طلاق حسن کا معاملہ

تحریر: ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مرکزی حکومت کے ذریعہ تین طلاق کے خلاف قانون بنانے کے بعد پورے نظام طلاق پر ہی پابندی لگانے کے منصوبے بنائے جاتے رہے ہیں، غازی آباد کی بے نظیر حنا اس منصوبہ کا حصہ بنیں اور سپریم کورٹ میں طلاق حسن کو بھی کالعدم قرار دینے کی عرضی داخل کی، اس کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ نے طلاق حسن پر کوئی فیصلہ نہیں دیا ہے ۔
جسٹس ایس کے کول اور جسٹس ایم ایک سندریش کی بینچ نے اس معاملہ کی سماعت کی اور عرضی گذار پر واضح کر دیا کہ آئین کی دفعہ ۱۴۲ ؍ کے تحت مرد کو طلاق دینے کا حق ہے۔ اگر وہ اپنی زدواجی زندگی سے مطمئن نہیں ہے تو اس کے پاس رشتہ کو ختم کرنے کا یہ ایک طریقہ ہے ، عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ اسلام میں عورت کو خلع کا اختیار حاصل ہے اور وہ اپنی غیر مطمئن ازدواجی زندگی کا اختتام خلع کے ذریعہ کر سکتی ہے ، شادی ایک معاہدہ ہے، اور عدالت کی نظر میں اس معاہدہ کو توڑ ا بھی جا سکتا ہے۔ یہ باہمی رضا مندی کی صورت میں خلع کے ذریعہ ہو سکتا ہے، اور یہ عدالت کی مداخلت کے بغیر بھی ممکن ہے ، عدالت نے واضح لفظوں میں بے نظیر حنا کے وکیل پنکی آنند کو کہا کہ اگر شوہر مہر کی رقم بڑھا دے تو کیا آپ کی مؤکلہ طلاق پر تصفیہ کر سکتی ہے ، عدالت نے کہا کہ ہم فوری طور پر درخواست گذار کے موقف سے مطمئن نہیں ہیں اور ہم اسے کوئی ایجنڈا نہیں بنا سکتے، اگلی سماعت کے لیے ۲۹؍ اگست کی تاریخ مقرر ہوئی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کو اس مقدمہ میں مضبوط انداز میں سامنے آنا چاہیے اور اپنی استطاعت وقوت کے بقدر اسلام کے نظام طلاق کو عدالت کے سامنے رکھنا چاہیے۔ قلم مخالفین کے ہاتھ میں ہونے کے با وجود ہم اسلام کے نظام طلاق کی معقولیت سے صرف نظر نہیں کر سکتے۔اس لیے کہ جن مذاہب میں طلاق کے ذریعہ ازدواجی زندگی کا تصور نہیں ہے وہاں خواتین کو قتل کرنے کا مزاج عام ہے اور اگر یہ ممکن نہیں ہوتا تو اسے لٹکا کر رکھا جاتا ہے اور زندگی اجیرن بنا دی جاتی ہے، وہ نہ تو دوسری شادی کر سکتی ہے اور نہ ہی شوہر اس کا حق ادا کرتا ہے، ہمیں یہ بات خوب اچھی طرح ذہن نشیں کر لینی چاہیے کہ طلاق کا صحیح استعمال بھی عورتوں کے حق میں نعمت ہی ہے ۔