قربانی کے ایام میں قربانی کرنا ہی بندوں کا سب سے پسندیدہ عمل: مولانا محمد عزرائیل مظاہری

نیپال:
عید قرباں کے موقع سے مولانا محمد عزرائیل مظاہری (مرکزی رکن جمعیت علماء نیپال ،بانی و ناظم معہد ام حبیبہ للبنات جینگڑیا ،صدر اعلی مدرسہ اسلامیہ گئور،نگراں کلیة النصير النظاميه چمن پور روتہٹ نیپال) نے مسلمانوں کو یہ پیغام دیا:کہ قربانی کا یہ سلسلہ کوئی آج سے نہیں ،بل کہ زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے اور تاقیامت چلتا رہے گا۔ارشاد باری ہے:وَلِکِلِّ اُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسِکًا لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَی مَا رَزَقَھُمْ مِنْ بَھِیْمَةِ الْاَنْعَامِ (سورة الحج 34) ہم نے ہر امت کے لیے قربانی مقرر کی؛ تاکہ وہ چوپایوں کے مخصوص جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے؛البتہ جو مقام و مرتبہ حضرت ابرہیم و اسماعیل علیہما السلام کی قربانی کو حاصل ہوئی ،وہ کسی اور کو نہیں ہوئی؛اسی لیے خدائے وحدہ لاشریک نے باپ اور بیٹے کی اس عظیم قربانی کو تا قیامت بطور یادگار جاری رکھنے اور رہنے کے لیے اپنے محبوب نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو قربانی کا حکم دیا۔
باری تعالیٰ کا(سورة الکوثر) میں ارشاد ہے: فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔
باوجود تنگ دستی اور فقر و فاقہ کے محبوب رب العالمین آقائے مدنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں اپنے دس سالہ قیام کے دوران بلا ناغہ ہر سال قربانی کیا ہے۔حجة الوداع کے موقع پر تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو(100)اونٹ کی قربانی پیش کی،جن میں سے (63) اونٹوں کی قربانی کا عمل (ذبح)اپنے ہاتھوں سے انجام دیا اور باقی (37)کی قربانی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھوں سے کیا۔
ایک دفع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قربانی کی حقیقت معلوم کرتے ہوئے فرمایا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کیاہے؟تو آپ نے فرمایا:کہ یہ تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے،پھر صحابہ کرام نے سوال کیا کہ ہمیں قربانی کے بدلے کیا ملے گا؟تو آپ نے فرمایا:کہ قربانی کرنے والے کو قربان شدہ جانور پر موجود ہر بال کے عوض ایک نیکی ملےگی(قرآن مجید میں ہے:من جاء بالحسنة فله عشر امثالها.جو ایک نیک عمل کرے گا،اسے اس جیسی دس نیکیاں ملیں گی۔اب آپ اندازہ لگائیں کہ ایک قربانی کرنے والا شخص کتنی نیکی حاصل کرسکتاہے؟یقینا آپ جانور پر موجود بالوں کی تعداد شمار کرنے سے قاصر ہوجائیں گے،جب معاملہ یہ ہے کہ آپ بالوں کی تعداد شمار نہیں کرسکتے ،تو بھلا نیکیوں کی تعداد آپ کیسے شمار کرسکتے ہیں ؟) صحابہ کرام نے کہا:کہ جس جانورکے جسم پر بال نہیں ،بل کہ اون ہے،تو پھر ہمیں اون کے بدلے کچھ ملے گا یا نہیں ؟تو آپ نے کہا:کہ ہر اون کے بدلے بھی ایک نیکی ملے گی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا:من وجد سعة فلم يضحي فلا يقربن مصلانا.جسے بھی قربانی کی وسعت ہو،وہ قربانی نہ کرے ،تو وہ عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔سرور کائنات کے اس انداز کلام سے قربانی کی اہمیت کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔
ایام قربانی میں عند اللہ قربانی سے زیادہ مقبول و محبوب کوئی عمل نہیں ہے۔اللہ کے نبی نے فرمایا:کہ قربانی کے دن اللہ کے نام پر قربان ہونےوالے جانور کا خون زمین پر ٹپک نہیں پاتاہے کہ باری تعالیٰ قربانی کرنے والے کی مغفرت فرمادیتاہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کے دلوں میں قربانی کی عظمت و اہمیت جاگزیں فرمائے اور ایام قربانی میں ہمیں قربانی کرکے سنت ابراہمی کو ژندہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔