عید الاضحی ہم سے ہم کلام ہے

ازقلم: مجیب الرحمٰن، جھارکھنڈ

عید الاضحی عید الفطر کے بعد مسلمانوں کا سب سے بڑا تہوار ہے،جسے پوری امت مسلمہ دس ذی الحجہ کو انتہائی عقیدت، شان و شوکت، ایثار و قربانی اور تسلیم ؤ رضا کے ساتھ مناتی ہے،عید الاضحی کے پس منظر میں تاریخ انسانی کا سب سے حیرت انگیز اور ایمان افروز واقعہ وہ ہے جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر اپنے نور نظر، تمناؤں کے مرکز اور گھر کے چشم و چراغ اسماعیل کو ذبح کرنے کیلئے آمادگی ظاہر کی اور اپنے نور نظر کو پیشانی کے بل لٹایا اور چھری ہاتھ میں لیکر ذبح کرنے والے تھے کہ وحی الہی نے قبولیت کے ساتھ ہاتھ روک لیا۔۔سورہ الصافات میں ارشاد ہوا۔۔۔‌ جب باپ بیٹے نے رضا و تسلیم کو اختیار کیا اور ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹایا تو ہم نے آواز دی اے ابراہیم تو نے خواب کو سچا کر دکھایا ہم نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں یقینا یہ کھلی آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دیکر اس بچے کو چھڑا لیا اور ہم نے آنی والی نسلوں میں اس طرز عمل کو اسوۂ اور سنت کے طور پر چھوڑ دیا، ،
قربانی کی یہ ابراہیمی سنت آنے والی نسلوں پر لازم ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنایا اور اپنی امت کیلئے لازمی سنت قرار دیا،۔ ایک حدیث میں ہے کہ صحابہ نے سوال کیا۔۔۔
اے اللہ کے رسول ان قربانیوں کی کیا حقیقت ہے؟
تو آپ نے جواباً فرمایا۔ یہ تمہارے والد محترم ابراہیم کی سںت ہے، تو صحابہ نے سوال کیا کہ اس سے کیا حاصل ہوگا۔ آپ نے فرمایا ہر ایک بال کے عوض نیکی ملے گی،
اس سنت ابراہیمی کو ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی پابندی کے ساتھ ادا کیا آپ نے ہر سال قربانی کی اور امت کو قربانی کرنے کی بڑی تاکید کی ہے،
اس تاکید کا اندازہ ان فرامین سے لگایا جاسکتا ہے۔۔
آپ نے فرمایا۔۔ جو شخص طاقت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئیے،
اسی طرح حضرت عائشہ سے ترمذی شریف اور ابن ماجہ میں روایت آئی ہے۔۔ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ قربانی کے دنوں میں قربانی کرنے سے زیادہ اور کوئی عمل اللہ تعالیٰ کو محبوب نہیں ہے،
انہی تاکیدی روایات کی بنا پر اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دس سال قربانی کے عمل کو کرنے کی بنا پر علماء کے ایک طبقہ نے قربانی کو سنت مؤکدہ کے بجائے واجب قرار دیا ہے، چنانچہ۔ ابراہیم نخعی، امام ابو حنیفہ، امام مالک، قاضی ابو یوسف، اور امام محمد نے اصحاب نصاب پر لازم قرار دیا ہے،
اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ امت مسلمہ دیگر اسلامی احکام کی طرح اس حکم کو بھی بڑے اہتمام اور جذبہ و شوق سے کرتی ہے ، مگر مجھے یہ کہنے دیجئے کہ دیگر اسلامی امور کی طرح اس میں بھی ظاہر داری برتی جاتی ہے اور قربانی کی جو اصل حقیقت ہے اس سے خالی نظر آتے ہیں، بعض افراد کے اندر نمود و نمائش بھی گھر کر گئی ہے،بعض کو دیکھا گیا ہے کہ وہ اپنے سماج اور احباب کی نظر میں معیوب نہ ہوں اس لئے قربانی کرتے ہیں کہ اگر قربانی نہ کی تو سماج اور اعز و احباب کی نظر میں گر جانیں گے، وہ ہر سال پابندی سے قربانی کرتے ہیں لیکن ان کے پڑوس میں رہنے والے افراد غربت و افلاس کی زندگی بسر کررہے ہیں اور یہ حضرات ان کی مدد قطعی نہیں کرتے پتہ یہ چلا کہ ان قربانی کرنے والے افراد میں قربانی کی اصل روح یعنی تقوی اور اللہ کی راہ میں ہر ضرورت کے موقع جان و مال قربان کرنے کا جذبہ پیدا نہیں ہوا ہے، بلکہ وہ صرف قربانی کرکے سمجھتے ہیں کہ ہم نے فرض ادا کردیا قربانی کا اصل مقصد تو انسان کے اندر دین کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہے اور تقویٰ اس کی اصل روح ہے، قرآن میں ہے۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہاری قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ اس کے یہاں تو تمہارا دلی جذبہ اور تقویٰ پہنچتا ہے،، ( الحج)
لہذا آج کے اس مادی اور مطلبی دور میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم قوم میں تقوی کی روح پیدا ہو جو دین کی بنیاد ہے اور یہی روح قربانی ہے، تقوی کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر کام میں اپنے پروردگار کی نافرمانی اور ناراضگی سے بچتا رہے اور اس کام کو صرف اللہ کی رضا کیلئے انجام دے جس میں ذرا بھی نام و نمود یا سماج کے سامنے سرخروئی کا شائبہ نہ ہو،
حضرت عمر فاروق رض نے ابی بن کعب سے پوچھا۔ تقوی کا مفہوم کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا آپ کا گذر کسی ایسی پگڈنڈی سے ہو جس کے دونوں طرف خار دار جھاڑیاں ہوں حضرت عمر نے کہا۔ جی ہاں۔۔ حضرت ابی بن کعب نے معلوم کیا کہ وہاں سے کیسے گزرتے ہیں؟ حضرت عمر فاروق رض نے فرمایا کہ سنبھل سنبھل کر پاؤں رکھتا ہوں اور دامن کو سمیٹ کر رکھتا ہوں کہ کہیں دائیں بائیں الجھ کر نہ رہ جائے، فرمایا۔ بس اسی بچاؤ کا نام تقوی ہے، چو شخص اس دنیا کی آلودگیوں اور طاغوتی طاقتوں سے بچ کر اسلام پر چلتا ہے وہ متقی ہے اور اسی جذبہ کا نام تقوی ہے،

ایک تقوی یہ بھی ہے کہ انسان اپنے دل سے ہر عداوت کینہ پروری، عیب جوی آپسی دشمنی کو مٹاکر باہم شیر و شکر ہو جائیں قربانی اور تقوی کی حقیقت اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوسکتا،
عید الاضحی سے ایک سبق ہمارے لئے یہ بھی ہے کہ ہمارے اندر اسلام کی بقا و تحفظ نیز تقویت کی خاطر اپنے مفادات کی قربانی بھی اگر دینی پڑے تو ذرا بھی بچکچاہٹ نہ ہو۔ کاش ! امت مسلمہ قربانی کے اس عظیم نکتہ اور پیغام کو سمجھ لیتی اور بین الاقوامی اسلام کے خلاف بڑھتی جارحانہ پالیسی کو سمجھ کر ایک صف ہو جاتی تو آج عالم اسلام پر اسلام دشمنوں کا ناجائز تسلط نہ ہوتا، وسائل حکمران اور زمین ان کے تصرف میں نہ ہوتیں، دینی و روحانی قدریں پامال نہ ہوتیں، لیکن حیرت اور افسوس کہ مسلم حکمراں اپنے اپنے مفادات کو دیکھ رہے ہیں وہ اپنے مفادات کی قربانی دینے کیلئے ہر گز تیار نہیں ہیں، جبکہ مسلم حکمراں بھی اپنے اپنے ملک میں شوق سے قربانی کریں گے اور پھر گوشت سے تیار شدہ لذیذ کھانے بھی کھاییں گے اور انہیں یہ بھی احساس رہے گا کہ ہم نے قربانی کردی دا، اور اللہ کو راضی کرلیا،
جبکہ قربانی محض جانور کو ذبح کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اصل مقصد تو یہ ہے کہ جس وقت بھی اور جہاں بھی ضرورت ہو ایک مسلم بھائی دوسرے مسلم بھائی کیلئے اپنے جان و مال کی قربانی دینے کیلئے تیار رہے اور اللہ کی رضا کو تلاش کرے،

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اخلاص کے ساتھ قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے،