ازقلم: محمد ریحان ورنگلی
مسلمانانِ عالم میں یہ عبادت صدیوں سے چلی آرہی ہے کہ دسویں ذی الحجہ کو بارگاہ خداوندی میں خدا کے نام پر قربانی کا جانور ذبح کیاجاۓ، اس عبادت کو نبیوں نے اپنایا، اور ہمارے آقا محمد رسول اللہﷺ نے بھی اپناکر امتِ محمدیہ کے لے بہترین نمونہ چھوڑا، صحابہ کرامؓ ، تابعین، تبعِ تابعین، اولیاۓ کرام، بلکہ تمام ہی امت مسلمہ اس کو اپناتی ہوئی آرہی ہے اس کو سنت ابراہیمی کہتے ہیں ۔
اصل میں واقعہ یہ ہوا کہ حضرت ابراھیمؑ کو ایک عرصہ دراز سے اولاد ہی نہیں ہوئی تھی پہر انہوں نے اللہ سے دعا مانگی رب ھب لی من الصالحین تو اللہ نے ان کو فبشرناہ بغلٰم حلیم کے ذریعہ اسماعیل جیسا سعادت مند بیٹا عطاء فرمایا ،حضرت اسماعیلؑ کے بڑے ہونے کے بعد حضرت ابراھیمؑ نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کررہے ہیں، تو انہوں نے یہ بات اپنے بیٹے کو سنائی، بیٹے نے کہا کہ اے ابو جان! آپ کو جس بات کا حکم دیا گیا ہے آپ اس کو کرگزریۓ، ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے، پھر حضرت ابراھیمؑ اپنے بیٹے اسماعیل کو لے کر قربانی کے ارادہ سے گھر سے نکلے، راستے میں شیطان ان کے پاس آیا اور بہکانے لگا تو حضرت ابراھیمؑ نے اس کو ایک کنکر اٹھا کر مارا، پھر تھوڑی دور چلنے کے بعد پھر سے بہکانے لگا تو حضرت ابراھیمؑ ایک اور کنکر اس کو مارا، چند قدم کے بعد پھر بہکایا تو حضرت ابراھیمؑ نے پھر کنکر مارا، اسی کو رمی جمار کہتے ہیں جو حج کا ایک رکن ہے ، اس کے بعد حضرت ابراھیمؑ نے اپنے بیٹے کو لٹایا تو بیٹے نے کیا کہ اے ابا جان! آپ اپنے آنکھوں پر کپڑا باندھ لیجے تاکہ آپ کو مجھ پر رحم نہ آۓ، لٹانے کے بعد جب چھری چلانے لگے تو ذبح ہونے کا نام ہی نہیں، چھری چلاتے گئے لیکن چل ہی نہیں رہی تھی کیوں کہ اس کے مالک اللہ رب العزت کا حکم ہی نہیں ہوا تھا، پھر اللہ نے جبرئیلؑ کو حکم دیا جاؤ اور حضرت اسماعیلؑ کی جگہ پر دنبہ رکھ دو، جب حضرت جبرئیل نے اکر اسماعیلؑ کی جگہ پر دنبہ رکھا تو اس وقت چھری چلی اور اسماعیلؑ کی جگہ دنبہ ذبح ہوا، یہ تھی آزمائش، یہ تھی قربانی، اللہ تعالی ایسے ہی آزمائشوں سے نبیوں کو گزارتا ہے، حضرت ابراھیمؑ کی آزمائش بہت ہی خطرناک تھی، کون اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کیلے لےجاتا؟اور کون سا بیٹا کہتا کہ اے ابا جان! آپ کو جس بات کا حکم دیا گیا ہے بس آپ وہی کیجے، اللہ اکبر یہ کیسی قربانی تھی، جس میں باپ اور بیٹے دونوں میں انتہائی اخلاص تھا۔
حفیظ جالندھری نے اس واقعہ کی خوب منظر کشی کی ہے:
زمین سہمی پڑی تھی آسمان ساکن تھا بےچارہ
نہ اس سے پیشتر دیکھا تھا یہ حیرتناک نظارہ
پدرتھا مطمئن بیٹےکے چہرے پر بحالی تھی
چھری حلقومِ اسماعیل پر چلنے ہی والی تھی
مشیت کا مگر دریاۓ رحمت جوش میں آیا
کہ اسماعیل کا ایک رونگٹا کٹنے نہیں پایا
اس کے برخلاف آج ہماری صورتِ حال یہ ہے کہ ہم انبیاء کی سنتوں سے دوری اختیار کررہے ہیں، ان ہی سنتوں میں ایک سنت قربانی ہے، جو کہ ہماری امت میں واجب ہے ،جس کو ہم نے بھلادیا، حالاں کہ قربانی کے اجرو ثواب کے سلسلے میں مختلف احادیث موجود ہیں، چنانچہ لسان نبویﷺ یوں گویا ہے: قربانی کرنے والے کو قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملتی ہے۔ (ترمذی حدیث نمبر ١٤٩٨)
جس طرح قربانی کرنے پر ثواب دینے کا وعدہ فرمایا، اسی طرح عدمِ قربانی پر وعیدیں بھی بیان فرمائی، چنانچہ اللہ کے نبیﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آے۔ (ابن ماجہ حدیث نمبر ٣١٢٣) ہم لوگ قربانی کرتے ہیں لیکن ہمارے اندر اخلاص کا اثاثہ ختم ہوتا جارہا ہے صرف دکھاوے کیلے قربانی کررہے ہیں،
آج کا ہمارا معاشرہ اسی کا عادی ہوگیا ہے۔ حالاں کہ قربانی میں اخلاص و تقوی ہی ضروری ہے، جیسا کہ باری تعالی کا ارشاد ہے :
لن ینال اللہ لحومھا ولا دمائھا ولکن ینالہ التقوی منکم،
اس آیت میں یہ بات ضیاۓ آفتاب اور شعاعِ ماہتاب کی طرح واضح اور عیاں نظر آرہی ہے کہ قربانی میں اللہ کے پاس صرف تمہارا اخلاص ہی پہنچے گا ۔
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اندر تقوی و اخلاص پیدا کریں، اور قربانی دکھاوے کیلے نہ کریں بلکہ اخلاص و للہیت کے جذبے سے کریں۔۔۔تاکہ ہماری یہ عبادت اللہ کے ہاں شرف قبولیت حاصل کرے ۔