ڈاکٹر سرور عالم ندوی کی کتاب سیرت نبویؐ کے نایاب گوشے:ایک مطالعہ

تبصرہ: ڈاکٹر نورالسلام ندوی، پٹنہ

رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور حیات مبارکہ دنیا ئے انسانیت کے لئے کامل نمونہ اور اسوہ ہے، آپﷺ کی ذات بابرکت قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے نمونہ عمل اور قابل تقلید ہے۔رسول خدا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہدایت کا چراغ اور نجات کی راہ ہے، سیرت مصطفی اسلام کا عالمگیر آئینہ ہے، جس میں اسلام کی پوری تصویر صاف وشفاف نظر آتی ہے۔ اس لیے سیرت نبوی کے مختلف گوشوں پر سب سے زیادہ اہل علم و قلم نے ضو فشانیاں کی ہیں، اور سب سے زیادہ اوراق سیاہ کیے ہیں۔ دنیا کی متعدد زبانوں میں بے شمار کتابیں تحریر کی گئی ہیں، لیکن سیرت طیبہ کا یہ بھی اعجاز ہے کہ جس قدر کتابیں سیرت کے موضوع پر لکھی جارہی ہیں اسی قدر نئے نئے گوشے ہمارے سامنے آتے چلے جاتے ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب’’ سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے نایاب گوشے‘‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس کے مصنف فاضل گرامی قدر حضرت مولانا ڈاکٹر سرور عالم ندوی صاحب ہیں ،جو شعبہ عربی، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ کے موقر استاذ ہیں، موصوف خود اپنا تعارف آپ ہیں،فاضل ندوہ ہونے کے ساتھ ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بھی فارغ التحصیل ہیں، علوم اسلامی اور علوم عصری کے حسین امتزاج نے ان کی شخصیت کو جامع اور ہمہ گیر بنا دیاہے۔ اس کتاب میں پانچ مقالے ہیں ،جن میں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے نایاب پہلووں کا اچھوتے اور دلکش انداز و اسلوب میں جائزہ لیا گیا ہے۔ پہلے مقالے کا عنوان ہے’’ ربائب النبی صلی اللہ علیہ وسلم سیرت نبوی کا ایک گمشدہ باب‘‘ اس مقالے میں فاضل مصنف نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر تربیت حضرات امہات المومنین کی سابقہ اولادیں جنہیں ربیب یا ربیبہ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے، کی سیر ت و شخصیت پر روشنی ڈالی ہے۔ نیز ان کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن سلوک کیسا رہا، ان کی کفالت اور تربیت میں آپ کا کیا کردار رہا، آپ ان سے کس قدر محبت اور الفت کا معاملہ فرماتے تھے، اوران بچوں کو آپ سے کس درجہ محبت والفت تھی؟ان تمام پہلوؤں پر قرآن و حدیث اور سیرت و تواریخ کی مختلف کتابوں کی روشنی میں سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔مصنف نے ان تمام ازواج مطہرات جوپہلے سے صاحب اولاد تھیں اور جن کی کفالت اور تربیت کا ذمہ آپ نے قبول فرمایا تھا، اور وہ سب آپ کے زیر نگرانی پروان چڑھے، ان کے اسماء مندرجہ ذیل بیان کیے ہیں۔(۱) حضرت ہند بن نباش بن زرارہ تمیمی(۲) حضرت ہالہ بن نباش(۳)حضرت طاہر بن نباش (٤)حضرت ہند بن عتیق بن عائد مخزومی(۵)حضرت سلمہ بن عبداللہ بن عبدالاسود(٦)حضرت عمر بن ابی سلمہ (۷) حضرت درہ بنت ابی سلمہ(۸)حضرت زینب بنت ابی سلمہ(۹)حضرت عبدالرحمن بن سکران بن عمرو(۱۰)حضرت حبیبہ بنت عبداللہ بن جحش ان سب کا الگ الگ ذیلی عنوان قائم کرکے ان کی زندگی اور شخصیت کا تجزیہ کیا گیا ہے، اور یہ پہلو سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے کہ آپ کے زیر سایہ تربیت پانے کا اثر ان حضرات کی زندگی میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ ہند بن ابی ہالہ کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:
’’ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں داخل ہوئیں تو ہند بھی اپنی ماں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت میں داخل ہوگئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر سایہ تربیت پانے لگے، جس کا اثر ان کی زندگی میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔زبان وبیان سے لے کر کردارا ورعمل تک ہر چیز تربیت نبوی کا پرتو نظر آتی ہے۔ ہند کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے غایت درجہ محبت تھی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی شفقت پدری کا بھرپور اظہار فرماتے رہے، یہاں تک کہ جب اسلام کا ظہور ہوا تو حضرت ہند نے حلقہ بگوش اسلام ہونے میں سبقت فرمائی، اس طرح پدرانہ شفقتوں کے ساتھ ساتھ فرائض نبوت سے بھی اکتساب فیض کرنے کا قریب سے موقع ملا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ محبت کا معاملہ فرماتے اور اکثر و بیشتر ساتھ رکھتے تھے۔‘‘
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کے ساتھ آ نے والی اولاد کی کفالت فرمائی، پدرانہ شفقت و محبت نچھاور کی، تعلیم و تربیت کا ذمہ لیا، احساس یتیمی کو دور کیا،ان سے حد درجہ تعلق اور لطف گم گستری کا معاملہ فرمایا، اس سے اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ بچوں کے ساتھ کس طرح شفقت اور دلجوئی کا برتاؤ کرنا چاہیے، بچوں کی تعلیم و تربیت اس کی عمر اورذہنی سطح کو سامنے رکھ کر کرنی چاہیے۔سیرت رسول کے اس پہلو کا مطالعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز تعلیم و تربیت اور اصلاح کا دلچسپ اور منفرد انداز سامنے لاتا ہے۔ یہ اقتباس دیکھئے:
’’جس ذات عالی نے فرزندان ملت کی اصلاح وتربیت کیلئے ایسے ایسے ارشادات و احکامات صادر فرمائے ہوں، اس نے خودان نونہالوں کی تعلیم و تربیت اور پرورش و پرداخت میں کیا کردار ادا کیا ہوگا، جن کی پرورش کی ذمہ داری خود انہیں کے دوش مبارک پر رہی ہو، اس فکر و احساس کے ساتھ کتب احادیث کا مطالعہ ایسی روایتوں کو ظاہر کرتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امہات المومنین کے سابقہ اولاد کے ساتھ معاملہ ان کی نگرانی و ذمہ داری اور تعلیم و تربیت کے نازک فریضہ کو بحسن و خوبی انجام دینے اور فکرسلیم،علم عمیق، اور حسن اخلاق کے زیور سے آراستہ کرنے پر دلالت کرتی ہے، جس سے آراستہ وپیراستہ ہو کر ان نفوس قدسیہ کو ربائب النبی کے معزز لقب سے سرفراز ہونے کا شرف عظیم حاصل ہوا۔‘‘
دوسرے مقالہ کا عنوان ہے’’ ادب الاطفال کا نبوی اسلوب اور اصول ومبادی‘‘ اس مقالے میں سیرت النبی کے آئینے میں ادب اطفال کے نبوی اصول تعلیم و تربیت کو موضوع بنایا گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات، ارشادات، اعمال ا ور افعال کی روشنی میں بچوں کی نگہداشت و پر داخت اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے نہایت مؤثر اور کارآمد بحث کی گئی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کی پرورش وپرداخت اور تعلیم و تربیت کی خاص ہدایت فرمائی، اور اصلاح وتربیت کا ایسا پیارا انداز واسلوب اختیار فرمایا جو واقعتا ادب اطفال کا زریں باب ہے، آپ نے نونہالان قوم و ملت کی پرورش و پرداخت اور اصلاح وتربیت میں کن کن امور کا لحاظ رکھا ہے، اور کن کن باتوں کی رعایت کی ہے، بچوں کی ذہنی و فکری سطح کو کس طرح ملحوظ خاطر رکھا ہے، ان باتوں کو قرآن و حدیث اور آپ کے اقوال و اعمال کی روشنی میں اس طرح اجاگر کیا گیا ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور ادب اطفال کے تعلق سے آپ کی تعلیمات تھیوری اور اصول و قواعد کا درجہ رکھتی ہیں،یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے:
’’عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے نو عمرصحابہ کرام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کااب تک جو تجزیہ پیش کیا گیا ہے، جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالات اور تقاضے کے مطابق مختلف موقع اور مناسبت سیَ ذہنی اور فکری، طبعی اور فطری رعایت کے ساتھ پیش فرمایا، جہاں نسل انسانی کی صحیح تعلیم و تربیت اور نیک و پاکیزہ معاشرہ اور سماج کو وجود میں لانے کی کوشش کی طرف رہنمائی کرتا ہے، وہیں اصناف ادب کے نازک ترین اور اہم ترین پہلو’’ ادب الاطفال‘‘ کی تدوین و ترتیب اور اس کے لیے ایسے رہنما اصول و ضوابط بھی مترشح ہوتے ہیں، جن کو بروئے کار لا کر اس صنف ادب کو امتیازی مقام بخشا جا سکتا ہے۔‘‘
تیسرا مقالہ’’ حضرت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا نظریہ تعلیم ‘‘کے عنوان سے ہے، اس مقالے میں احادیث رسول کی روشنی میں علم کی اہمیت و افادیت بتلاتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیگر زبانوں کے سیکھنے کی ترغیب، حضور کے اقوال، اعمال اور افعال کی روشنی میں نصاب تعلیم کی ترتیب و تدوین، طریقہ تعلیم، دوران تدریس بورڈ کا استعمال، طلبہ کے تعداد کی حدبندی، اساتذہ کے لیے ضروری شرائط پر مفید اور کارآمد گفتگو کی گئی ہے۔فرمان رسول کی روشنی میں یہ بتایا گیا ہے کہ اصول تعلیم میں مسلم و غیر مسلم استاذ کی شرط تعلیمات نبوی کے خلاف ہے۔چوتھے مقالہ میں’’فن کتابت عہد رسالت میں‘‘ کا جائزہ لیا گیا ہے اور کتابت کی اہمیت، افادیت اور ترویج کے سلسلے میں آپ کی متعدد اقوال و اعمال کے ذریعہ یہ ثابت کیا گیا ہے کہ فن تحریر و کتابت کے فروغ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کاوشیں سیرت رسول کا ایک انمول باب ہے۔ مصنف تحریر کرتے ہیں:

’’فن تحریر وکتابت کے فروغ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوششوں کا یہ ایک مختصر سا تذکرہ ہے، جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کار دعوت کا عظیم فریضہ تصور کرتے ہوئے انجام دیا، اس کے ذریعے علم و فن اور تہذیب و تمدن کا شمعیں روشن ہوئیں، یہ مبارک علم وفن کی اساس اور بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے، جو عہد رسالت میں ہی درجہ عموم تک پہنچ چکا تھا، یہاں تک کہ اس مبارک عمل (فن خطابت) کا تذکرہ تشبیہ و تمثیل کے طور پر ہونے لگا تھا۔‘‘
پانچواں اور آخری مقالہ’’ فن تنقید میں رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے رہنما اصول‘‘ پر مشتمل ہے ، اس میں شعر کی اہمیت، معنویت اور مقصدیت کو واضح کیا ہے گیا، نثر نگاری میں ہمارے نبی نے کیا اصول و ہدایت ارشاد فرمائے ہیں، ایجاز کی اہمیت، حضرات صحابہ کی اصلاحی کاوشیں اور تبصرے، نثر کی اصلاح اور رہنمائی جیسے موضوعات پر تشفی بخش گفتگو کی گئی ہے۔ ادبی تنقید ایک مستقل عنوان ہے، اہل علم و ادب نے اس کے اصول و قواعد وضع کیے ہیں، لیکن اسلام تنقید و تبصرے کے سلسلے میں ہمیں کیا تعلیم دیتا ہے، شعر اور نثر کی تنقید کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے ہمیں کیا رہنمائی ملتی ہے، اصلاح زبان وادب کے باب میں محسن انسانیت کے کیا احسانات ہے۔ آپ کے دامن سے وابستہ اصحاب کی نگارشات و تنقیدات سے ادب و تنقید کو پاکیزگی و تابندگی نصیب ہوئی، حضرات صحابہ نے جاہلی عہد کے شعر و نثر کی تمام خامیوں کو جو اس دور کے نثری ادب کا لازمی حصہ تھیں ان کو اجاگر کیا، اور اس کی بیخ کنی کی، انہوں نے زبان و ادب کی اصلاح اور درستگی کے ساتھ حقیقت کا اظہار، تکلفات سے بیزاری، زبان کی روانی، الفاظ کی شیرینی، فکر کی بلندی اور اعجاز کلام پر زور دیا، جو ادبی تنقید میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، اس کے مطالعہ سے سیرت نبوی کا یہ اعجاز بھی ابھر کر سامنے آتا ہے کہ عہد جاہلیت میں شعر و شاعری نقطہ عروج پر تھی، باوجود اس کے ادب و تنقید کا کوئی اصول اور پیمانہ نہیں تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دامن سے فیض یافتہ صحابہ کرام نے اس صنف کو توجہ کا مرکز بنایا اور اس کی اصلاح فرمائی اور تنقید و تبصرہ کا ایک معیار و میزان عطا فرمایا، جو آنے والی نسلوں کے لیے رہنما اصول ہے۔
فاضل مصنف مولانا ڈاکٹر پروفیسر سرور عالم ندوی علم و تحقیق کا ایک معتبر اور مستند حوالہ ہیں۔ انہوں نے نہایت محنت اور تحقیق سے یہ مقالے سپرد قلم کئے ہیں، کتب احادیث اور سیر کی نہ معلوم کتنے اوراق پلٹے ہونگے اور تاریخ و سوانح کی کتنی کتابوں کی خاک چھانی ہوگی، تب جا کر انہوں نے اتنی معیاری کتاب پیش کی ہے۔زیر نظر کتاب کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس میں سیرت النبی کے ان پہلووں پر تفصیلی کلام کیا گیا ہے جن پر سیرت نگاروں اور تاریخ نویسوں نے بھرپور انداز سے روشنی نہیں ڈالی ہے اور سیرت کے دیگر پہلوؤں کے تناسب اس پر کم توجہ دی گئی ہے، اس لیے ضرورت متقاضی تھی کہ سیرت کے نایاب اور گمشدہ پہلوؤں کو جو کتب احادیث و سیر میں بکھرے پڑے ہیں مطالعہ و تحقیق کا موضوع بنایا جائے۔ یہ کتاب اپنے موضوع اور مقصد کے لحاظ سے بہت مفید اور بیش قیمت ہے، مصنف کا طریقہ استدلال اور تحلیل و تجزیہ کا انداز بھی بہت خوب ہے، اس پر مستزاد یہ کہ اسلوب تحریر نہایت دلکش، شیریں اور رواں ہے ۔ اس میں مصنف کا خلوص، عشق نبوی،فکر و خیال کی پاکیزگی، اور جذبہ و لگن نمایاں ہے۔یہ کتاب ایسی ہے کہ ہر شخص کو اس کا مطالعہ کرنا چاہئے،اور اس پر عمل کرکے اپنی زندگی کو تابندگی اور درخشندگی بخشنا چاہیے، اس کے مطالعہ سے ذہن و فکر پر سیرت نبوی کے ایسے ایسے نقوش مرتسم ہوتے ہیں جن کے اثرات تادیر قائم رہتے ہیں، اور جن کی حلاوت و شیرینی دلوں کو سرور بخشتی وطمانیت ہے۔ کتاب ہر لحاظ سے دامن دل کشید کرنے والی ہے، ہر طبقہ اور ہر عمر کے لوگوں کے لیے یہ ایک بہترین سوغات اور قیمتی تحفہ ہے۔

Dr Noorus Salam Nadvi
Vill+Post Jamalpur, via Biraul
Dist Darbhanga
Pin Code 847203
E-mail : nsnadvi@gmail.com