تحریر: محمد آصف
یومِ عید ،رمضان المبارک کے مکمل ہونے پر اللہ تعالیٰ سے انعامات پانے کا دن ہے، تو اس سے زیادہ خوشی و مسرّت کا موقع کیا ہوسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اُمّتِ مسلمہ میں اِس دن کو ایک خاص مقام اور اہمیت حاصل ہے۔ علمائے اسلام فرماتے ہیں کہ عید کا لفظ ‘‘عود’’ سے مشتق ہے، جس کے معنیٰ‘‘لَوٹنا’’ کے ہیں، یعنی عید ہر سال لَوٹتی ہے۔ اور ‘‘فطر’’کے معنیٰ ‘‘روزہ توڑنے یا ختم کرنے’’ کے ہیں۔ چوں کہ عید الفطر کے روز، روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے اور اس روز اللہ تعالیٰ بندوں کو اپنی رحمتوں،اور انعامات سے نوازتا ہے تو اِسی مناسبت سے اسے ‘‘عید الفطر’’ قرار دیا گیا۔
عید الفطر کی مناسبت سے ایک اہم کام صدقہ فطر کی ادائیگی بھی ہے۔روزے کے دوران انسان سے جو بھی بھول یا غلطی کوتاہی ہوتی ہےاس کی تلافی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر روزوں کو بےہودہ اور گندی باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مساکین کی روزی کے لیے مقررفرمایا۔(ابوداؤد: ۱۶۰۹)
رمضان المبارک کے مہینے کے بعد مسلمان عیدالفطر مناتے ہیں، یہ اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے بطور خاص روزے داروں کےلیے ایک تحفہ ہوتا ہے۔
شریعت اسلامیہ نے اس دن حدود میں رہ کر خوشیاں منانے کی اجازت دی ہے، وہ دن مسلمانان عالم کےلیے بہت اہم ہوتا ہے، نئے کپڑوں کا اہتمام کرتے ہیں، اور تمام مسلمان اپنے اپنے علاقہ میں ایک جگہ جمع ہو کر عید کی دو رکعت نماز ادا کرتے ہیں، سب ایک دوسرے سے مل کر عید کی مبارک باد دیتے ہیں۔
چونکہ اب ساری دنیا میں کورونا وائرس کی وبا چل رہی ہےاور اسی کے مدنظر ساری دنیا میں لاک ڈاؤن چل رہا، جس کی وجہ سے لوگ پریشان ہیں، لوگ بے روزگار ہیں۔ لوگ ہرطرح کی پریشانی میں مبتلا ہیں۔اس موقع پرمسلما نا ن ہند کی یہ ذمیداری ہے کہ وہ اس سال اپنے لیے اگر کپڑا مہیا کر سکتے ہیں تو بھی نہ کریں، اپنے عورتو ں اور بچوں کو بھی سمجھائیں کہ اس سال عید میں نئے کپڑے نہیں خریدے جائنگے ۔
ماہ رمضان المبارک مکمل لاک ڈاؤن میں گذرنے کی صورت میں مسلمانوں کی کروڑہا روپئے کی دولت محفوظ ہوجائے گی اور اگر مسلمان منصوبہ بند انداز میں عید الفطر کے موقع پر کی جانے والی خریداری میں احتیاط سے کام لیتے ہوئے اپنی عید کو سادگی کے ساتھ منانے کے علاوہ اپنے اطراف میں موجود مستحقین اور غریب طبقہ کی امداد کا فیصلہ کریں تو ان کی بھی سادگی کے ساتھ ہی صحیح عید ہوجائے گی ۔
ہندستان میں مسلمانوں کی آبادی کی متعلق کہا جاتا ہے کہ ہندستان میں کم و بیش ۳۰ کروڑمسلمان ہیں اور اگر عید الفطر کے موقع پر ان کی جانب سے فی کس ۲۰۰۰ روپئے بھی خرچ کئے جاتے ہیں تو یہ رقم مجموعی اعتبار سے۶۰۰ ہزار کروڑ سے تجاوز کرجاتی ہے اس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ اس مرتبہ عید کے موقعے پر کوئی ایسی خریداری نہیں کرنی ہےجو فضول خرچی کا حصہ ہواور نئے کپڑوں یا جوتوں کے نام پر خرچ کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ملک اور دنیا کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑ رہاہے ان حالات میں غریب و مستحقین کیلئے طویل مدت تک خدمات انجام دینی پڑسکتی ہے اسی لئے ہندستانی مسلمانوں کو عید کے موقع پر خریداری سے بچنا چاہیے اور ضرورت مند لوگوں کی مدد کو ترجیح دینا چاہئے ۔عید الفطر کے موقع پر کوئی خریداری نہ کی جائے تو بہتر ہے اس سلسلہ میں سوشل میڈیا پر جاری مہم میں کئی اہم اور سرگردہ لوگوں نے حصہ لینا شروع کردیا ہے اور کہہ رہے ہیں کہ وہ اس عید الفطر کے موقع پر نئے کپڑوں اور اشیاء کی خریداری کی بجائے اپنے غریب پڑوسیوں کی مدد کو ترجیح دیں گے۔ِموجودہ حالات میں غیر ضروری خریداری سے احتیاط لازمی ۔ مستحقین میں بھی عید کی خوشیاں بانٹنے کو ترجیح دینے کی شدید ضرورت اپنی خوشی میں غریبوں، یتیموں، بے سہارا لوگوں کو بھی شامل کریں اور سب کے ساتھ خوشیاں، محبتیں اور مسکراہٹیں بانٹیں۔
یا اللہ عید کے اس خوشی کے دن ہر مومن کا دامن خوشیوں سے بھر دےاورکوئی غم باقی نہ رہے۔۔۔ہر آنگن خوشی سے مہکتا رہے۔