تحریر: شمشیر عالم مظاہری دربھنگوی
امام جامع مسجد شاہ میاں روہوا ویشالی بہار
قرآن مقدس میں رب ذوالجلال نے سچے مسلمانوں کی بہت ساری صفتیں بیان فرمائی ہیں ان میں ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ ہر دوسرے مسلمان کے سامنے جھک جانے والا اس کی محبت و عزت کرنے والا ہوتا ہے ہاں اسلام کے مخالفین کا وہ بھی مخالف ہوتا ہے نا ممکن ہے کہ کسی مسلمان سے اسے دلی عداوت ہو اور کسی کافر سے دلی محبت۔ ناممکن ہے کہ وہ پابند صوم و صلوٰۃ نہ ہو۔ خدا کی غلامی کا نور اس کے چہرے پر ہوتا ہے اور رب کی رضامندی کی طلب اس کے دل میں رہتی ہے ۔
خدا کی توحید اور اس کے سچے رسول اللّٰہ ﷺ کی رسالت کو مان لینے کے بعد سب سے بڑا فریضہ یہ ہے کہ آپس میں مسلمان ایک رہیں، ایک دوسرے کا سہارا بن جائیں، کسی کی مخالفت، حسد، اور پردہ دری میں نہ رہیں ۔
براء بن عازب و ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے ایک مرتبہ نہایت پر جوش خطبہ سنایا جس میں بآواز بلند فرمایا اور آواز اس قدر بلند تھی کہ پردہ نشین خواتین نے گھروں کے اندر بھی آپ کی یہ آواز سن لی فرمایا کہ اے وہ لوگو جو زبانی تو ایمان لائے ہو لیکن دلوں میں اب تک ایمان پیوست نہیں ہوا تم مسلمانوں کو ایذاء نہ پہنچاؤ، انہیں عار نہ دلاؤ، ان کی لغزشیں نہ ٹٹولو، نہ مسلمانوں کی غیبتیں کرو، نہ انکی پوشیدگیوں کے پیچھے پڑو، جو اپنے کسی مسلمان بھائی کی پوشیدگی کی ٹٹول،اور ٹوہ کے پیچھے پڑے گا، اللہ تعالیٰ اس کے پوشیدہ عیوب کے پیچھے پڑ جائے گا، اور یقین مانو کہ جس کے عیوب کے پیچھے اللہ تعالی پڑ جائے اسے رسوا اور بد نام کر کے ہی رہے گا یہاں تک کہ خود اس کے گھر میں بھی اس کی بدنامی رسوائی اور فضیحتی ہو جائے گی ۔ ایک مرتبہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی نظر جب کعبہ پر پڑی تو بے ساختہ کہہ اٹھے کہ بلا شک و شبہ تو بہت بڑی عزت اور حرمت والا ہے لیکن جتنی تیری حرمت و عزت و عظمت ہے بخدا اس سے کہیں زیادہ خدا کے نزدیک ایک ایماندار کی آبرو اور اس کی حرمت و عزت و عظمت ہے مومن کو بے عزت کرنے والا کعبۃ اللّٰہ کے ڈھانے والے سے بھی زیادہ گنہگار ہے (بیہقی ،ترمذی،ابو داؤد)
جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا اے لوگو تمہارا رب یکتا اکیلا اور ایک ہی ہے لوگو تم سب ایک باپ کے بیٹے ہو۔ سنو! کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں، نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی بزرگی ہے، نہ سرخ سیاہ سے افضل ہے، نہ سیاہ سرخ پر کوئی فوقیت رکھتا ہے، ساری بزرگی کا مدار تقوی پر اور اللہ کے ڈر پر ہے سنو قرآن فرماتا ہے تم میں سب سے زیادہ بزرگی والا خدا کے نزدیک وہ ہے جس کے دل میں اس کا لحاظ اور تقویٰ سب سے زیادہ ہو خدا کے بندو مجھے جواب دو میں نے احکامِ خدا کی تبلیغ تم میں کردی؟ سب نے جواب دیا کہ ہاں یا رسول اللہ بے شک آپ نے فرمان خدا پوری امانت داری کے ساتھ ہمیں پہنچا دئیے تو آپ نے فرمایا اب تم میں سے جو موجود ہیں ان پر فرض ہے کہ جو موجود نہیں انھیں بھی میری یہ حدیث پہنچا دیں پھر آپ نے فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں آپس میں خون، مال، عزت، سب حرام ہیں نہ مسلمان کا ہاتھ مسلمان پر اٹھنا چاہیے، نہ اس کا مال مارنا چاہیے اور نہ اس کی آبروریزی کرنی چاہیے (بیہقی ، ترغیب وترہیب)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میدان عرفہ میں رسول اللّٰہ ﷺ نے جو خطبہ دیا تھا اس میں یہ بھی فرمایا تھا کہ اے لوگو اونٹوں کے بھگانے اور گھوڑوں کے دوڑانے میں ہی نیکی کا انحصار نہیں بلکہ درمیانی چال سے اپنی سواریوں کو لے جاؤ ضعیف و کمزور لوگوں کا خیال رکھو ان سے میل رکھو اور کسی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچاؤ (غنیۃ الطالبین)
رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا اس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں خدا کی وحدانیت اور میری رسالت کی گواہی دینے والے کا قتل سوائے ان تین جرموں کے حلال نہیں ایک تو وہ جو اسلام کو چھوڑ دے جماعت مسلمین سے الگ ہو جائے، دوسرا وہ جو شادی شدہ ہو پھر زناکاری کرلے، تیسرا وہ جو ناحق کسی کو مار ڈالے پس مسلمان ہوجانے کے بعد امن خداوندی میں آجاتا ہے اور آخرت کے درجے بھی پالیتا ہے (مسند احمد)
رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا اے قریشیو اس امر خلافت کے والی میرے بعد تم ہی ہو پس نہ مرنا مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو خدا کی رسی کو مل جل کر مضبوط تھا مے رہنا اور ان کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے تفرقہ اور اختلاف کیا اس کے بعد کہ ان کے پاس دلیلیں آ چکیں انہیں یہی حکم دیا گیا تھا کہ اللہ کی عبادت کریں خلوص کے ساتھ یکطرفہ ہو کر اور نمازوں کو قائم رکھیں اور زکوٰۃ ادا کرتے رہیں یہی مضبوط اور سچا اور قائم دین ہے (طبرانی)
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارا مجمع جمع تھا رسول اللّٰہ ﷺ بھی تشریف فرما تھے آپ ہنس دئیے اور خوب ہنسے عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے وجہ ہنسی دریافت کی تو آپ نے فرمایا میری امت کے دو شخص خدا کے سامنے گھٹنوں کے بل گر گئے اور ایک نے کہا خدایا اس میرے بھائی سے میرا بدلہ دلوا اللہ تعالی نے اس سے فرمایا کہ اپنے بھائی کا بدلہ دے اس نے جواب دیا کہ الہی اب تو میرے پاس کوئی نیکی بھی باقی نہیں رہی تو اس شخص نے کہا میرے گناہ اس پر لاد دئیے جائیں یہ بیان فرماتے ہوئے رسول اللّٰہ ﷺ رو دئیے آنسو نکل آئے اور فرمانے لگے کہ یہ دن بہت ہی عظمت اور سختی والا دن ہے آج ہر شخص کی یہی چاہت ہوگی کہ کسی اور پر اس کا بوجھ لاد دیا جائے الغرض اب ارحم الرحمین فرمائے گا کہ اے بدلے کے طالب اپنی نگاہ تو اٹھا اوپر کی جنتوں کو دیکھ یہ دیکھے گا اور کہے گا الہی یہ کیا؟ شہر کے شہر صرف چاندی کے بنے ہوئے ہیں بڑے بڑے زبردست محلات محض سونے کے بنے ہو
ئے ہیں جن پر موتی جڑے ہوئے ہیں خدایا یہ تو کسی نبی کی یا صدیق کی یا کسی شہید کی منزل ہوگی جناب باری تعالی فرمائے گا بلکہ یہ بکاؤ ہے جو اس کی قیمت دے وہ لے یہ کہے گا خداوند بھلا اس کی قیمت کون ادا کر سکتا ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا جو ظلم تیرے مسلمان بھائی نے تجھ پر کیا ہے جس کا بدلہ تو طلب کر رہا ہے اسے تو معاف کر دے یہی اس کی قیمت ہے اب تو اس کی کلی
کلی کھل جائے گی بڑی خوشی سے کہے گا میں نے معاف کر دیا اللہ تعالیٰ فرماۓ گا جاؤ اپنے بھائی کا ہاتھ تھام لو اور تم دونوں اس جنت میں چلے جاؤ ۔
کیسی پاک شریعت ہے، کتنے عدل و انصاف کے قانون ہیں، کیسے پر امن اصول ہیں، جب سب انسان برابر ہیں، جب کہ سب ایک ماں باپ کی اولاد ہیں، جبکہ شریعت نے ایک خالص سید و سردار، اور ایک کپڑا بننے والے، اور جوتی گانٹھنے والے، اور تیل بیچنے والے، اور بادشاہت کرنے والے کو، ایک ہی درجے میں رکھ کر عام مساوات قائم کردی
مسلمانو کسی ایماندار کو گالی دینا فاسق بننا ہے، مومن کو قتل کرنا کافر ہونا ہے، مومن کی غیبت کرنا خدا کی نمک حرامی کرنا ہے، مومن کے مال کی عزت بھی اس کی جان کی عزت کے برابر ہے، اوروں کی تقصیریں معاف کرو، اللہ تعالی تمہارے گناہ بخش دے گا، دوسروں کی خطاؤں سے درگزر کرو جناب باری تعالیٰ تمہاری لغزشیں معاف فرما دے گا، غصہ پی جایا کرو اللہ تعالیٰ بہت بڑا اجر وثواب عنایت فرماۓ گا، جو لوگ مصیبت پر صبر کریں اللہ تعالیٰ انہیں اجر اور بدلہ اور عوض دیتا ہے