ازقلم: احمد حسین مظاہری، پرولیا
یقیناً یہ بات آپ سے مخفی نہیں ہوگی کہ ماہِ رمضان المبارک اپنی برکتوں اور فضیلتوں کو سمیٹتے ہوئےاپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔۔
یہ بات بھی آپ لوگوں کو بخوبی معلوم ہے کہ ماہِ رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتیں شب قدر کہلاتی ہیں؛اسی طرح انہی آخری ایام میں ایک جمعہ ہے یعنی رمضان کی رخصتی والاجمعہ،جو خصوصاً بر صغیر ہندوپاک میں کافی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے،جس کو عرف عام میں”جمعۃ الوداع”کہا جاتا ہے۔
عوام میں رمضان المبارک کا آخری جمعہ بڑی اہمیت کے ساتھ مشہور ہے؛اس دن بہت لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ نئے نئے کپڑے پہنتے ہیں اور مخصوص عبادتوں میں مصروف رہتے ہیں نیز مخصوص سورتوں کے ساتھ نوافل پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں،بلکہ بعض لوگ اس دن قضائے عمری کی نیت سے نمازیں پڑھتے ہیں جو از روئے شرع درست نہیں ہے۔۔خوب اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ حضور ﷺ رمضان المبارک کا مکمل آخری عشرہ اعتکاف اور راتوں کو جاگ کر عبادت میں گزارتے تھے،پورے عشرے میں عبادت کا اہتمام تو احادیث میں منقول ہے، لیکن آخری جمعے کے لیے نئے کپڑے سلوانا،تیاری کرنا یا خاص عبادت کرنا احادیث سے ثابت نہیں ہے؛لہذا ان چیزوں پر عمل کرنا بلکل درست نہیں کیونکہ مذکورہ بالا باتوں پر نہ صحابہ کرام نے عمل کیا نہ تابعین وغیرذلک۔
دوسری بات الوداعی جمعہ کے خطبہ کو لوگ پڑھنا اتنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی امام صاحب نہ پڑھے تو اس پر تنقید شروع کر دیتے ہیں۔۔۔!!
جمعۃ الوداع میں خصوصی اعمال وعبادات پر علماء کرام نے قدغن لگائی ہے۔۔چنانچہ حضرت سید الکونین علیہ الصلاۃ والسلام، خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ائمہ مجتہدین رحمہم اللہ سے ثابت نہیں ہے،اس کو اکابر اہلِ فتاوی نے مکروہ اور بدعت لکھا ہے۔ابوالحسنات حضرت مولانا عبد الحی لکھنؤی رحمہ اللہ نے ”مجموعۃ الفتاوی” اور ”خلاصۃ الفتاوی ” (329/4) کے حاشیہ میں اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ نے ”فتاوی رشیدیہ” (ص: 123) میں، اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ”امداد الفتاوی” (685/1)میں، اورحضرت مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند، مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ نے ”فتاوی دارالعلوم دیوبند” (96/5) میں اور فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی رحمہ اللہ نے ”فتاوی محمودیہ” مطبع ڈابھیل (296/8)، مطبع میرٹھ (416/12) میں، اور مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ نے ”امداد المفتیین” (ص: 404) میں بد عت اور مکروہ لکھا ہے۔ (بحوالہ فتاوی قاسمیہ)
نوٹ:جملہ مساجد کے خطیبوں سے استدعا ہے کہ مذکورہ بالا باتوں کو اپنی تقریر کا موضوع بنائے اور عام خطبہ دیں الوداعی خطبہ ہرگز نہ دیں نیز قرآن و حدیث کی روشنی میں عوام کو حقیقت سے روشناس کرائیں۔۔
رب جلیل میں دست بدعا ہوں حق جل مجدہ اپنے بیکراں فضل و احسان کے صدقے میں ہمیں مذکورہ بالا باتوں پر عمل کرنے کی توفیق ارزانی فرمائے نیز بدعت سے مامون رکھے ۔(آمین)