تحریر: ظفر کلیم امجدی ادروی
اشرف علی تھانوی دیوبندی کا کفر
لفظ ایسا بمعنی اتنا
مولوی مرتضیٰ حسن دربھنگی:۔
مولوی مرتضیٰ حسن چاند پوری دیوبندی اشرف علی تھانوی کی عبارت متنازعہ فیھا میں لفظ ایسا کی تاویل کرتے ہوئے لکھتا ہے: واضح ہو کہ (ایسا) کا لفظ فقط مانند’ اور ‘مثل’ ہی کے معنی میں مستعمل نہیں ہوتا بلکہ اس کے معنی ‘ اس قدر’ اور ‘اتنے’ کے بھی آتے ہیں جو اس جگہ متعین ہیں۔
(توضیح البیان فی حفظ الایمان مطبوعہ قاسمی دیوبند، ص 17)
دوسرے مقام پر لکھتے ہیں: عبارت متنازعہ فیھا میں لفظ (ایسا) بمعنی اس قدر اور اتنا ہے پھر تشبیہ کیسی۔
(مرجع سابق ص 8)
مولوی مرتضیٰ حسن دیوبندی کی مندرجہ بالا عبارت سے تھانوی کی عبارت کفریہ میں لفظ ایسا اس قدر اور اتنا کے معنی میں ہے۔
الشہاب الثاقب کی توضیح۔
مولوی حسین احمد ٹانڈوی صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند لفظ ایسا کو اتنا کے معنی میں مان لینے سے متعلق لکھتے ہیں۔
حضرت مولانا عبارت میں(ایسا) فرما رہے ہیں لفظ اتنا تو نہیں فرما رہے ہیں اگر لفظ اتنا ہوتا تو اس وقت البتہ یہ احتمال ہوتا کہ معاذاللہ حضور علیہ السلام کے علم کو اور چیزوں کے علم کے برابر کردیا۔
(الشہاب الثاقب مطبع قاسمی دیوبند ص 111)
الحاصل مرتضیٰ حسن دیوبندی نے تھانوی کی عبارت میں لفظ ایسا بمعنی اتنا مانا ہے اور مولوی حسین احمد کے نزدیک اگر عبارت میں لفظ *ایسا اتنا کے معنی میں مان لیا جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ معاذاللہ تھانوی نے نبی کریم ﷺ کا علم اور چیزوں (زید بکر صبی مجنون جمیع حیوانات و بہائم) کے علم کے برابر کردیا ہے اور نبی پاک کے علم کو عام انسانوں کےبرابر کردینا کیا نبی پاک ﷺ کی توہین نہیں؟
کیا اس عبارت میں صاف صاف کفر نظر نہیں آرہا ہے؟
قارئین فیصلہ کریں۔
لفظ ایسا تشبیہ کے لیے: الشہاب الثاقب میں لفظ ایسا بمعنی تشبیہ۔
مولوی حسین احمد لکھتے ہیں: لفظ ایسا تو تشبیہ کا ہے اور ظاہر ہے کہ اگر کسی کو کسی سے تشبیہ دیا کرتے ہیں تو سب چیزوں میں مراد نہیں ہوا کرتی۔
(الشہاب الثاقب)
اور لکھتے ہیں: ادھر لفظ اتنا تو نہیں کہا بلکہ تشبیہ فقط بعضیت میں دے رہے ہیں۔
(مرجع سابق ص 112)
مولوی حسین احمد کے نزدیک تھانوی کی عبارت میں لفظ ایسا (تشبیہ) کے لیے ہے تشبیہ کے معنی میں لینے سے کوئی حکم عائد نہیں ہوگا لیکن انہیں کے ایک مولوی مرتضیٰ حسن تشبیہ کا معنی مراد لینے کو کفر قرار دے رہے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔۔
اگر وجہ تکفیر کی تشبیہ علم نبوی بعلم زید و عمرو ہے تو یہ اس پر موقوف ہے کہ لفظ ایسا تشبیہ کےلیے ہو۔
📗 (توضیح البیان ص 13)
مذکورہ بالا بحث کا خلاصہ یہ نکلا کہ بعض دیوبندی علماء کے نزدیک تھانوی کی عبارت میں لفظ ایسا اتنا کے معنی میں آتا ہے اور بعض کے نزدیک تشبیہ کےلیے۔
جنہوں نے تشبیہ کےلیے مانا ان کے نزدیک اتنا ماننے کی صورت میں کفر ہے اور جنہوں نے اتنا مانا توانہوں نے تشبیہ کے معنی ماننے کو سبب کفر قرار دیا۔
لہذا عبارت بالا کی روشنی میں خود دیوبندی علماء کے نزدیک اشرف علی تھانوی کی عبارت کا کفریہ ہونا ثابت ہوگیا۔
یہ بحث تو تھانوی کے اذناب و ذریات کی جانب سے تھی خود تھانوی نے لفظ ایسا کس معنی میں لیا ہے وہ بھی ملاحظہ فرمائیں۔۔۔۔
اشرف علی تھانوی کے نزدیک لفظ ایسا، بیان کے لیے۔
اشرف علی نے یہ جان لیا تھا کہ اگر لفظ (ایسا) تشبیہ کے معنی میں لیا جائے تو بھی کفر ہے اور (اتنا) کے معنی میں تب بھی کفر ہے۔
لہذا تھانوی نے ایک اور مفہوم ایجاد کیا اور لفظ ایسا کو (بیان) کے لیے مان کر الزام کفر سے خود کو بچانے کی ناکام کوشش کی تغییرالعنوان میں لکھتا ہے: لفظ ایسا بقرینہ مقام مطلق بیان کے لیے آتا ہے۔
(حفظ الایمان مع تغییرالعنوان ص 121، ناشر انجمن ارشاد المسلین لاہور)
تھانوی کی تاویل بے جا کے جواب میں بس مظہر اعلی حضرت شیر بیشہ اہل سنت فاتح عالم دیوبند علامہ حشمت علی علیہ الرحمہ کی طرف سے تحریر فرمودہ جواب نقل کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
آپ فرماتے ہیں: تھانوی جی بھلا حکیم الامت کہلا کر اردو ادب کے مسائل سے بھی آپ کیا جاہل ہوں گے ضرور ہے کہ دانستہ سب کچھ دیکھ بھال کر مسلمانوں پر اندھیری ڈالنا چاہتے ہیں۔
ہاں تھانوی جی ہم سے سنیے ایسا کا لفظ مطلق (بیان) کے لیے وہاں آتا ہے جہاں مشبہ بہ مذکور نہ ہو نہ صراحتا نہ حکما اور جہاں مشبہ اور مشبہ بہ دونوں موجود ہوں وہاں قطعا یقینا ایسا کا لفظ تشبیہ ہی کے لیے آتا ہے۔۔۔
آپ کی عبارت میں مشبہ اور مشبہ بہ دونوں موجود ہیں اور یہاں لفظ ایسا یقینا تشبیہ کے لیے ہے مطلق بیان کے لیے ہرگز نہیں ہوسکتا۔
(قہر واجدان بر ہمشیر بسط البنان ص 13)
تو دوستو دیکھا آپ نے کفریہ عبارت کا دفاع کرتے کرتے اشرف علی کو خود دیوبندی علماء نے کفر کی دلدل میں دھنسا دیا۔