تحریر: مجیب احمد فیضی
زنا ایک ایسا سنگین جرم ہے جس کی قباحت و نحوست سے نہ صرف ایک گھر، ایک قبیلہ، ایک خاندان بلکہ پورا سماج تباہ وبرباد ہو جاتا ہے۔اس سے جہاں سماج کے تقدس کا جنازہ نکل جاتا ہے وہیں پر معاشرہ برائیوں سےپرا گندہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی پہچان اور عزت ووقار کھو دیتاہے۔
قرآنی تصدیق
زنا جیسی ناپاک برایئ کی قباحت اوراس کی مذمت میں اللہ جل مجدہ الکریم کا ارشاد موجود ہے ۔ چنانچہ وہ قرآن حکیم میں فرماتاہے: ولا تقربوالزنا انہ کان فاحشۃ وساء سبیلا
ترجمہ:بدکاری کے پاس مت جاو۔ بےشک وہ بے حیایئ اور بہت بری راہ ہے۔ الاسرء 32
مذکورہ بالا آیت کریمہ میں اگر آپ تھوڑا سا غور کریں تو بات سمجھ میں آجائے گی کہ شریعت مطہرہ جہاں لوگوں کو برائیوں سے منع کرتی ہے وہیں پر ان اسباب سے بھی روکتی ہے جن اسباب کی بنیاد پر اس عمل بد کا صدور ہوتا ہے۔ زمانہ شاہد ہے کہ بغیر سبب کے فعل کا وجود نہیں ہوتا۔سبب ہی مفضی الی الکامل ہوتا ہے۔ پس قرآن حکیم کا ان اسباب سے روکنا جو مفضی الی الزنا ہیں۔یعنی جو اس برائی تک لے جانے والے ہیں، زنا سے روکنا ہے۔
جن کی نظریں ایک مر کز پر منحصر نہیں رہتی۔جنکے ارادے پاک نہیں ہوتے۔جنکے قدم ہمیشہ برائیوں کی طرف کوشاں رہتے اور نگاہیں برائیوں کو تلاشتی رہتی ہیں ہیں۔شادی کی پوتر بندھن میں بندھ کر بھی جو جنسی بے راہ روی سے اپنے آپ کو نہیں روک پاتے۔ایسے زانی اورزانیہ کے بارے میں حکم خداوندی موجود ہے : الزانیۃ والزانی فاجلدوا کل واحد منھما مائۃ جلدۃ ترجمہ:زانیہ اور زانی ان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔
چنانچہ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر محصن محصنہ ہیں (غیر شادی شدہ) دونوں اس برے عمل کے مرتکب ہوئے تو سو کوڑے لگائے جائیں گے لیکن اگر شادی شدہ ہیں تو انہیں سنگسار کیا جائے گا۔ مذکورہ آیت کریمہ میں لفظ فاجلدوا زنا کی قباحت اور اس کی مذمت پر صاف دال ہے کہ زنا ایک سنگین ترین گناہ ہے جسکے ارتکاب پر غیر شادی شدہ ہونے کی صورت میں شریعت سوکوڑے کا مطالبہ کرتی ہے اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں سنگساری کا۔
شرک بااللہ کے بعد زنا کی خباثت تمام معصیات میں سب سے بڑھکر ہے۔ اس سے بنی آدم کا تقدس اس کی شرافت سب کچھ ختم ہو جاتی ہے۔یہ انسانیت کے دامن پر ایک ایسے بد نما دھبے کی طرح ہے جس کو محو کرنا انتہایی مشکل ہوتا ہے ۔یہ
دل کی قوت و حدت کو پاش پاش کر کے اپنی پراگنگی اور نحوست سے انسان کو اندر سے کھوکھلا بنادیتا ہے۔زنا ایک بہت بڑا گناہ ہے شاید اتنا بڑا کہ اس سے انسانیت شرمشار ہو جائے۔
حدیث نبوی میں زنا کی مذمت
حدیث شریف میں بھی اسکی بڑی مذمت آیی ہے چنانچہ صحابئ رسول حضرت ابو ہریرہ رضی المولی عنہ کہتے ہیں کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب بندۂ مومن زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل جاتا ہے اور اس کےسر مثل شامیانہ معلق رہتا ہےپہر جب بندہ اس فعل بد کے ارتکاب سے علیحدہ ہوتا ہےتو پھر ایمان اس کی طرف لوٹ آتا ہے(مشکوۃ)
فرمان رسول زنا کی مذمت پر صاف اور صریح دلالت کرنے کے ساتھ انسان کو اس سےدور رہنے کی ہدایت دیتا ہے کیونکہ ایک مومن کایہ اعتقاد ہونا چاہئیے کہ اس کے نزدیک ایمان سے بڑھ کر کچھ نہیں۔بلکہ ایمان ہے تو سب کچھ ہے۔ ایمان نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ شعر؛
مسماں کو یارب مسلماں بنادے
مسلماں کو پھر اہل ایماں بنا دے
نوٹ! حدیث متذکرہ بالا میں ایمان کے نکلنے سے یا تو نور ایمان یا پھر غیرت ایمانی کا نکلنا مراد ہے
زنا کے متعلق سلیم الفطرت حضرات کے مواقف
زنا کی قباحت اس سے بھی خوب واضح ہوتی ہے کہ سلیم الفطرت حضرات ہمیسشہ اس سے گھن محسوس کرتے تھے
ایسے لوگ اس گناہ عظیم کی تہمت کا بد نما داغ اپنے دامن پر لگنے سے پہلے اس دنیائے فانی کوچ کرنے کی خواہش رکھتے تھے ۔
چنانچہ حضرت مریم رضی اللہ عنہا نےاپنے نےاوپر زنا کی تہمت سننے سے پہلے مر مٹنے کی تمنا کی” جیسا کہ اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا ترجمہ:پس!وہ اس (لڑکے)کے ساتھ حاملہ ہو گئی تو اسے لیکر ایک دور جگہ میں چلی گئی پھر دردہ زہ اسے ایک کھجور کے تنے کی طرف کھینچ لایا کہنے لگی اے! کاش اس سے پہلے میں مر جاتی اور بھولی بسری ھو جاتی۔ سورۂ مریم
اس آیت کریمہ کے ماتحت علامہ شوکانی رقم طراز ہیں۔۔۔
انہوں نے موت کی تمنا کی کیونکہ انہیں خدشہ ہوا کہ ان کے دین کے حوالے سےان کے بارے می
ں برا گمان کیا جاے گا۔ فتح القدیر
جس گناہ کے جھوٹھے الزام کے پیش نظر اللہ کی بندی حضرت مریم رضی اللہ عنہا اس دار فانی سے رحلت کرنے کی تمنا کر رہی تہیں رب کے اس بندی کے نزدیک وہ گناہ کس قدر سنگین اور قبیح ہوگا
ابن ماجہ نے داماد رسول حضرت عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے انہوں نے فرمایا کہ بخدا میں نے کبھی بھی زنا نہیں کیانہ زمانۂ جاہلیت میں اور نہ اسلام قبول کرنے کے بعد۔ الحدیث
اور یہی حال حضرت ضمام بن ثعلبہ کا تھاجو زمانۂ جاہلیت میں بھی اس طرح کے فواحشات سے کوسوں دور رہا کرتے تھے۔
متذکرہ بالا حدیثوں میں سلیم الفطرت حضرات کے مواقف کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات تو ایک دم صاف ہو جاتی ہے کہ یہ حضرات زنا کو گناہ کبیرہ سمجھنے کے ساتھ اس سے کافی گھن رکھتے تھے۔
مسلمانوں سے اس بابت ایک اپیل!
قرآن حکیم اور حدیث نبوی سے یہ ثابت ہوا کہ زنا ایک بدترین گناہ ہے۔ اس سے سبھی فرزندان توحید کو سختی کے بچنا ضروری ہے۔جو اس برے فعل کے انجام دہی سےمعاذ اللہ باز نہ آیے اور بار بار اس میں مبتلا ہوکر اپنے ایمان کے وجود کو خطرے میں ڈالے، ایسے لوگوں کا سختی کے ساتھ سماجی اور معاشی بائیکاٹ کرناچاہیے۔ یہ صرف فرد واحد کا کام نہیں بلکہ سماج کاہر فرد اس کے تئیں ذمہ دار ہے کہ قوم کو اس عمل بدسے نجات دلانے میں کلیدی کردار ادا کرے۔ کیوں کہ ہر فرد اپنے تئیں اگر بچ بچا لے گا تو یقینا زمانۂ آ ئندہ میں اس کو ایک اچھامعاشرہ کہنے کے ساتھ لوگوں کے درمیان سے یہ برائئ بھی جلد ختم ہوتی ہوئئ نظر آئے گی اوررب کی رحمت وبخشش کا حصہ دار بن کر ایک مثالی معاشرہ بن جائے گا۔