تحریر: شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار
قارئینِ کرام!
بقرہ عید کی قربانیوں کی نسبت آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔اسی مناسبت سے
زیر نظر واقعہ بالتفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔
خلیل الرحمن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا کا حکم ہوتا ہے، اور آپ اپنی بیوی حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالی عنہا کے دودھ پیتے اکلوتے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ملک شام سے سرزمین عرب میں لے کر جاتے ہیں۔ اور ایک لق و دق سنسان بیابان میں بیٹھا دیتے ہیں۔ایک چھاگل میں تھوڑا سا پانی اور کچھ چھوارے دے کر بغیر کچھ کہے سنے پیٹھ پھیر کر چل دیتے ہیں حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا متعجب اور بیتاب ہو کر دریافت فرماتی ہیں خلیل اللہ آپ ہمیں تنہا چھوڑ کر کہاں چلے؟مگر جواب تو کجا آپ نے مڑ کر دیکھا بھی نہیں پکڑنے کو اٹھیں مگر آپ دوڑنے لگے نا چار ہوکر فرمایا اچھا یہ تو فرمائیے کہ کیا ہم سے ناراضگی ہے یا خدا کا اس طرح کا آپ کو حکم ہوا ہے ؟ فرمایا ہاں مجھے میرے رب کا یہی حکم ہوا ہے حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو تسکین ہو گئی اور فرمانے لگیں شوق سے تشریف لے جائیے جب ہم اس کے فرمان پر کاربند ہیں تووہ ہمیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا الٹے پاؤں واپس چلی آئیں اور صبر و شکر کے ساتھ اطاعتِ خداوندی میں اپنے ننھے سے گود کے بچے کے ساتھ دل بہلانے لگیں یہاں تک کہ وہ ناکافی تو شہ چند کھجوریں اور چند گھونٹ پانی ختم ہوگیا۔ بھوک پیاس کا غلبہ ہوا ہائے بے بسی اور کسم پرسی، چٹیل میدان کی تنہائی، جہاں کوسوں دور تک آدمی چھوڑ جانور کا بھی نام و نشان نہیں حد نظر تک کوئی سایہ دار درخت تک نہیں سوائے ریت کے تودوں اور غیر مسلسل ناہموار پہاڑیوں کے کچھ دکھائی نہیں دیتا پانی تو کہاں دور دور تک تری بھی نہیں ۔ ہو کا عالم ہے ،غضب کا سناٹا ہے ،نہ کوئی مونس ہے نہ غمخوار ، نہ یار و مددگار ، جان سے زیادہ عزیز بچے کا برا حال ہے ، اس کا پھول سا چہرہ مر جھا رہا ہے ، ہونٹوں پر پیڑیاں جم گئ ہیں ، سانس رک رک کر چل رہا ہے ، نبضیں چھوٹی ہوئی ہیں ، زبان اینٹھ رہی ہے ، حلق خشک ہو رہا ہے ، گلے میں کانٹے پڑ رہے ہیں ، ٹانگیں رگڑ رہا ہے ، دم توڑ رہا ہے ، مامتا بھری ماں سامنے بیٹھی منہ تک رہی ہے ، ٹکٹکی لگائے ہوئے ہے، دنیا ساری آنکھوں تلے اندھیری ہو رہی ہے ، خاوند کی دوری ، وطن کی مہجوری ، بچہ کی جان کنی اور بے بسی ، بھوک ، اور پیاس ، ریت اور دھوپ ، تنہائی اور بیابان ، آہ اس ننھی سی جان کا، اپنی بھولی بھالی بولی میں اماں اماں پکارنا اور بے بس اور دکھیا اماں کا صدقے اور نثار ہونا ، بچے کا پانی مانگنا اور ماں کی آنکھوں سے موسلادھار آنسو بہانا اور کلیجہ مسوس کر رہ جانا عجیب عبرت ناک منظر تھا ۔ اپنے کلیجے کے ٹکڑے اپنی آنکھوں کے نور، اپنے دل کے سرور، معصوم لاڈلے اور اکلوتے پیارے فرزند کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی، بیتاب ہو کر کھڑی ہو جاتی ہیں اور آس پاس نظریں دوڑاتی ہیں کہ کہیں پانی دیکھ لوں، یا کوئی ہم جنس نظر آ جائے مگر سوائے مایوسی کے کچھ نہیں۔ صفا پہاڑی پر چڑھتی ہیں، پھر وہاں سے اتر کر مروہ پہاڑی پر چڑھتی ہیں مگر بے سود۔ تھک کر آسمان کی طرف دیکھتی ہیں اتنے میں ایک غیبی آواز آتی ہے تم کون ہو؟ جواب دیتی ہیں میں ابراہیم کے صاحبزادے اسماعیل کی والدہ ہوں فرشتہ پوچھتا ہے ابراہیم اس بے پناہ جنگل میں تمہیں کس کے سپرد کر گئے ہیں ؟ فرماتی ہیں وہ ہمیں خدا کو سونپ گئے ہیں جبرئیل علیہ السلام فرماتے ہیں پھر کوئی حرج نہیں خدا کافی ہے اسے سونپی ہوئی چیز برباد نہیں ہوتی وہیں جبرئیل علیہ السلام بحکم خداوندی اپنی ایڑی زمین پر رگڑتے ہیں اور صاف شفاف پانی کا چشمہ ابلنے لگتا ہے یہی چاہ زمزم ہے جس کا پانی بہت مبارک اور متبرک ہے حضرت ہاجرہ خدا کا شکر بجا لاتی ہیں یہ پانی انہیں غذا کا کام بھی دیتا ہے اور پانی کا بھی بچے کی جان بھی بچ جاتی ہے!
تازہ ہے چمن عبد خداۓ دوجہاں کا ؛ کچھ دخل نہیں گلشنِ قدرت میں خزاں کا ۔
اب پانی کی وجہ سے کچھ اور لوگ یہاں آبسے اور ایک چھوٹی موٹی سی آبادی ہوگئی (اسی بستی کا نام مکہ مکرمہ ہے جو آج مسلمانوں کا قبلہ ہے)
بہرحال حضرت ابراہیم علیہ السلام خواب میں دیکھتے ہیں کہ گویا اپنے لختِ جگر پیارے بچے کو راہِ خدا میں قربان کر رہے ہیں تعمیل ارشاد کے لئے فوراً تیار ہو جاتے ہیں بیٹے سے کہتے ہیں، بچے سیر کو چلو، رسی اور چھری بھی لے لو، جنگل سے لکڑیاں بھی کاٹ لائیں گے، ماں خوشی خوشی بچے کو نہلا دھلا کر اچھے کپڑے پہنا کر باپ کے ساتھ کر دیتی ہیں، بچہ ہنسی خوشی کھیلتا کودتا میٹھی میٹھی باتیں کرتا ہوا چلا جا رہا ہے۔ شیطان لعین ایک بھلے مانس کی شکل میں ماں کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے نیک بخت تمہارا بچہ کہاں گیا ؟جواب دیتی ہیں کہ وہ اپنے باپ کے ساتھ سیر کو گیا ہے شیطان کہتا ہے اے بھولی عورت کہاں کی سیر وہ تو اسے ذبح کرنے کے لئے لے گئے ہیں آپ فرماتی ہیں سبحان اللہ آج تک کسی باپ نے بھی بیٹے کو ذبح کیا ہے؟ وہ ایسا کیوں کرنے لگے؟ شیطان نے کہا وہ یوں کہتے ہیں کہ خدا کا انہیں یہی حکم ہوا ہے جواب دیتی ہیں اگر خدا کا یہ حکم ہے تو ایک بیٹا کیا ہزاروں بیٹے تصدق ہیں یہاں سے مایوس و نامراد ہو کر شیطان بچہ کے پاس آتا ہے کہتا ہے صاحبزادے کہاں جا رہے ہو؟جواب دیتے ہیں اباجی کے ساتھ تفریح کے لئے جا رہا ہوں لعین کہتا ہے کیسی تفریح وہ تو تمہیں ذبح کرنے کے لئے لے جارہے ہیں فرماتے ہیں کیوں کہا اس لئے کہ خدا کا انہیں حکم ہے فرمایا پھر کیا ہے ایک کیا ہزاروں جانیں بھی اس کے پاک نام پر قربان ہیں اب باپ کے پاس آکر کہتا ہے ابراہیم یہ بے رحمی تم اپنے چاند سے بیٹے کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے ک
ے لیے کون سا جگر لاؤ گے کیا تمہارا خون سفید ہوگیا ہے آپ فرماتے ہیں بھلا میں اسے کیوں ذبح کرنے لگا کہتا ہے تمہیں خیال ہے کہ خدا کا یہ حکم ہے آپ فرماتے ہیں پھر کیا حکم خداوندی سے بیٹا زیادہ عزیز ہے اسی کا عطیہ ہے اسی کے نام پر قربان ہوگا اب ناکام ہو کر ملعون خائب و خاسر لوٹتا ہے ۔
منی میں پہنچ کر باپ بیٹے میں گفتگو شروع ہوتی ہے ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں میرے لاڈلے مجھے تمہیں قربان کرنے کا حکم ہوا ہے تم کیا کہتے ہو
حضرت اسماعیل علیہ السلام فرماتے ہیں والد محترم فوراً تعمیل ارشاد کیجئے (چھری لیجیۓ گردن حاضر ہے) انشاءاللہ صبر و شکر کے ساتھ خالق کی اطاعت بجا لاؤں گا ہاں میرے مہربان باپ میرے ہاتھ پاؤں باندھ دیجئے کہیں ایسا نہ ہو کہ تڑپوں اور خدا کے ہاں بے صبر گنا جاؤں یا آپ کے کپڑوں پر خون کے چھینٹیں اڑیں اور میری امان جان انہیں دیکھ کر بے قرار ہوں مجھے الٹے منہ زمین پر گرانا کہیں ایسا نہ ہو کہ وقتِ ذبح میری صورت دیکھ کر آپ کو محبت آجائے چھری تیز کر لیجئے کہ فوراً مالک کو جان سونپ دو ہاں میرے پیارے ابا گھر جاکر میری امی جان سے میرا آخری سلام کہہ دینا انہیں تسلی و تشفی دینا کہیں ان کے دل پر صدمہ نہ گزرے یہ میرا کپڑا بطور نشانی کے دے دینا۔ ابا جی رخصت بسم اللہ کیجئے ۔ باپ اپنے پیارے فرزند کو گلے سے لگا لیتے ہیں اور آخری پیار کرکے فرماتے ہیں۔ جان پدر میں بہت خوش ہوں کہ تم اپنے مالک کے نام پر سر فروشی کے لیے تیار ہو بیٹا تمہیں خدا کو سونپا اپنے سینے پر صبر کی سل رکھ کر اپنے کلیجے پر داغ جدائی دے کر اپنے نور نظر کے ساتھ وہ کرتا ہوں جو کسی نے نہ کیا ہو پھر ہاتھ پاؤں باندھتے ہیں کرتا اتار لیتے ہیں پھر ذبیح اللہ کو منہ کے بل زمین پر گرا کر تیز چھری حلق پر پھیرنے لگتے ہیں رحمت ایزدی جوش میں آتی ہے دریائے کرم لہریں مارنے لگتا ہے اور رب العالمین آواز دیتا ہے اے میرے ا براہیم بس امتحان ہو چکا تم میرے حکم کی تعمیل کر چکے تمہارا اجر ثابت ہوگیا میں تم دونوں باپ بیٹوں سے خوش ہو گیا جبرئیل علیہ السلام نے حکم خداوندی سے نبی زادے کو اٹھا لیا اور ان کے بدلے میں ایک بہشتی دنبہ رکھ دیا جو ذبح ہوا
محترم بھائیو ۔ جانوروں کی قربانیاں بھی کرو اور ان سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ خواہشاتِ نفس کی قربانیاں کرو اپنے مال، جان، عزت، آبرو سب کو راہِ خدا میں قربان کرنے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا کرو
آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا