ازقلم: محمد ہاشم القاسمی
دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال
رابطہ نمبر : 9933598528
ادب عربی زبان کا لفظ ہے اور مختلف النوع مفہوم کا حامل ہے۔اَدب کے معنی شائستگی، لحاظ، تمیز۔ تہذیب، علمِ، اور زبان کے ہیں.
ظہور اسلام سے قبل عربی زبان میں ضیافت اور مہمان نوازی کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ بعد میں ایک اور مفہوم بھی شامل ہوا جسے ہم مجموعی لحاظ سے شائستگی کہہ سکتے ہیں۔
عربوں کے نزدیک مہان نوازی لازمہ شرافت سمجھی جاتی ہے، چنانچہ شائستگی، سلیقہ اور حسن سلوک بھی ادب کے معنوں میں داخل ہوئے۔ جو مہمان داری میں شائستہ اور سنجیدہ ہوگا وہ عام زندگی میں بھی شائستہ اور سنجیدہ ہوگا اس سے ادب کے لفظ میں شائستگی اور سنجیدگی بھی آگئی۔ اس میں خوش بیانی بھی شامل ہے، جب کہ اسلام سے قبل خوش بیانی کو اعلٰی ادب کہا جاتا تھا۔ گھلاوٹ، گداز، نرمی، شائستگی اور سنجیدگی یہ سب چیزیں ادب کا جزو بن گئیں۔
بنو امیہ کے زمانے میں بصرے اور کوفے میں زبان کے سرمایہ تحریر کو مزید فروغ حاصل ہوا۔ اسی زمانے میں گرامر، قواعد اور صرف ونحو کی کتب اِرقام کی گئیں تاکہ ادب میں صحت کے ساتھ اندازبیان قائم رہے۔
جدید دور میں ادب کے معنی مخصوص قرار دیے گئے ہیں ۔ ادب کے لیے ضروری ہے کہ اس میں تخیل، پرواز اور جذبات ہوں ورنہ ہر تحریری کارنامہ ادب کہلا سکتا ہے۔
خواہش تخلیق انسان کی فطرت ہے۔ اسی جبلی اور فطری خواہش سے آرٹ پیدا ہوتا ہے۔ آرٹ اور دوسرے علوم میں یہی فرق ہے کہ اس میں کوئی مادی نفع مقصد نہیں ہوتا۔ یہ بے غرض مسرت ہے۔ ادب آرٹ کی ایک شاخ ہے جسے "فن لطیف” بھی کہہ سکتے ہیں۔
میتھو آرنلڈ کے نزدیک وہ تمام علم جو کتب کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، ادب کہلاتا ہے۔
کارڈ ڈینل نیومین کہتا ہے "انسانی افکار، خیالات اور احساسات کا اظہار زبان اور الفاظ کے ذریعے ادب کہلاتا ہے "۔
نارمن جودک کہتا ہے کہ "ادب مراد ہے اس تمام سرمایہ خیالات و احساسات سے جو تحریر میں آچکا ہے اور جسے اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کو مسرت حاصل ہوتی ہے۔ "
مائی کین لکھتا ہے” قدرت نے انسان میں جو سرمدی صلاحیتیں ودیعت کی ہیں ان کا اظہار "ادب” ہے۔
نیومین نے زبان اور الفاظ کے زریعے سے انسانی افکار و خیالات اور محسوسات کے اظہار کو ادب قرار دیا ہے۔
ادب کی تشکیل ادیب کرتا ہے۔ یہ حساس طبیعت انسانی معاشرے کا گہرائی اور عمیق نظری سے مشاہدہ کرکے اس کی اچھائی اور برائی، کمی اور خوبی، کثرت اور قلت کو قلم کی روشنائی میں گھول کر، کاغذ پر ایک ایسے آئینے کی صورت میں سامنے رکھ دیتا ہے، جس میں معاشرہ اپنا چہرہ دیکھ سکتا ہے۔
ادیب ایسا انسان ہوتا ہے جس میں ادراک کی صلاحیت بھی ہوتی ہے اور اس کے اظہار کی قوت بھی۔ اس کے ادراک اور اظہار میں اتنی داخلی و خارجی وسعت اور تہ داری اور گہرائی ہوتی ہے کہ ادب انفرادی و ذاتی ہوتے ہوئے بھی آفاقی ہوتا ہے۔ جتنا بڑا ادیب ہوگا، اس کے تجربے کا تنوع، اس کا شعور و ادراک اور اس کا اظہار اتنا ہی بڑا اور آفاقی ہوگا۔
(’’جہانگیر ورلڈ ٹائمز‘‘ جنوری )
اَدب کی اصطلاح فن کے ایک مقبول تخلیقی شعبے سے متعلق ہے لیکن مجلسی آداب، مہمان نوازی، تعلیم و تعلم، صَرف و نحو اور زبان دانی کے مفاہیم بھی اسی میں شامل ہیں۔
ابنِ خلدون نے ادب کو علم قرار دیا ہے۔ کچھ عرصہ یہ اصطلاح منشی گری اور انشاء نگاری کے لیے بھی رائج رہی ہے۔
ادب میں تخلیقیت کا عنصر کب اور کیسے شامل ہوا کچھ علم نہیں۔ بہرحال وہم و خیال، تصور و تخیل کی کرشمہ سازیوں نے اس اصطلاح کو جدید پیرہن عطا کیا ہے۔ مغربی ناقدین نے ادب کی حسبِ ذیل تعریفات بیان کی ہیں.
مجنوں گورکھپوری لکھتے ہیں "ادب کوئی راہب یا جوگی نہیں ہوتا اور ادب ترک یا تپسیا کی پیداوار نہیں ہے۔ ادب بھی اسی طرح ایک مخصوص ہیئت اجتماعی، ایک خاص نظام تمدن کا پروردہ ہوتا ہے جس طرح کہ کوئی دوسرا فرد، اور ادب بھی براہ راست ہمار ی معاشی اور سماجی زندگی سے اسی طرح متاثر ہوتا ہے، جس طرح ہمارے دوسرے حرکات و سکنات۔
ادیب کو خلاق (تخلیق کرنے والا) کہا گیا ہے، لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ قادر مطلق (اللہ رب العزت) کی طرح صرف ایک ’’کن‘‘ سے جو جی چاہے اور جس وقت جی چاہے پیدا کر سکتا ہے۔ شاعر جو کچھ کہتا ہے اس میں شک نہیں کہ ایک اندرونی اپج سے مجبور ہوکر کہتا ہے، جو بظاہر انفرادی چیز معلوم ہوتی ہے۔ لیکن دراصل یہ اپج ان تمام خارجی حالات واسباب کا نتیجہ ہوتی ہے جس کو مجموعی طور پر ہیئت اجتماعی کہتے ہیں”.
دنیا کے ادبیات کا اگر تاریخی مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت دن کی طر ح روشن ہو جاتی ہے کہ زندگی کے اور شعبوں کی طرح ادب بھی انہیں حالات واسباب کا نتیجہ ہے جن کو مجموعی طور پر ہیئت اجتماعی یا نظام معاشرت کہتے ہیں۔ ادب انسان کے جذبات و خیالات اور احساسات کا ترجمان ہے اور انسان کے جذبات و خیالات تابع ہوتے ہیں زمانے اور ماحول کے۔ جیسا دور اور جیسی معاشرت ہوگی ویسے ہی جذبات و خیالات ہوں گے اور پھر ویسا ہی ادب ہوگا. جیسے قومی اصلاح کا کام لیا۔
1953ء میں ترقی پسند تحریک چلی ا ور ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی پر بحث شروع ہوئی۔ادب برائے ادب کے مخالفین بھی حد سے زیادہ تجاوزکر گئے۔کچھ لوگ حقیقت پسندی کے جنون میں فن اور جمالیاتی پہلو کو نظر انداز کر گئے۔ایک گروہ ایسا بھی ہے جو جادہ اعتدال پر رہا۔وہ جہا ں ادب کے لیے زندگی کی ترجمانی ضروری قرار دیتا ہے، وہاں اس کے جمالیاتی پہلو کوبھی نا گزیر گردانتا ہے، یعنی ادب کا مقصد حظ آفرینی کے ساتھ معاشرتی اصلاح بھی ہے، فن میں مقصدیت کا باوا آدم افلاطون ہیجس نے ادب کے لیے اخلاقی ہونا ضروری قرار دیا، اس کے نزدیک ادب کا ایک مقصد اچھے ش
ہری پیدا کرنا ہے، علامہ اقبال ؒ بھی ادب کی افادیت کے قائل ہیں، ان کے نزدیک اچھا شاعر یا ادیب وہ ہے جس کے دل میں قول کا درد ہے.
ادب برائے زندگی میں اُس ادب کو پروان چڑھانے کی بات کی جاتی ہے جو کہ زندگی کے حوالے سے اُمید، مقصد اور اِفادیت کا حامل ہو۔
ادب کو زندگی کا حسن سنوارنے اور نکھارنے کے لیے ذریعہ بنایا جائے۔ ادب زندگی کے حوالے سے ہماری معلومات میں اضافہ کرے اور بہتر زندگی گزارنے کا لائحہ عمل پیش کرے۔
سر سید احمد تحریک کے زیرِ اثر ادیبوں نے ادب میں مقصدیت کی بات کی اور ترقی پسند تحریک نے اُردو ادب میں ادب برائے زندگی کا نظریہ پیش کیا۔
(تنقیدی نظریات اور اصطلاحات)
گلف نیوز کے مطابق ، ادب نے "تہذیبوں کو شکل دی ہے ، سیاسی نظام تبدیل کیا ہے اور ناانصافی کو بے نقاب کیا ہے۔” ادب لوگوں کو زندگی کے دوسرے شعبوں کو سمجھنے میں بھی مدد کرتا ہے۔ بیانات ، خاص طور پر ، ہمدردی کی تحریک دیتے ہیں اور لوگوں کو ان کی زندگی اور دوسروں کی زندگیوں کے بارے میں ایک نیا تناظر دیتے ہیں
کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے جس نے ادیب کی معقول تعریف کی اور ’’ادب‘‘ اور ’’زندگی‘‘ میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی وہ میتھوآرنلڈ تھا۔ ادب کی جو اس نے تعریف کی ہے وہ آج تک ضر ب المثل ہے۔ اس نے ادب کو زندگی کی تنقید بتایا ہے۔ یہ تعریف اگرچہ مبہم ہے لیکن ہے بہت گہری اور اس جدید میلان کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس نے اسی زمانے میں کارل مارکس سے ’اشتراکی اعلان‘ لکھوایا تھا.
ادب پڑھنا ایک خوشگوار ، دل لگی سرگرمی ہے جو قارئین کو روزمرہ کی زندگی کی پریشانیوں سے بچنے کا امکان فراہم کرتی ہے۔ سب سے بڑھ کر ، ادب قارئین کی تفریح کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے زندہ ہے۔ ادب بھی قارئین میں فکر کو بھڑکانے کی طاقت رکھتا ہے ، اسے تفریحی سرگرمی بنا دیتا ہے جو فکری طور پر بھی نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ایک کہانی قارئین کو مختلف مقامات ، وقت کے اوقات ، نقطہ نظر اور ثقافتوں کو بے نقاب کر سکتی ہے۔ قارئین ایسے ادب کے ذریعے تجربات حاصل کرسکتے ہیں، جن کی عام زندگی میں ان تک کبھی دسترس نہ ہو۔ تخیل کو گرفت میں لینے اور دوسروں کی زندگیوں کو پیش کرنے کی ادب کی قابلیت بھی قارئین کی دوسروں کے ساتھ ہمدردی کرنے کی قابلیت کو بڑھا تی ہے.
اختر حسین رائے پوری کی دیگر تحریروں کی اہمیت اپنی جگہ مگر ان کے مقالہ ’’ادب اور زندگی‘‘کو اس بنیا د پر ایک خاص اہمیت حاصل ہے، کیونکہ اس مقالے نے برصغیر میں ترقی پسند ادب کی تحریک کو نکتہ آغاز فراہم کیا ہے، 1935ء میں لکھے گئے اس انتہا ئی اہم مقالے کی حیثیت آج بھی مسلمہ تسلیم کی جا تی ہے۔ اگر کسی کو اس با ت میں رتی برابر بھی شک ہو تو وہ خود اس مقالے ’’ادب اور زندگی‘‘ کا مطا لعہ کر کے دیکھ لے۔یہ مقالہ آج بھی تازہ دکھائی دیتا ہے، کیو نکہ21ویں صدی میں بھی بے شک ادب کی شکل، موضو عات، اور اسلوب تبدیل ہو چکے ہوں، مگر ’’ادب اور زندگی ‘‘میں اٹھا ئے جا نے والے سوالات آج کے دور میں بھی اہمیت کے حامل ہیں۔کیا آج بھی یہ سوال اہمیت کا حامل نہیں ہے کہ آرٹ انسان کے لئے ہے یا انسان آرٹ کے لئے؟اختر حسین کی اپنے دور کے ادیبوں پر کی جانے والی یہ تنقید آج بھی اہمیت کی حامل ہے،کہ اکثر ادیب صرف Form،یعنی ہیت کو ہی اہمیت دیتے ہیں، اور وہ اس با ت کو نظر انداز کر دیتے ہیں، کہ کس ادیب نے کس ما حول میں پر ورش پا ئی ہے۔
اختر حسین رائے پوری کے مطا بق ادب زندگی کا ایک شعبہ ہے اور زندگی اور ادب کا مقصد ایک ہی ہے۔