مدارس اسلامیہ میں دینی تعلیم دلانے کے سلسلے میں مسلمانوں کا موجودہ مزاج اور اس کا حل!!

  خدائے واحد نے اس کائنات کو محض اس لیے وجود بخشا ہے کہ یہاں صرف اسی کی عبادت کی جائے ۔ اور یہ بھی ایک ہے  حقیقت ہے کہ خالق کی عبادت بغیر اس کی معرفت کے ممکن نہیں اور واضح رہے کہ خدا کی معرفت کا آسان طریقہ حصول علم دین ہے۔ اسی پس منظر میں اللہ کے نبی کا ارشاد گرامی ہے:” علم کا طلب کرنا ہر مسلمان مرد وعورت پر ضروری ہے” أخرجه الطبراني في ((المعجم الأوسط)) (8567)، وتمام في ((الفوائد)) (52)، والبيهقي في ((شعب الإيمان))(1667)۔   موجودہ دور میں دینی علوم کے حصول کے لیے جا بجا دینی ادارے قائم کیے گئے ہیں، جہاں تشنگان علوم نبویہ کو دینی علوم سے آراستہ و پیراستہ کیاجاتاہے۔

 اس مقدمے سے معلوم ہوا کہ خالق کی معرفت گاہ’ دینی مدارس اسلامیہ’ ہے اور جو خالق کی ‘معرفت گاہ’ ہو،اس کا مقام ومرتبہ خدا کے یہاں کس قدر ہوگا،اس کا آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

مگر افسوس کہ مدارس اسلامیہ کا وجود اس قدَر عظیم الشان ہونے کے باوجود فرزندان توحید نے شروع ہی سے اس جانب اپنے میلانات و رجحانات کا کماحقہ ثبوت پیش نہیں کیا اور لاک ڈاؤن نے تو کچھ عجیب ہی جلوہ آرائی کی ہے: بایں طور کہ اس نے مسلمانوں کے، جو قدرے میلانات تھے ،ان پر ایسی سخت ضرب کاری کی ہے کہ اب مسلمان اپنے بچوں کو  مدارس اسلامیہ کا رخ کرانے میں انقباض اور کوفت محسوس کررہے ہیں۔ یہ ہے مسلمانوں کا  موجودہ مزاج! اپنے بچوں کو مدارس اسلامیہ میں دینی تعلیم دلانے کے سلسلے میں۔

اب سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کا مدارس کے تئیں ایسا  مزاج کیوں بنا؟؟تو میرے قلب ودماغ میں اس کے دو  بڑے اسباب گردش کر رہے ہیں،جن پر اگر کنٹرول کی کوشش کی گئی،تو پھر مسلمانوں کے مزاج میں تبدیلی یقینی ہے۔

پہلا سبب یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ کے فضلاء کو مدارس میں تدریسی خدمات پر اتنی تنخواہ نہیں دی جاتی ہے ،کہ جن سے ان کی ضروریاتِ زندگی بآسانی پوری ہوسکے،جس کی بنا ان کی اور ان کی اولاد کی زندگیاں اوروں سے کافی الگ تھلگ گزرتی ہیں، اگر میں یہ کہہ دوں کہ : "سوائے چند کے اکثر علماء مدارس کی باطنی اور گھریلوں زندگیاں غریبوں سے بھی بدتر ہوتی ہیں ،تو اس میں ایک  حرف بھی غلط نہیں ہوگا”۔ یہ تو بس علماء کی باغیرت جماعت ہے جو اسلام کی بقا اور نشر واشاعت کی خاطر شاہانہ زیست پر گداگرانہ زیست کو  ترجیح اور فوقیت دیتے ہیں ؛ کیوں کہ انھیں کافی اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر ہم نے دین اسلام کی ترویج واشاعت سے معمولی بھی پہلو تہی اور غفلت اختیار کیا،تو پھر کوئی  ایسی جماعت ہے نہیں ،جو اس اہم ذمے داری کو اپنے سر اٹھاسکے اور نہ ہی ان میں اس کی کوئی لیاقت بھی ہے۔ 

   یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانی فطرت مادیت کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے ؛ چناں چہ مسلمان جب یہ دیکھتے ہیں کہ :” علماء کے گھروں میں کھانے کے لالے پڑے رہتے ہیں اور ان کے بچوں اور بچیوں کا پوشاک بھی غایت درجہ ارزاں اور انتہائی پلے درجے کا ہوتا ہے”تو پھر یہیں سے ان کا  مزاج بدل جاتا ہے کہ ہمارے بچے بھی اگر  عالم دین بنیں گے ،تو مستقبل میں ان کی بھی درگت یہی ہوگی ،جو موجودہ علماء کی ابھی ہے؛ اس لیے وہ اپنے بچوں کے لیے  دنیوی تعلیم کا انتخاب کرتے ہیں؛کیوں کہ دنیوی تعلیم میں پیسوں کی بہتات ہے اور مالداروں کو  پیسوں سے بڑی محبت بھی ہوتی ہے۔

  دوسرا سبب یہ ہے کہ اکثر مدارس اسلامیہ میں سبھوں کا کھانا ایک ہی  جگہ تیار ہوتاہے، جس کی بنا صاحب ثروت اور غنی حضرات کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اگر دینی مدارس بھیجتے ہیں ،تو پھر انھیں بھی  اور مستحقین طلبہ کی طرح زکوٰۃ کے مال کھانے پڑ جائیں گے اور بدرجہ مجبوری کھائیں گے بھی ،اس لیے وہ  مدارس نہیں بھیجتے ہیں۔

  ان دو اسباب میں سے پہلے سبب کا حل یہ ہے کہ علماء کرام کا مشاہرہ  غیر معمولی مقرر کیا جائے۔ غیر معمولی سے مراد یہ ہے کہ ہر عالم دین کا  یومیہ مشاہرہ کم ازکم کم ایک ہزار (1000)اور ماہوار تیس ہزار (30000)ہو۔ مساجد کے علماء کے لیے تو اس کا حل بالکل آسان ہے: بایں طور کہ عموماً ہر چھوٹی بستی میں بھی  مسلمانوں کے سو ( 💯 ) گھر ہوتے ہیں،جن میں سے اگر بیس  20/گھروں کا بھی  اعتبار نہ کرکے صرف 80/گھروں ہی کا  اعتبار کیا جائے اور پھر فی گھر یومیہ امام کے لیے (ایک چائے کی قیمت) صرف اور صرف 20/روپے نیپالی مقرر کردیا جائے اور پھر اس کے لیے ذمے داران مساجد کی طرف سے ہر گھر میں کسی ایک کونے میں صندوقچہ نصب کردیا جائے اور مہینے میں  ایک دفع تمام صندوقچوں کو جمع کرکے،ان میں جمع شدہ تمام پیسوں کو اکھٹا کرکے حضرت امام صاحب کو دےدیا جائے۔ اس طرح  اگر ہم کرتے ہیں تو پھر ہر امام  کو صرف اسی(80) گھروں کے اعتبار سے  ہی اڑتالیس ہزار (48000) مشاہرہ ملے گا اور اگر پچاس گھروں کا ہی  اعتبار کریں،پھر بھی ہر امام کو یومیہ ایک ہزار (1000) اور ماہانہ تیس ہزار (30000) ضرور مشاہرہ ملے گا۔ اور مدارس کے علماء کے لیے حل کی ایک شکل یہ ہے کہ جن طلبہ کے والدین اور سرپرست صاحبِ حیثیت ہیں،ان سے مناسب تعلیمی فیس  کا مطالبہ کیا جائے اور اس کے لیے انھیں ابتدا سمجھا یا جائے اور جب عادت سی بن جائے گی ،تو پھر تعلیمی فیس کا دینا  سبھوں کے لیے آسان تر ہو جائےگا،اس طرح علماء کرام کی تنخواہوں میں اضافے بھی ہو جائیں گےاور طلبہ کو پڑھنے میں مزہ بھی خوب آئے گا۔

   اور دوسرے سبب کا حل یہ ہے کہ جن بچوں کے والدین اپنے بچوں کو زکاة کا مال کھلانے  سے گریزاں ہیں،ان کے لیے باضاطہ الگ کھانے کاانتظام کروایا جائے یا پھر کوئی اور دوسری شکل ہو ،تو اسے بروئے کار لایا جائے اور واضح رہے کہ اس بات کا عوام میں گاہے بگاہے اعلان اور چرچا بھی ہوتا رہے کہ فلاں مدرسے میں مالداروں کے کھانے کا ایک الگ انتظام ہے،اس طرح کرنے سے مالداروں کو شکایت کا موقع بھی نہیں ملےگا اور ان کے بچے مدارس اسلامیہ کا رخ کرنے میں کوئی تردد  بھی نہیں کریں گے۔

اگر ان دو بڑے اسباب کے حل پر  علماءِ امت کی توجہ اور پیش رفت ہوئی ،تو پھر ان شاءاللہ ہر بچہ مدرسہ ہی کا رخ کرے گا اور دینی تعلیم سے آراستہ ہوکر دین اسلام ہی کی خدمت کرے گا۔

تحریر: انوار الحق قاسمی (ترجمان جمعیت علماء روتہٹ نیپال)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے