دو ، بندگیٔ رب بجالانے، اپنے ایمان کی حفاظت کیلئے خدا کی زمین بہت بڑی ہے لہٰذا جہاں بھی خدا کی بندگی کرسکتے ہو وہاں چلے جاؤ۔ سورت کے آخر میں مسلمانوں کو ایک تسکین اور ہمت افزائی کی انتہا فرمادی اور بتادیا گیا کہ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِینَالَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا ط جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کرینگے انھیں ہم اپنے راستے دکھائینگے۔