جھارکھنڈ میں اردو کا دم واپسی؛ ذمہ دار کون ؟؟؟؟

ازقلم: مجیب الرحمٰن، جھارکھنڈ

اس وقت صوبہ جھارکھنڈ میں اردو کی مہاماری چل رہی ہے سیاسی پارٹیاں پورے شد و مد کے ساتھ سیاسی کھیل کھیل رہی ہیں ، اردو کے تئیں ہر طرف ایک شور بپا ہے ، اردو کے محافظین جگہ جگہ اردو کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور مخالف سرگرم پارٹیوں کی بیخ کنی کرنے کا بیڑا اٹھا رہے ہیں ، عوام کو اردو کے تئیں بیدار کرنے کی کوشش جاری ہے ، کچھ مخالف سیاسی پارٹیاں برسوں سے چل رہے اردو نہج پر اسکولوں کو اپنا ہتھکنڈا بناکر اردو کے پرخچے اڑا رہے ہیں ، شاید یہ پہلا موقع ہے کہ جب ناپاک سیاست کسی زبان پر حملہ آور ہو رہی ہے ورنہ اس سے پہلے تو انسانی تشخصات اس کے مذہب و مشرب پر اپنی غلاظت صاف کرتی تھی لیکن اب زبان پر علیحدہ سیاست چل رہی ہے ، سیاسی پارٹیاں اس قدر ذلیل ہوکر رہ گئی ہیں کہ وہ کسی زبان پر نیزہ زنی کرے؟

زبان ہر ایک قوم کا شعار ہوتی ہے ، اور ہر قوم کو اپنی اپنی زبان مرغوب و پسندیدہ ہوتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے جتنی بھی قومیں دنیا میں آباد کی سب کی اپنی اپنی زبان تھی اور اسی کے ذریعہ وہ ایک دوسرے سے ہم کلام ہوتے تھے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے جب بھی کسی قوم میں کسی نبی کو بھیجا تو ان کو اسی قوم کی زبان سکھا کر بھیجا تاکہ ان کی باتوں کو لوگ سہل کے ساتھ سمجھ سکیں ، جیسا کہ قرآن مجید میں بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے/، ملاحظہ ہو/ سورہ ابراھیم پارہ نمبر تیرہ

اردو زبان ہم مسلمانوں کا شعار ہے، عربی زبان کے بعد اردو ہی ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے، ہماری شناخت اور پہچان اردو سے ہے، اور ملک کا آئین ہر قوم کو اس کی زبان کے ساتھ زندہ رہنے کا حق دیتا ہے، اردو سے ہی ہم اپنا طور طریقہ سیکھتے ہیں بقول شاعر۔۔

جینے کا حسین طور طریقہ سیکھا
ہم نے اردو کے بہانے سلیقہ سیکھا

اس لئے اردو کے خلاف چل رہے کسی بھی سیاست کی ہم مذمت کرتے ہیں اور اسے ناقابل برداشت گردانتے ہیں اردو کے تحفظ کیلیے ہم ہمیشہ سینہ سپر رہیں گے تاآنکہ اردو کا تحفظ بحال ہو جائے،

اصل ذمہ دار کون؟؟
کسی بھی قوم کے تشخص پر جب زوال آتا ہے تو اس کا ذریعہ خود اس قوم کے افراد ہوتے ہیں، تاریخ اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہیں،
ہماری عادت یہ ہو گئی ہے کہ جب ہمارا گھر ڈوبنے لگتا ہے تب جاکر ہم ندی کے وسط میں دیوار کھڑی کرتے ہیں جو کہ ایک نا ممکن کام ہے، حالانکہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ندی کے پانی سے ہمارا گھر ڈوب جائے گا ، جب ہمارا یہ حال ہے تو پھر اب شور مچانے سے کیا ہوگا، جب اپنی چیزوں کی ہم قدر کھو بیٹھتے ہیں تو پھر غیروں کی نظر لگ جاتی ہے اور وہ چیز ہمارے ہاتھ سے چلی جاتی ہے، آج ہمارے مسلم گھرانے کو تو اردہ سے خدا واسطے کا بیر ہے اور دشمنی یہاں تک ہے کہ اردو کے طالب علموں کو وہ حقیر سمجھتے ہیں، اپنے گھر میں اردو کی کتابوں کا رکھنا گویا کہ عزرائیل کو گھر میں رکھنا ہے، وہیں دوسری طرف انگریزی و ہندی سے لیلی مجنوں کی سی محبت ہوتی ہے ہم منع نہیں کرتے کہ انگریزی و ہندی نہ پڑھائی جائے یقیناً پڑھائے وہ عصر حاضر کا تو لابدی جز ہے، لیکن اردو سے بھی نابلد نہیں ہونا ہے کیونکہ اردو ہماری پہچان ہے جیسا کہ بیان ہوا،
بھلا کس قوم کو اس کے شعار سے دشمنی ہوتی ہے اگر اس کی مثال لائ جائے تو مسلم قوم اول نمبر پر پیش کی جا سکتی ہے،۔ یہ قوم پورپین کلچر سے اس قدر متاثر ہوئی ہے کہ اسی کا ہوکر رہ گئی ہے پھر جب حالات مخالف کروٹ لیتی ہے تو شور مچانے اور احتجاج کرنے حکومت سے بھیک مانگنے پر بھی پیش پیش ہوں گے اے کاش قدر پہلے ہی آگئ ہوتی،
دوسرا گروہ جو اردو کا قاتل ہے وہ ہمارے تعلیمی ادارے ہیں خصوصاً وہ مدارس جہاں حفظ و ناظرہ کی تعلیم ہوتی ہے وہاں کے طالب علموں کو اردو میں نام تک لکھنا نہیں آتا چہ جائیکہ وہ اردو کتابیں پڑھ سکیں یہ میرا تجربہ ہے کوی ہوائی بات نہیں ہے، بھلے ہمارے مدارس والوں کو برا لگے لیکن حقیقت سے انحراف نہیں کیا جا سکتا ،

اگر چپ رہوں تو بیمار کہا جاتا ہے
بول پڑتا ہوں تو غدار کہا جاتا ہے

کیا وہ مدارس اس قدر ہائجیک ہو چکے ہیں کہ اردو سے انہیں بیر ہے ؟؟ میں نے بہت سوں کو پایا کہ عالم کا سرٹیفکیٹ لیکر شان و شوکت سے گھومتے پھرتے ہیں لیکن اردو زبان سے کورے ہوتے ہیں پھر ہمارا یہ دعویٰ کہ اردو کا دم واپسیں ہے اردو کو مٹایا جارہا ہے جب غلطی کریں گے تو سزا مل کر ہی رہے گی،
اس لئے میرا ماننا یہ ہے کہ حکومت یا سیاسی پارٹیوں کو کوسنے سے پہلے ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ اردو کے تئیں ہماری کس قدر محبت ہے؟ اگر صحیح معنوں میں ہمیں اردو زبان کی قدر ہوتی اردو زبان کے فروغ میں ہم حصہ لیتے اردو کو اپنا شعار بنائے ہوتے تو پھر کس کی مجال کہ اردو کی طرف ہاتھ اٹھا کر دیکھے ؟ اب فقط شور مچانے سے کچھ نہیں ہوگا،
اخیر میں مبارکباد پیش کرتا ہوں جھارکھنڈ کے تمام اردو صحافیوں اردو اخبارات کے ذمہ داروں کو جو اندھیرے میں روشنی کا کام کررہے ہیں اور اردو کے چراغ کو جلا رہے ہیں ادبا ان سے بھی گزارش ہے کہ حکومت کا سہارا لئے بغیر گھر گھر اردو کے تئیں بیداری لانے کی کوشش کی جائے کیونکہ آپ کا دورہ گاؤں گاؤں شہر شہر ہوتا ہے اردو کو فروغ دینے میں ان سے مدد لی جائے تاکہ اردو کا مستقبل مزید تاریک نہ ہو،
ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ یہاں ہر کام ہوتا ہے ہر ادارے کی سرکاری تعاون کی جاتی ہے ہم خادمان اردو یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ جس طرح اترپردیش دہلی مہاراشٹر اور ملک کے دیگر صوبوں میں اردو انجمنیں بذریعہ تعاون چل رہی ہیں اردو اکیڈمیاں قائم ہیں جھارکھنڈ میں بھی اس کو بحال کیا جائے یہ ہم اقلیتوں کے حق میں ایک مستحسن قدم ہوگا،

اردو کا خادم ہوں یہی پہچان ہے میری
جدھر سے بھی گزرتا ہوں سلیقہ چھوڑ جاتا ہوں،