از قلم: رافد شاکری (جالون، یوپی)
فون نمبر۔ 9118479128
اس وقت پوری دنیا میں مسلمان جن خطرات سے دوچار ہیں اس کا احساس کم وبیش سب کو ہے، پورا عالم اسلام کوہ آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا ہے، ہندوستان میں مسلمان خود کو آزادی کے بعد سے اب تک کبھی بھی اتنا غیر محفوظ نہیں سمجھتے تھے جتنا آج سمجھ رہے ہیں ، لیکن جو چیز اس سے زیادہ خطرناک ہے وہ یہ کہ ان تمام حالات کے باوجود ہماری حالت تقریبا وہی ہے جو حالی نے زمانہ جاہلیت کی کھینچی تھی "پڑے سوتے ہیں بے خبر اہل کشتی”
خطرات کی گھنٹیاں اس زور سے بج رہی ہیں کہ بہرے بھی جاگ جائیں ہر طرف مسلمانوں کو ہی ٹارگیٹ کیا جا رہا ہے، کہیں اذان پر پابندی لگائی جا رہی ہے تو کہیں حجاب پر ، کہیں مسجدوں کو مسمار کیا جا رہا ہے تو کہیں مدارس کو، ہر جگہ مسلمانوں کے ساتھ ظلم وزیادتی کی جا رہی ہے، لیکن ہم مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ہم جاگ کر بھی آنکھیں ملنے میں لگے ہیں، یہ خیال کسی کو نہیں کہ آگے ہمیں کیا کرنا ہے؟ ، یہ خطرات کیوں پیدا ہوئے؟ ،ہم نے کیا کیا کوتاہیاں اور غلطیاں کیں؟
عالم اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ خطرات اس بھی بڑھ کر سامنے آچکے ہیں ، مختلف زمانوں میں مسلمانوں نے انکا مقابلہ کیا ، کبھی کبھی تو لگتا تھا کہ یہ سورج ڈوب نہ جائے، لیکن انکا ضمیر قوت ایمانی سے سرشار تھا انکے اندر ایمانی غیرت وحمیت تھی ، انکا حال یہ تھا کہ۔۔۔
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں ، ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے ،
تاتاریوں نے جب مسلمانوں پر چڑھائی کی تو لگتا تھا کہ مسلمانوں کا چراغ گل ہی ہو جائے گا، لیکن یہ اہل ایمان کی قوت ایمانی اور جزبۂ دعوت تھا کہ تاتاریوں کی پوری ایک شاخ حلقہ بگوش اسلام ہوئی،
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانہ سے
آج جو حالات ہیں اس سے سخت حالات گزر چکے ہیں مسئلہ حالات کی سنگینی کا نہیں مسئلہ ہماری غفلت کا ہے ، خطرہ غیروں سے نہیں، خطرہ خود ہمیں اپنی ذات سے ہے، اگر اس کے سد باب کی کوشش نہ کی گئی اور اپنی غیرت ایمانی کو نہ جگایا اور للکارا گیا ، دلوں میں اگر خودداری اور احساس ذمہداری نہ پیدا کی گئی تو پھر خدا ہی حافط ہے۔