نفرت کے بیوپاری۔۔۔۔

تحریر: زین العابدین ندوی
مقیم حال لکھنو

ہندوستان کسی زمانہ میں رواداری کا تاجدار اور امن و آشتی کا علمبردار تصور کیا جاتا تھا جہاں بیگانگی کا وجود دور دور تک نہ تھا آپسی میل محبت کا ایک ایسا حسین ماحول تھا کہ ہر طرف اپنائیت کی چادر تنی ہی رہتی تھی غریب پروری اور غمگساری جس کا خاص عنصر تھا اس موقع پر یہ بتانا بھی ضروری کہ ملک عزیز بھارت کا یہ ماحول مسلمانوں کی آمد اور ان کی سکونت اختیار کرنے کے بعد بنا، یہ بتانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کے ہندوستان آنے سے پہلے یہاں چھوت چھات اور ذات پات کی بنیاد پر جو تفریق کی جا رہی تھی اس کی نظیر ملنا مشکل ہے، جن دلتوں اور شودروں کو وہ آج ہندو بتا کر سیاسی روٹی سینکی جا رہی ہے ، جن کے لئے آج مندروں کے وعدہ کئے جا رہے ہیں ان کو مندروں میں جانے کی اجازت نہ تھی یہاں تک مندروں کے سامنے سے گزرنا بھی ان کے لئے ممنوع تھا، اس وقت ملک سونے کی چڑیا نہیں تھا یہ تمغہ تو اسے اس دور میں ملا جسے بر سر اقتدار نفرت کے پجاری اور ہنسا کے بیوپاری دور غلامی بتاتے نہیں تھکتے حال کہ کہ ان کے احسانات کے تلے ایسے دبے ہوئے ہیں کہ قد پست سے پست ہوتا جا رہا ہے۔

اچھا جی بات کہیں سے کہیں نہ جانے پائے اور موضوع کے دائرہ میں رہے اس خیال سے پھر پلٹتا ہوں، تو جو ملک الفت ومحبت کا ایسا گلشن ہوا کرتا تھا جہاں ہر کوئی اپنے آپ کو نہ صرف محفوظ ومامون سمجھتا تھا بلکہ دلی طور پر خوش وخرم آپس میں خوشیاں بانٹتا تھا آج چونکہ یہ ملک پھر انہیں انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں جا چکا ہے جن کے ظلم سے اہالیان وطن کو مسلمانوں نے نکالا تھا اور عافیت کہ سانس لینے کا موقع فراہم کیا تھا، یہ جو نفرت کی منہ بولتی تصویریں نظر آ رہی ہیں یہ انہیں صہیونی ذہنیت کے حکمرانوں کی گندی سیاست کا نتیجہ ہے جس کے ذریعہ وہ ایک بار پھر سے وہی دور لانا چاہتے ہیں جہاں دلتوں کو ان کے سامنے کھڑے ہونے کہ اجازت نہیں تھی، مندروں کے سامنے سے گزرنے اور کنوئیں سے پانی نکالنے تک کی اجازت نہیں تھی، ان کے سابقہ ظلم کی کہانی ختم کر بوریا بستر گول کرنے والے چونکہ مسلمان ہی تھے اس لئے آج تک یہ خوف دل میں جگہ کئے ہوئے ہے جو کہیں نہ کہیں ابھر کر سامنے آہی جاتا ہے، اس کی تازہ ترین مثال لکھنو میں واقع لولو مال میں نماز کا مسئلہ ہے، جہاں رپورٹ کے مطابق خود نماز پڑھنے والے بھی وہی اور پھر نماز پر ہنگامہ برپا کرنے والے بھی وہی، اپنے ہی عمل پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ہنومان چالیسہ کا پاٹھ پڑھنے والے بھی وہی اور یہ سب نفرت کے بیوپاریوں کے اشارہ پر ہوتا رہا۔

اب آپ تصور کیجئے یہ ہے ہمارے ملک کے حکمرانوں کا حال جنہوں نے نفرت کا جال بچھانے کے لئے ایک ہی آدمی کو مسلمان بنا کر نماز پڑھا دیا اور فورا بعد ہندو بنا کر ہنومان چالیسہ تھما دیا، یہ ہے ہمارے ملک کا حال۔۔۔ جبکہ ہر پڑھا لکھا انسان جانتا ہے کہ آج جس دھرم کی بنیاد یہ ہم وطنوں کے درمیان تفریق پیدا کرتے ہوئے آپس میں ایک دوسرے کا دشمن بنانے پر تلے ہوئے ہیں اس مذہب کی صحیح تلاش کرنے والے بھی وہی ہیں جن کو مسلمان کہا جاتا ہے۔۔۔۔ جو کل بھی عوام کے لئے رودار اور ملک کے وفادار تھے اور آج بھی ہیں لیکن۔۔۔۔۔۔