سوشل میڈیا پر گزشتہ کچھ دنوں سے مسلسل مقابلہ جاتی امتحان نیٹ (NEET) کوالیفائی کرنے والے طلبا اور ان تنظیموں و کوچنگ سنٹروں کی خوب تعریف ہورہی ہے۔ ہر کوئی خوشی سے شرابور ہے۔ ہو بھی کیوں نہ بھلا؟ آخر اس بار ہزاروں کی تعداد میں ہماری قوم کے بچے ڈاکٹر جو بننے جا رہے ہیں۔ اب اکیلے مغربی بنگال کی المشن نامی تنظیم سے 3500 طلبا کامیاب ہوئے ہیں۔ دیگر تنظیموں کے اس سے بڑے دعوے ہیں۔ لیکن کیا سچ میں ایسا ہورہا ہے؟ آئیے گزشتہ سال کی ایک کہانی سے اس پورے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سال 2020 میں دلی کے جامعہ نگر کے ایک سرکاری اسکول سے ایک ساتھ 23 مسلم بچیوں نے NEET میں کامیابی حاصل کی۔ ان بچیوں کی اس نمایاں کامیابی کی ستائش ہر طرف خوب زور و شور سے ہوئی۔ دلی کے وزیر اعلیٰ اور وزیر تعلیم نے تو باضابطہ ٹویٹ کرکے اس کا کریڈٹ لیا۔ سوشل میڈیا پر مہینوں اس کی چرچا ہوتی رہی۔ قوم کے پڑھے لکھے بے روزگار نوجوان مہینوں سوشل میڈیا پر جشن میں ڈوبے رہے؛ لیکن جب ہماری قوم اس جشن سے باہر نکلی تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس بات کی پڑتال کی جائے کہ یہ 23 مسلم بچیاں ہندوستان کے کس کس میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں؟ لیکن افسوس! میری تحقیق میں جو باتیں نکل کر آئیں وہ چونکا دینے والی تھیں۔ میری اس تحقیق و تفتیش میں اجاگر ہوا کہ ان لڑکیوں میں سے کوئی بھی دسمبر تک داخلہ نہیں لے پائی تھی۔
اس پر میں نے ایک تفصیلی رپورٹ ایک اردو اخبار کے لئے لکھی تھی ۔ اس رپورٹ میں میں نے ان بچیوں اور ان کے والدین سے بات کر کے داخلہ نہ لینے کی وجوہات کا پتہ لگانے کی کوشش کی تھی۔ میری اس رپورٹ کے بعد ’مسلمانوں کے کچھ نام نہاد صحافیوں‘ نے میری اس رپورٹ کے صرف ایک حصے کا ترجمہ کرکے لوگوں میں یہ بات پھیلا دی کہ NEET میں کوالیفائی ہونے کے باوجود پیسوں کی کمی کی وجہ سے ان بچیوں کا داخلہ نہیں ہو سکا ہے۔ قوم کے کچھ سماجی کارکن اچانک جاگ اٹھے۔ ایک کوچنگ سنٹر کے مالک نے یہ اعلان کردیا کہ میں ان تمام بچیوں کو اپنے کوچنگ سینٹر میں مفت میں پڑھاؤں گا۔ لوگوں نے انہیں دل کھول کر مبارکباد پیش کی۔ واٹس ایپ پر ان بچیوں کی مالی مدد کے لئے ایک گروپ بنا دیا گیا۔ تبھی معلوم ہوا کہ جامعہ نگر کے ایک کیفے میں اس کے متعلق میٹنگ رکھی گئی ہے۔ میں نے اس سے جڑے ایک بڑے بھائی کو کال کرکے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس پورے معاملے کی ان کو کتنی جانکاری ہے۔ انہوں نے ایمانداری کا مظاہرہ کیا اور ایک ویب سائٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ جتنی اس رپورٹ میں لکھی ہوئی ہے، اتنی ہی جانکاری ہے۔ مطلب ان کے پاس آدھی ادھوری جانکاری تھی۔ جب میں نے تفصیل سے انہیں بتایا تو ان کی گزارش تھی کہ میں بھی اس میٹنگ میں پہنچوں۔ ان کی گزارش پر میں اس میٹنگ میں حاضر تھا۔
اس میٹنگ میں سب اپنی نیک نیتی کا اظہار کر رہے تھے؛ لیکن افسوس! کسی کو بھی اس معاملے کی پوری جانکاری نہیں تھی۔ ایسے میں میں نے بھی خاموش رہنا زیادہ پسند کیا۔ اس میٹنگ میں جب یہ طے ہوا کہ سب مل کر فنڈ جمع کریں گے تاکہ ان میں سے کچھ بچیوں کا داخلہ کرا سکیں۔ تب لگا کہ مجھے بھی اپنی بات رکھنے کی ضرورت ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ آپ اگر ابھی چاہ بھی لیں تو بھی ان میں سے کسی بھی بچی کا داخلہ نہیں کرا پائیں گے، کیونکہ نیٹ کوالیفائی کرنے کے بعد کاؤنسلنگ کا فارم بھرنا ہوتا ہے، جو ان میں سے کسی بھی بچی نے نہیں بھرا ہے۔ دوسری بات سنٹرل کاؤنسلنگ کے لئے جتنے نمبر کی درکار ہے، وہ ان کے پاس نہیں ہے۔ پوری تفصیل سے میں نے میٹنگ میں موجود لوگوں کو ایک ایک بچی کی کہانی بتائی۔ باوجود اس کے اگلے دن ایک جناب کا کال آیا اور انہوں نے کہا کہ آپ ہمیں ان تمام لڑکیوں کے نمبر دے دیں۔ میں نے دینے سے صاف انکار کردیا، کیونکہ مجھے اس بات کا علم تھا کہ یہ تمام لوگ ان لڑکیوں اور ان کے والدین کو پریشان کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکیں گے۔ ہاں! ان کے نام پر چندہ ضرور جمع ہوگا۔ یہاں یہ واضح رہے کہ چندہ کو لے کر میں کسی پر بھی کوئی الزام نہیں لگا رہا ہوں، کیونکہ مجھے نہیں معلوم اس معاملے میں کس نے کتنا چندہ جمع کیا تھا۔
میں نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ جب ان بچیوں نے نیٹ کوالیفائی کیا تھا تب وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے کہا تھا کہ ’ٹیلنٹ کا پیسوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کامیاب طلباء و طالبات کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں رقم کی کمی کوئی رکاوٹ نہیں بنے گی، کیوں کہ دہلی حکومت نے ان کے لیے اسکالرشپ اور قرض کی شکل میں دس لاکھ روپوں کی فراہمی کا انتظام کیا ہے۔‘ لیکن حقیقت اس کے خلاف تھی۔ ان کامیاب لڑکیوں کے والدین و سرپرستوں نے صاف طور پر بتایا تھا کہ یہ محض ایک اعلان تھا، کیوں کہ آج تک کسی بھی سرکاری اہلکار نے ان لڑکیوں کے اہل خانہ سے رابطہ نہیں کیا ہے نہ اسکول کے ذریعے ہی حکومت کی طرف سے کسی بھی مدد کی کوئی جانکاری دی گئی تھی۔ تب دہلی کے سماجی کارکنوں کو میں نے یہ بھی مشورہ دیا تھا کہ بہتر ہوگا اگر آپ سماجی کارکنوں کا ایک ڈیلیگیشن وزیر اعلیٰ صاحب کے پاس جاکر ان کو ان کی باتیں یاد دلائیں تاکہ دہلی کا ہر غریب بچہ چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو، سرکار کی مدد سے فائدہ حاصل کر سکے اور ڈاکٹر بن کر اس بیمار سماج کا علاج بہتر طریقے سے کر سکے۔ لیکن افسوس! اب تک کی میری جانکاری میں شاید ایسا کوئی ڈیلیگیشن نہیں جا سکا ہے۔
اب آئیے! ذرا یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ NEET کوالیفائی کرنے کا مطلب کیا ہے۔ دراصل NEET کوالیفائی کرنا اب بہت آسان ہے۔ محض 50 پرسینٹائل نمبر حاصل کرکے اسے کوالیفائی کیا جا سکتا ہے۔ اور کوالیفائی کرنے والوں کو پورے بھارت میں پانچ میڈیکل کورسوں یعنی ایم بی بی ایس، بی ڈی ایس، بی یو ایم ایس، بی اے ایم ایس اور بی ایچ ایم ایس میں داخلہ مل سکتا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر NEET کوالیفائی کرنے والے کو میڈیکل میں داخلہ مل ہی جائے۔
بتا دیں کہ NEET کا یہ امتحان کل 720 نمبروں کا ہوتا ہے، لیکن اس بار جنہوں نے بھی کم از کم 117 نمبر اسکور کیا ہے وہ بھی NEET کے لیے کوالیفائی مان لیا گیا ہے۔ لیکن اگر طلبہ سرکاری کالجوں میں داخلہ چاہتے ہیں تو انہیں 600 کے آس پاس نمبر حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ کو بتا دیں کہ اس بار 2022 NEET کے لیے 18 لاکھ سے زائد امیدواروں نے رجسٹریشن کروایا تھا، جن میں سے 17 لاکھ سے زائد امیدواروں نے امتحان دیا اور9 لاکھ 93 ہزار 69 امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ اب ملک کے پرائیویٹ کالجوں میں کوئی گورنمنٹ کوٹا باقی نہیں بچا ہے۔ NEET متعارف کرانے کے بعد اسے ختم کر دیا گیا، جس کے بعد اب اُن طلبہ کو بھی جن کا نام میرٹ لسٹ میں شامل ہے اگر وہ کسی نجی تعلیمی ادارے میں پڑھنے کے خواہش مند ہیں، تو پوری فیس ادا کرنا پڑے گی۔
ملک میں میڈیکل کالجوں کی تعداد
وزیر مملکت برائے صحت و خاندانی بہبود، اشونی کمار چوبے کے ذریعے 18 ستمبر 2020 کو لوک سبھا کو دیے گئے تحریری جواب کے مطابق، اس وقت ملک میں 541 میڈیکل کالجز ہیں، جن میں سے 280 سرکاری میڈیکل کالج اور 261 پرائیویٹ میڈیکل کالج ہیں۔ ان 541 میڈیکل کالجوں میں صرف 80,312 ایم بی بی ایس داخلہ نشستیں ہیں۔
فیس کم کرنے کا تھا وعدہ، لیکن ہو رہا ہے اضافہ
سال 2020 تک کی جانکاری کے مطابق، دلی اور مہاراشٹر جیسی متعدد ریاستوں میں طلبا کو میڈیکل تعلیم کے لیے سالانہ 25 تا 30 لاکھ روپے تک فیس ادا کرنا پڑتی ہے۔ موجودہ حکومت نے دسمبر 2019 میں وعدہ کیا تھا کہ ملک میں پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں فیس نصف تک کم کر دی جائے گی۔ لیکن اس کے برعکس بہت ساری ریاستیں، پرائیویٹ کالجوں کو چھوڑ دیجیے، سرکاری کالجوں کی فیس میں بھی اضافہ کر رہی ہیں۔
نومبر 2020 میں آنے والی خبروں کے مطابق، ہریانہ حکومت نے ریاست کے سرکاری میڈیکل کالجوں میں ایم بی بی ایس کی فیس میں اضافے کے لیے ایک مسودہ تیار کیا ہے۔ اس کے تحت میڈیکل کی فیس 53 ہزار روپے سے بڑھا کر 10 لاکھ روپے سالانہ کر دی گئی ہے۔ ایک دوسری خبر کے مطابق، اتر پردیش حکومت نے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی من مانی پر لگام کستے ہوئے موجودہ تعلیمی سیشن کے لیے ایم بی بی ایس کی سالانہ فیس کم سے کم 10.40 لاکھ روپے سے لے کر زیادہ سے زیادہ 12.72 لاکھ روپے تک مقرر کی ہے۔ اس کے علاوہ طلباء کو ہاسٹل اور دیگر فیس الگ سے ادا کرنی ہو گی۔ ظاہر ہے کہ اس مہنگی تعلیم کا خوف ذہین و باصلاحیت لیکن مالی لحاظ سے کمزور طلبا کو پیشہ ورانہ تعلیم میں اپنا کریئر بنانے میں مانع بن رہا ہے جو کہ ایک آئینی حق سے ایک طبقے کو محروم کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ واضح رہے کہ فیس سے متعلق یہ جانکاری 2020 کے آخر تک کی ہی ہے۔ اس کے بعد کئی ریاستوں میں فیس میں بھاری اضافہ کیا گیا ہے، اس پر الگ سے کبھی اپنی بات رکھنے کی کوشش کروں گا۔
تحریر: افروز عالم ساحل