قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے

تحریر: مجیب الرحمٰن، جھارکھنڈ

جہاں کی چمک دمک اس کی رنگ ریلیاں، اس کی عمدگی ودلکشی، رعنائی و زیبائی، آنکھیں خیرہ کی ہوئی ہیں ، چمن میں رنگا ہاے رنگ پھول جو دلوں کی فرحت و تازگی کا سامان ہے ، گل کی مہک جو فضا کو عطر بیز کئے ہوئ ہے ، بلبل کی نغمہ سنجی جس سے دل باغ باغ ہے ، کویل کی سریلی آواز جو فضا میں تیرتی رہتی ہے ، شاہین کی قوت پرواز جس سے حوصلوں میں پختگی آتی ہے ، سلسلہ وار پہاڑوں کا منظر جو دیدہ عبرت بخش رہی ہیں ، اٹکھیلیاں کرتی ندیاں جو آنکھوں کیلئے قابل دید ہے ، صحرا و بیان کی خاموشی جو اپنے صدائے بے نوا پر صابر ہے، مختلف قسم کے درخت 🌲 جو انسانوں کی رفع رسانی میں محو ہے،
سچائی یہ ہے کہ یہ سب صدقہ ہے ایک ذات کا جو کہ باعث تخلیق کن فکاں ہے، اگر اس ذات کا صدقہ نہ ہو تو ان سب چیزوں کا وجود ہی نہ ہوتا، خود انسانی تخلیق کا مقصد ہی یہی تھا کہ اس ہستی کا پیروکار رہے، ورنہ انسانوں کی تخلیق بھی کوئی معنی نہیں رکھتی تھی ،
جس ذات کی بات ہورہی ہے وہ ذات سراپا ہدایت و رحمت ہے ، اور صرف انسانوں ہی کیلیے نہیں بلکہ پوری کائنات اس ذات کے فیض کرم سے بہرہ ور ہے ،
تاریخی طور پر اگر غور کیا جائے اور حقیقت بھری نظر سے دیکھی جائے تو یہ بات بالکل جگ ظاہر ہے کہ اس سراپا رحمت کی آمد سے پہلے دنیا ہلاکت کے دہانے پر تھی، جہالت کی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھٹک رہی تھی، انسان انسان کے خون کے پیاسے تھے، عورتوں کو جینے کا کوئی حق نہ تھا، خون خرابا تو ایک عام سی بات تھی، اخلاقی گراوٹ اس درجہ کمال کو پہنچی ہوئی تھی کہ ماؤں کے ساتھ زنا بالجبر کیا جاتا تھا، عقل پر اس قدر پردے پڑے ہوئے تھے کہ پتھروں کے آگے جبیں سائی کرتے اس سے مرادیں مانگتے، اسی کو مشکل کشا و حاجت روا سمجھتے، لیکن جب ظہور باعث تخلیق کون و مکاں ہوا تو دنیا نے روشنی میں قدم رکھا، جہاں والوں کو حقیقی سبق کا درس ملا، اور حیوانیت صفت زندگی سے نکال کر پاکیزہ زندگی کی راہ دکھائی، عورتوں کی عظمت کو اجاگر کیا، انہیں زندگی گزارنے کا حق دلوایا اور انہیں خرمن مظلومیت سے نکال کر دامن آزادی میں امر کردیا،
محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم، تمام انبیاء میں سب سے اول بھی اور آخر بھی ہیں کیونکہ انبیاء کی تخلیق بھی انہیں کے صدقے میں ہوئی اور اس کی سب سے بین ثبوت معراج کا واقعہ ہے جہاں بیت المقدس میں تمام انبیاء کی امامت کرائی گئی،
ان سب عظمتوں سے پتہ چلتا ہے کہ محمد عربی کی ذات خدا کے بعد سب سے بلند و برتر ہے، اس کی دلیل میں شاعر کا یہ شعر ہی کافی ہے،

لایمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر،
ظاہر سی بات ہے جس ذات کو قدرت نے اتنا بلند کیا کہیں قاب قوسین سے سرفراز کیا تو کہیں ۔۔ ورفعنالک ذکرک۔ کا مزدہ سنایا، کہیں انک لعلی خلق عظیم۔۔ کی بشارت سنائی، اس سے پتہ چلتا ہے کہ محمد عربی سے قدرت کو کتنی محبت تھی، اور پھر مزید برآں احسان یہ کیا کہ اپنے محبوب کو دنیا میں بسنے والے انسانوں کے حوالہ کردیا،

شاعر کہتا ہے،۔ ۔۔۔۔۔۔

عطا دیکھی تو رب کی دیکھی
ورنہ کون دیتا ہے کسی کو محبوب اپنا،

انسانوں کے درمیان بھیج کر محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے آداب بتلا دئیے،۔ محفل میں آپ کے ساتھ کیا برتاؤ ہو، تنہائی میں کیا برتاؤ ہو، ہر چیز کو واضح کردیا،۔ ارشاد فرمایا،۔۔۔۔۔۔
نبی کی آواز سے اپنی آواز اونچی نہ رکھو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال حبط کرلئے جائیں اور تمہیں شعور تک نہ ہو،

خالق کائنات کو آپ کی آواز سے کسی کی اواز بلند ہو جائے تو بالکل گوارہ نہیں،۔ پھر آپ کی شان میں گستاخی کیوں کر برداشت ہو ؟؟؟؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو ایمان کا معیار قراد دیا۔۔ خود حضور نے فرمایا۔۔۔ تم میں سے کوئی بھی شخص کامل مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں تمہارے نزدیک تماری اولاد، تمہاری جان، اور دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں، جبکہ آپ کی محبت ہی اصل ایمان ہے تو پھر مسلمان آپ کی شان میں گستاخی کیوں کر برداشت کریگا؟؟؟؟
یہی وجہ ہے کہ آج ملک ہندوستان میں ایک ملعون خاتون نے گستاخانہ کلمات کہئے مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کیا گستاخی کرکے اس کے ایمان کو متزلزل کرنے کی کوشش کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج ہر مسلمان اپنے نبی کی حرمت کیلے سراپا احتجاج ہیں، اور اس ملعون کی سزا کے امیدوار ہیں، لیکن ہند کی ڈکٹیٹر حکومت چپی سادھے ہوئی ہے، پوری دنیا میں اس گستاخی کی بو پھیل گئ ہے، اور پورا عالم اسلام بس ایک ہی صدا لگا رہا۔۔۔۔ لبیک یا رسول اللہ لبیک،
اخیر میں ہر مسلمان سے یہی گزارش ہے کہ اپنے نبی کی حرمت کیلے جان کی پرواہ نہیں کی جائے گی کیونکہ اگر ہم اپنے رسول کی حرمت کو نہیں بچا سکتے تو پھر ہمیں بھی جینے کا کوئی حق نہیں،
لیکن اس سے بھی ضروری امر یہ ہے کہ ہم غیروں تک اپنے نبی کی روشن تعلیم کو پہنچائیں، ان کے دلوں کو نبوی اور ابدی تعلیم سے منور کریں اگر اس پر عمل ہو گیا تو پھر جو آج زبان درازی کررہے ہیں وھی آپ کے سچے جانثار بن جائیں گے تاریخ اس طرح کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے،
اگر ہم آپ کے مشن کو لیکر اٹھیں گے تو پھر ہر پستی بلندی میں بدل جائے گی، تاریکیاں چھٹ جائیں گی، اور دنیا میں امن و امان پھیل جائے گا،
ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ ہم فقط لبیک یا رسول اللہ لبیک کی صدا بلند کرتے ہیں لیکن آپ کی سنتوں سے معترض ہیں حالانکہ سچی محبت یہی ہے کہ آپ کی ہر ھر ادا کو اپنا کر اس پر عمل پیرا ہو جائے،

اللہ تعالیٰ ہمیں اپ کی سنتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے