ازقلم: عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری
ہزاروں ظلم ہوں مظلوم پر تو چُپ رہتی ہے دنیا
اگر مظلوم کچھ بولے تو دہشت گرد کہتی ہے
اسلام سب سے زیادہ غلط فہمیوں کا شکار دین ہے اور مسلمان دنیا کی سب سے زیادہ غلط فہمیوں کی شکار قوم۔مسلمان اپنے دین، اپنے محسنین اور اپنی ملّی ضرورت اور اپنے مقام کو سمجھیں۔باطل طاقتیں مسلمانوں کو منظم اور اجتماعت کی برکت سے دور رکھنے کے لیے الگ الگ حربے استعمال کرتی ہے۔اقتدار چاہتا ہے کہ ان کے مد مقابل آواز اٹھانے والا کوئی گروہ باقی نہ رہے۔ سماج میں مجتمع ہونے اور اجتماعی کاموں کے لیے منظم ہونے والا گروہ، جماعت اس لیے بھی آنکھ میں کھٹکتی ہے کہ وہ باطل کے سامنے مزاحمت بن کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ اس کا وجود بھلائی اور خیر پھیلانا والا ہوتا ہے۔باطل آپ کے انتشار، اختلاف، افتراق، پھوٹ، منافقت ،کالی بھیڑوں کو پسند کرتا ہے۔
کوئی اور تو نہیں ہے پسِ خنجر آزمائی
ہمیں قتل ہو رہے ہیں ہمیں قتل کر رہے ہیں
کچھ مزاحمت ہے کہ وقت مسلمانوں کو منظم اجتماعیت ،اثر انداز ہونے والی طاقت وقوت ، متحدہ سیسہ پلائی دیوار بنے نہیں دیتا۔ کچھ مسلکی، کچھ فرقہ واری، کچھ تعصب، کچھ دکانداری ۔خوف، پس زنداں ڈھکیلا جانا (جیل)، الزامات ،بہتان، ڈراوے، مخالفت، پروپگنڈے اور الزام لگا کر اُٹھنے والی ہر آواز کا گلا گھونٹنے کے لیے سارے راستے سام دام، دنڈ بھید اپناتا ہے۔جھوٹ، نفرت، بغض و عناد، حقارت، شکوک و شبہات کی تگڑی خوراک پلانے کا کام ذرائع ابلاغ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔مظلوموں کے خلاف ان ہی کی قوم سے منافق، مخبر، مخالف، مرتد، غداروں کو اس کام پر لگا دیتا ہے۔اس کی مثال عام ہے۔
کچھ عمومی لوگوں کو وہ اماموں کے امام بتا کر ان کی زبان حق اور وارثین انبیاء کے مرتبے اور مصفحہ زبان سے سے ظالم کو امن کا پیامطر اور بڑے القاب سے نواز تا، مسیحائی کے درجہ پر پہنچا دیتا ہے۔ پھر وہ مظلوم کو ظالم اور ظالم کو محسن اور "پتا ماہا” بنادیتابے ۔
قاتل و مقتول برابر
ظالم برابر مظلوم برابر
سچ مظلوم تو جھوٹ برابر
الٹی گنگا، پاتال برابر
ظلم کی اندھی چکّی میں
یزید برابر ،حسین برابر
ملت میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں رہی۔ کبھی وہ میڈیا کے ڈبیٹ کی مسند کے چوغہ دھاری، عالمانہ جسہ اوڑھے اپنی ملت اپنی قوم ومذہب کے خلاف بھی بولتےہیں تو کبھی سادگی کے ساتھ ان کے دام مکر و فریب میں پھنس کر ملت کے لیے مسائل اور جگ ہنسائی کا موقع فراہم کرتے ہیں ۔۔۔خدارا! بغیر جرم ثابت ہوئے کسی بھی ابھرتی اجتماعیت کو بدنام کرنے میں ہم آلہ کار نہ بنیں۔ شادی کے لیے دین سے ارتداد(مذہب چھوڑنا)، ماں باپ رشتہ داروں اور دین تک کی قربانی کچھ نفع کا سودا نہیں۔وقت گزرتے اس کا تجربہ ہوگا اور پھر پچھتاوا ہوگا ۔
ملت سے غداری، جھوٹے معاملات بنا کر دوسروں کے کہنے اور دباؤ سے معروف اور دین کے داعیوں پر تہمت، بہتان لگا کر،انھیں سلاخوں کے پیچھے کردینے سے آپ کے کسی غصے کا بدلہ تو نکل جائے گا لیکن اسلام اوراس کے ماننے والوں کی شبیہ مسخ ہوگی۔حق وصداقت کا رویہ اپنائیں ۔دوسروں کے لیے حسن ظن رکھیں۔اس وقت مدارس، علماء ،جماعتیں اور ادارے باطل کی نگاہ میں رکاوٹ ہیں ۔ہم آپس میں اتحادواتفاق کا ثبوت دیں۔انتشار ،افتراق سے بچیں ۔مومنانہ فراست، حکمت بالغہ، ربانی بصیرت، عفو ودرگزر، عیب پوشی کا معاملہ فرمائیں ۔اللہ سے دعا کریں کہ وہ مسلمانوں کی حفاظت فرمائے ۔ ساری انسانیت پر حق کو واضح کریں۔آپ کے پاس دُکھی انسانیت کے لیے محبت، امن، سکون، ترقی نجات کا پیغام ہے۔
"ظالم لوگ ایک دوسرے کے ساتھی ہیں اور متقیوں کا ساتھی الله ہے۔یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں سب لوگوں کے لیےاور رحمت ان لوگوں کے لیے جو یقین لائیں ۔(الجاشیہ :20)”.