سورۃ المائدہ: ایک مختصر تعارف

قرآن حکیم کی پانچویں سورت ’’المائدہ‘‘ پندرھویں رکوع کی آیت ۱۱۲ ’’ھَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّکَ اَنْ یُنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَائِ‘‘ کے لفظ ’’مائدہ‘‘ سے ماخوذ ہے۔ قرآن حکیم کی بیشتر سورتوں کے ناموں کی طرح اس نام کو بھی سورہ کے موضوع سے خاص تعلق نہیں محض دوسری سورتوں سے ممیز کرنے کے لئے اسے علامت کے طور پر ’’مائدہ‘‘ نام دیا گیا۔ اس میں سولہ رکوع اور ایک سو بیس (۱۲۰) آیات ہیں۔ ان کے حروف کی تعداد ۱۲۴۶۴ ہے۔ مفسرین کرام اس سلسلہ میں جو تحریر فرماتے ہیں وہ درج ذیل ہے۔
سورہ کے مضامین سے ظاہر ہوتا ہے اور روایات اس کی تصدیق کرتی ہے کہ یہ صلح حدیبیہ کے بعد ۶ ہجری کے اواخر یا ۷ ہجری کے اوائل میں نازل ہوئی ہے۔ ذی القعدہ ۶ ہجری کا واقعہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو مسلمانوں کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کے لئے مکہ تشریف لے گئے۔ مگر کفار قریش نے عداوت کے جوش میں عرب کی قدیم ترین مذہبی روایات کے خلاف ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمرہ کرنے سے روک دیا اور بڑی رد و کد کے بعد یہ بات قبول کی کہ آئندہ سال آپ زیارت کیلئے آسکتے ہیں۔ اس موقع پر ضرورت پیش آئی کہ مسلمانوں کو ایک طرف تو زیارت کعبہ کیلئے سفر کے آداب بتائے جائیں تاکہ آئندہ سال عمرہ کا سفر پوری اسلامی شان کے ساتھ ہوسکے اور دوسری طرف انھیں تاکید کی جائے کہ دشمن کافروں نے ان کو عمرہ سے روک کر جو زیادتی کی ہے ، اس کے جواب میں وہ خود کوئی ناروا زیادتی نہ کریں ، اس لئے بہت سے کافر قبیلوں کے حج کا راستہ اسلامی مقبوضات سے گزرتا تھا اور مسلمانوں کیلئے یہ ممکن تھا کہ جس طرح اُنھیں زیارت کعبہ سے روکا گیا ہے اسی طرح وہ بھی ان کو روک دیں۔ یہی تقریب ہے اس تمہیدی تقریر کی جس سے اس سورہ کا آغاز ہوا۔
آگے چل کر تیرہویں رکوع میں پھر اسی مسئلہ کو چھیڑا گیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پہلے رکوع سے چودھویں رکوع تک ایک ہی سلسلہ تقریر چل رہا ہے۔ اس کے علاوہ جو دوسرے مضامین اس سورہ میں ہم کو ملتے ہیں ، وہ بھی سب کے سب اسی دور کے معلوم ہوتے ہیں۔ سورۃ اٰل عمران اور سورہ نساء کے زمانے نزول سے اس سورہ کے نزول تک پہنچتے پہنچتے حالات میں بہت بڑا تغیر واقع ہوچکا تھا یا تو وہ وقت تھا کہ جنگ اُحد کے صدمہ نے مسلمانوں کے لئے مدینہ کے قریبی ماحول کو بھی پُرخطر بنادیا تھا ، یا اب یہ وقت آگیا کہ عرب میں اسلام ایک ناقابل شکست طاقت نظر آنے لگا اور اسلامی ریاست ایک طرف نجد تک ، دوسری طرف حدود شام تک ، تیسری طرف ساحل بحر احمرتک اور چوتھی طرف مکہ کے قریب تک پھیل گئی۔
تاریخ اسلام کا بغور مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ بات آسانی سے سمجھ میں آتی ہے کہ جنگ اُحد کے بعد اہل ایمان کی ہمتیں نہیں ٹوٹیں اور نہ ہی اسلام کے فروغ اور اس کی بقاء و سلامتی کی جدوجہد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے کوئی کمزوری کا مظاہرہ فرمایا۔ بقول مولانا مودودیؒ کے وہ (صحابہ کرام ؓ ) زخمی شیر کی طرح بپھر کر اُٹھے اور تین سال کی مدت میں اُنھوں نے نقشہ بدل کر رکھ دیا‘‘۔
اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی جان قربان کرنے والے صحابہ کرام کی لگاتار کوششوں اور قربانیوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ مدینہ شریف کے چاروں طرف دور دور تک اسلام مخالف قبائل کا زور ٹوٹ چکا۔ اس سے قبل تک یہودیوں کی طرف سے جو خطرات مدینہ کے لئے پائے جاتے تھے وہ اب ختم ہوچکے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ حجاز میں دوسرے علاقوں میں بھی جو جو یہود جہاں جہاں آباد تھے وہ مدینہ کی حکومت کے زیراثر آگئے اور باج گزار بن گئے۔ جہاں تک کفار قریش کا سوال ہے ان کی حالت بھی کمزور ہورہی تھی اور خاص طور پر غزوہ خندق کے بعد تو وہ سخت ناکام ہوچکے۔ اس طرح اہل عرب کو اب یقین ہوچکا کہ اسلامی تحریک کے قافلہ کو اب روکا نہیں جاسکتا۔ غرض کہ اب اسلام صرف ایک عقیدہ یا مسلک نہیں رہا بلکہ ایک ضابطہ حیات بن کر اُبھرا ، اس طرح اب اہل ایمان کو یہ طاقت حاصل ہوچکی کہ وہ اپنے عقیدہ مسلک کے مطابق بلا روک ٹوک عمل کرسکیں جس پر وہ ایمان لاچکے تھے اور اس قوت کے مالک بھی ہوچکے تھے کہ خدا اور رسول کے خلاف جو بھی عقیدہ و مسلک یا قانون ہوگا اسے اپنے دائرہ حیات میں دخل انداز نہ ہونے دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دین اسلام کو پیش فرمایا ، ان ہی چند سالوں میں ایک صالح معاشرہ وجود میں آچکا اور اسی اسلامی بنیادوں پر مسلمانوں کی اپنی ایک مستقل تہذیب وجود میں آئی جوکہ طرز ہائے زندگی میں اپنی ایک علیحدہ شناخت بناتے ہوئے باطل پرست لوگوں کو یہ بتادیا گیا کہ اسلام کی شان یہ ہوتی ہے چاہے معاملہ اخلاق کا ہو یا پھر معاشرت و تمدن کی بات ، ہر چیز میں مسلمان غیر مسلموں سے بالکل ممیز تھے۔ غرض کہ فوجداری و دیوانی قوانین بڑی حد تک تفصیل کے ساتھ اسلامی بنیادوں پر بن چکے اور اس کا نفاذ عدالتوں کے ذریعہ سے ہورہا تھا ، جہاں جہاں اسلام غالب ہوچکا وہاں پر مساجد اور نماز باجماعت کا نظم قائم ہوچکا تھا ، خرید و فروخت لین دین کے تمام جاہلانہ طور طریقہ ختم کرتے ہوئے مبنی بر انصاف طریقہ کو رواج دیا گیا۔ وراثت کا ایک مستقل ضابطہ بن چکا تھا۔ علاوہ ازیں نکاح اور طلاق کے قوانین ، پردہ شرعی اور استیذان کے احکام دیئے گئے۔ زنا و قذف کی سزائیں جاری ہوئی ، غرض کہ مسلم معاشرہ کے لئے اُٹھنا بیٹھنا ، گفتگو اور کھانے پینے ، رہن سہن وضع قطع وغیرہ بھی ایک مستقل شکل اختیار کرچکے۔ ایسے حالات میں سورۃ المائدہ کا نزول ہوتا ہے جس میں مزید احکامات و ہدایات عطا کئے گئے ایک اور بزرگ مفسر نے سورۃ مائدہ کے تعارف کے تحت جو بات تحریر فرمائی اس کے اقتباسات نقل کئے جاتے ہیں۔
اس سورہ کا آغاز تربیت اخلاق سے ہورہا ہے۔ اسلئے پہلے اسی عنوان پر غور کریں۔ اس سورہ میں مختلف اقسام کے اخلاقی سبق دیئے گئے ہیں جن کا تعلق جس طرح ایک قوم کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے ہے اسی طرح ان کا تعلق بین الاقوامی معاملات اور تعلقات سے بھی ہے۔ سب سے پہلے یہ حکم دیا جارہا ہے کہ جو وعدہ کرو اس کو پورا کرو خواہ یہ وعدہ نجی کاروبار کے متعلق ہو ، اپنے حلیفوں سے ہو یا حریفوں سے ہو اور خواہ اپنے رب ذوالمجد والعلی سے ہو۔ رب کائنات انھیں حکم دیتا ہے کہ جو وعدہ کرو اسے پورا کرو وہ خواہ وعدہ حدیبیہ کے میدان میں دشمنان اسلام سے ہی کیوں نہ کیا گیا ہو۔ اب جب قوت و اقتدار مسلمانوں کے پاس آرہا ہے تو ان کو صاف صاف اور کئی کئی بار حکم دیا کہ جب قضاء کی کرسی پر بیٹھو تو یاد رہے عدل و انصاف تمہارا شعار ہو۔ فریق مقدمہ تمہارا دشمن ذاتی نہیں بلکہ دینی دشمن ہی کیوں نہ ہو عدل کا دامن تمہارے ہاتھوں سے چھوٹنے نہ پائے۔ نیز فرمایا کہ اقوام عالم سے تمہارے تعلقات کی بنیاد یہ ہو کہ نیکی اور بھلائی کے ہر کام میں انھیں تمہاری معاونت حاصل ہو اور گناہ اور ظلم کے کسی کام میں تم ان سے اشتراک نہ کرو۔ فرزندان آدم کا قصہ بیان کرکے بتایا کہ حسد بہت بُری چیز ہے اس نے بھائی کو بھائی کا قاتل بنادیا تم اس مذموم خصلت سے احتراز کرنا۔
دوسری اہم چیز جس کا ذکر اس سورہ میں کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ تورات اور انجیل اور قرآن الگ الگ نظریات کے علم بردار نہیں بلکہ یہ تینوں نہریں ایک ہی سرچشمہ فیض سے پھوٹی ہیں اور ان سب کا جامع اور ان تمام بلند اخلاقی قدروں کا نقیب ، محافظ اور نگہبان قرآن مجید ہے۔ حاملانِ قرآن کو تنبیہ فرمادی کہ دیکھو ! ہدایت و نور یہود کے پاس بھی آیا اور نصاریٰ کے پاس بھی لیکن اُنھوں نے اس سے فائدہ نہ اُٹھایا۔ اب وہی ہدایت و نور اپنی پوری آب و تاب اور شوکت و جلال سے تمہارے مطلع حیات پر نمودار ہورہا ہے اور تمہیں اس سے استفادہ کا موقع دیا جارہا ہے۔ کہیں تم بھی اپنے پیشروؤں کی طرح اپنی خواہشات اور خود ساختہ مصلحتوں کی قربان گاہ پر اسے بھینٹ نہ چڑھادینا۔ جو اللہ تعالیٰ کے حکم کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کے مطابق فیصلے کرتا ہے وہ منکر حق ہے۔ نیز فرمایا یہود و نصاریٰ خود بھٹکے ہوئے ہیں۔ وہ تمہیں بھی جادہ حق سے بہلانے پھسلانے کی انتہائی کوشش کریں گے خبردار ہوشیار۔ قرآن جو شریعت لے کر آیا اس کی کئی جزئیات کا یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ حج کے آداب ، شعائر اللہ کی تعظیم ، شراب اور جوا کی قطعی ممانعت ، وضو و تیمم کے احکام ، حلال و حرام اشیاء کا ذکر ، پرامن راستوں پر ڈاکہ زنی کرنے والوں اور چوری کرنے والوں کیلئے عبرتناک سزائیں وغیرہ ۔ لات ، وہبل کا زور ٹوٹ چکا تھا۔ لیکن شرک کی ایک اور قسم دنیا کے ایک وسیع حصہ کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئی تھی۔ یعنی عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث جس کی اشاعت کیلئے شاہی خزانوں کے منہ کھلے ہوئے تھے۔ فطری سادگی سے اس کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا کہ عیسیٰ خدا نہیں ہوسکتے ، جو ماں کے شکم سے پیدا ہو جو اپنی بقاء کیلئے کھانے پینے کا محتاج ہو وہ بندہ ہوسکتا ہے۔ مقبول ترین بندہ ، محبوب ترین بندہ ، لیکن خدا نہیں ہوسکتا۔ اس سورۃ کا طرہ امتیاز وہ آیت کریمہ ہے جو تاریخ ۹؍ ذی الحجہ ۱۰ ھ میدان عرفات میں (رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوئی۔ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا: دین کی تکمیل کا اعلان تمام نعمت کا مژدہ (از ضیاء القرآن جلد اول صفحہ ۴۳۱ تا ۴۳۳)
خاتمہ سورۃ : قیامت کے دن انبیاء اپنی اپنی اُمتوں کے باب میں شہادت دیں گے کہ اُنھوں نے اللہ کی طرف سے لوگوں کو کیا بتایا اور سکھایا اور لوگوں سے کن باتوں کے کرنے اور کن باتوں کے نہ کرنے کا عہد و اقرار لیا تاکہ ہر اُمت پر حجت قائم ہوسکے کہ جس نے بھی کبھی بد عہدی کی ہے اس کی ذمہ داری تمام تر اسی پر ہے ، اللہ کے رسول اس سے بری ہیں۔
اس شہادت کی نوعیت واضح کرنے کیلئے بطور مثال حضرت عیسیٰ کی شہادت (حق) کا تفصیلی تذکرہ تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ اللہ نے اپنے نبیوں اور رسولوں پر جس شہادت حق کی ذمہ داری ڈالی ہے وہ اسکے بارے میں عنداللہ مسئول ہونگے اور ان کے واسطے سے اُمتوں نے جس قیام بالقسط اور شہادت حق کا عہد و پیماں خدا سے باندھا ہے وہ اس کیلئے مسئول ہونگی اور آخرت کی فلاح اور خدا کی خوشنودی ان کو حاصل ہوگی جو اس عہد کا حق ادا کرنے والے ثابت ہونگے۔ (اقتباس از تدبر قرآن جلد دوم صفحہ،۴۴۷ تا ۴۴۸)
سورۃ مائدہ کی ایک اور خصوصیت ہے جس کو ذہن میں رکھنا چاہئے، رُوح المعانی میں بحوالہ ابوعبید حضرت حمزہ بن حبیب اور عطیہ بن قیس کی روایت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے ،المائدۃ من ’’آخرالقرآن‘‘ تنزیلا فاحلوا احلالھا وحرموا حرامھا ۔ یعنی سورۃ مائدہ اُن چیزوں میں سے ہے جو نزول قرآن کے آخری دور میں نازل کی گئی ہیں، اس میں جو چیز حلال کی گئی ہے اس کو ہمیشہ کیلئے حلال اور جو چیز حرام کی گئی ہے اس کو ہمیشہ کیلئے حرام سمجھو۔ (معارف القرآن جلد سوم ص ۱۰)
سورت کے اختتام پر نوع انسانی کو ایک اٹل حقیقت کی طرف متوجہ فرمایا کہ
روزقیامت سچوں کو انکی سچائ نفع دیگی اور اسی سچائ کا یہ انعام ہوگا کہ وہ جنت میں ہمیشہ کے لیے ایسے بہترین باغوں میں ہونگے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں یعنی اس بات کو واضح فرمادیا کہ سچائ ایک ایسی چیز ہے جس سے اللہ تعالی کی رضاء حاصل ہوتی ہے جو اصل یہی کامیابی ہے !

ازقلم: محمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگار حیدرآباد
فون نمبر : 9849099228

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے