افتراق وانتشار کا خاتمہ کیوں کر ممکن ہے

تحریر: عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری(ممبئی)
9224599910

کون اچھا ہے اس زمانے میں

کیوں کسی کو برا کہے کوئی

افتراق، انتشار، اختلاف و خلفشار ملّت کے کیے سمِ قاتل اور نہایت نقصان دہ چیزیں ہیں ۔قرآن مجید ہمیں اللہ کی رسی کو مظبوط تھامنے اور تفرقہ سے بچنے کے لیے ابھارتا ہے۔بدگمانی سے بچو، اور نہ کسی کی ٹوہ میں لگو۔ ایک دوسرے کی کاٹ میں نہ لگو۔الله کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔

افراد، مسلک، جماعتیں، اداروں ،علماء، دانشوروں کا اختلاف کے باوجود متحدہ ہو کر ایک دوسرے کا تعاون کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت اور کامیابی کے لیے از حد ضروری ہے ۔
آپسی اختلافات کو ہوا دے کر بغض و عناد کی راہ اپنا کر منتشر ہوجا نا، ناکامی ونا مرادی ہے۔اختلاف کے باوجود تعاون علی البر والتقوی ( نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو)کی بنیاد پر مل جل کر کام کرنا چاہتے ۔

لمبے قد میں بونے لوگ
اف یہ آدھے پونے لوگ

اپنی پسند، اپنے منہج، اپنی فکر، اپنا طریقہ کار کو دوسروں پر تھوپنا، زور دے کر منوانے ،اسے ہی قول فیصل اور دوسروں پر گمراہ کا لیبل چسپاں کردینے سے ملی اتحاد کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ مسلکی اختلاف کو ہوا دینے میں، نفس، علمی تفاخر، اقتدار، مال ودولت، اور وسائل کو بڑا دخل ہے۔
موجودہ مسلکی اختلافات واقتراق اور انتشار کو مٹانے کے لیے مخلصانہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔

اسی اقبال کی میں جستجو کرتا رہا برسوں

بڑی مدت کے بعد آخر وہ شاہیں زیر دام آیا

دوسروں کی عزّت نفس کا خیال رکھو۔ اپنے مکتبہ فکر اور اکابرین کے علاوہ دوسرے لوگوں کا بھی احترا م کرو
۔ انھیں بھی عزت دو۔ الفاظ کا استعمال تیر وتفنگ کی بجائے سوز وگداز، محبت سے بات رکھو۔
کفار پر سخت، آپس میں رحم وکرم کا پیکر بن جاؤ ۔آپس میں نہ جھگڑو ورنہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔
عدل وانصاف کا دامن نہ چھوڑ و، عدل کے ساتھ صلح صفائی کراؤ۔اس پر اللہ ہی کی خوشنودی ملحوظ رکھو۔
اخلاص نیت اور حکمت ودانائ اور مومنانہ فراست کے ساتھ اگر باہمی صلح صفائی کا کام ہوتا رہے تو انتشار کی خرابی اپنے آپ کم ہوتی جائے گی اور ملّت اسلامیہ امت واحدہ بن جائے گی ۔ سوچو باطل، فساق، فجار، فسطائی، کفر کے علمبردار آج متحد ہیں اور ایک خدا،ایک کتاب ،ایک رسول کی امت میں اس قدر انتشار، افترق۔الامان الحفیظ

اہل دانش عام ہیں، کمیاب ہیں اہل نظر

کیا تعجب ہے کہ خالی رہ گیا تیرا ایاغ

آپ استقامت کے پیکر بن کر باطل کے خلاف آہنی دیوار اسی وقت بن سکتے ہیں جب

نہیں ہے اقبال نا امید اپنی کشت ویراں سے

زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

امت کے اجتماعی شیرازےکو بکھیرنے میں سب سے اہم رول "تکفیری وتفسیقی” کتابوں نے ادا کیا ہے۔آج بھی اداروں میں مسلکی ذہن کو ہروان چڑھایا جاتا ہے۔
مساجد کا رول تحفظ دین ہو، تحفظ مسلک نہیں ۔یہاں کے بیانات جمعہ، روادارانہ اور خطاب سارے مسلمانوں کی فلاح وکامرانی کے ہو۔یہی وہ جگہ ہے جہاں سے اتحاد کو ایک پلیٹ فارم ملتا ہے۔یہ ملّت کی مرکزی اور مشترکہ قیادت کی جگہ ہے۔ دوسرے مسالک، جماعتوں، اداروں کو حریف سمجھنے کے بجائے رفیق سمجھے۔

افتراق وانتشار کے خاتمہ کے لیے تجاویز

(1) اپنے مسلک اور جماعت کےتحفظ اور اس کے غلبہ کے بجائے دین کے تحفظ اور اس کی اقامت کو مشن بنائیں ۔
(2)اپنے مسلک اور جماعت کو کشتی نوح سمجھنے اور سمجھانے سے سخت اجتناب اور ایسی ہر خواہش اور کوشش کی پرزور مذمت ۔
(3) فروعی امور ومسائل کو فرائض واجبات کا درجہ دینے سے سخت پرہیز ۔
(4)مختلف مسلک، جماعتوں کے فروعی امور اور طریقہ کار میں اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے لیے خیر سگالی، خیر خواہی کی مخلصانہ کوششیں ۔
(5)دوسرے مسلک اور جماعتوں کے خلاف تعصب، بغض، اور نفرت، بہتان تراشی کے رجحان کو ختم کیا جائے ۔
(6)مشترکہ ملی فورم، مسلم پرسنل لاء، مساجد مدارس کا تحفظ ۔مسلمانوں کی جان ومال عزت وآبرو کی حفاظت، تعلیمی ومعاشی ترقی کے لیے مشترکہ فورم میں تمام مسلک اور جماعتوں کی شرکت لازماً ہو۔تب ہی ہم افتراق وانتشار کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے بچتے ہوئے اس کے خاتمہ کے لیے ممکنہ تدابیر اختیار کرسکتے ہیں ۔موجودہ مسلکی، جماعتی افتراق وانتشار کے اسباب اور ان کے حل کے لیے اگلے مضمون میں تفصیل سے بات کی جائے گی۔

کوئی بزم ہو کوئی انجمن، یہ طریق اپنا قدیم ہے

جہاں روشنی کی کمی رہی، ونہیں ایک چراغ جلا دیا

عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری( ممبئی)