یہ رواداری نہیں دین بیزاری ہے

تحریر: محمد ندیم الدین
اسلام نے دیگر مذاھب کے احترام کا درس دیا اور اپنے ماننے والوں کو دوسرے مذاہب کے پیرؤں کے ساتھ بڑی ہی رحم دلی اور رواداری کی بڑی فراخ دلی کے ساتھ تعلیم دی ہے کہ اُن کے ساتھ حسن ِسلوک کا معاملہ رکھاجائے اوران کی دل آزاری سے مکمل پرہیز کیا جائے ، ہمارے فقہاء کرام نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ "اگر کسی شخص نے کسی یہودی یا آتش پرست کو "اے کافر ! "کہہ کر خطاب کیا،جس سے اس کی دل آزاری ہوئی ، تو ایسا خطاب کرنے والا بھی گنہگار ہوگا” (فتاوی عالمگیریہ ص ۵۹ ج ۵)لیکن رواداری اور حسنِ سلوک کا یہ مطلب ہر گزنہیں ہے کہ مذاھب کے درمیان فرق و امتیاز ہی ختم ہوجائے،اسلامی تشخص ہی باقی نہ رہے، رواداری کے نام پر غیروں کے کفریہ و شرکیہ شعائر وروایات کو اپنایا جائے اور رواداری کے جوش میں غیر مسلموں کے عقائد ومذھب ہی کی تائید شروع کردے ، یا اس عقیدہ پر مبنی مذھبی تقریبات میں بے محابا شریک ہو کران کے مذھب کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے، قرآن کریم نے اس سے سختی سےمنع کیا جیسا کہ”سورہ کافروں”کے شانِ نزول سے ظاہرہے کہ مشرکینِ مکہ نے جب یہ فرمائش کی کہ آپﷺہمارے بتوں کی کچھ دن پرستش کرلیں اور ہم آپ کے خدا کی ، تواللہ نے اس سے صاف منع کردیا کہ "تمہارے لئے تمہارادین ہے ،اور میرے لئے میرادین”۔اس لئے ہمارے لئے اس بات کی گنجائش ہی نہیں ہے کہ ہم اپنے آپ کو مسلمان بھی کہیں اور ایسی افعال بھی کریں جو خالص دوسرے مذاہب کے شعائر ہوں، یہ ہرگز رواداری نہیں ،بلکہ یہ مداہنت اورخود فریبی ہے، جب سے ملکِ ہندوستاں میں فرقہ پرست طاقتوں نے اقتدار سنبھالا اسلام اور مسلمان کے خلاف خوب نفرت پھیلائی،اور میڈیا نےبرادرانِ وطن کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر گھول دیا، جس کے نتیجہ میں کئی ایک مسلمانوں کا جانی ومالی نقصان ہوا، اور ہورہا ہے تو وہیں دوسری طرف ہندوستانی مسلمانوں نے نفرت کے بازار میں محبت کا دیپ توجلایا اور رواداری کی مثالیں بھی قائم کیں اور برادرانِ وطن کی دوریوں کو پاٹنے کی کوششیں بھی کیں، لیکن روداری کے جوش میں اسلامی تعلیمات کو فراموش کردیا ،جیسا کہ اب ‏ہندوستان میں چند دنوں سے رواداری دکھانے کے لئے مسلمانانِ ہند نے فخریہ انداز میں غیر مسلموں کے جنازوں کا کندھا دینا ،غیر مسلم میت کو مرگھٹ تک آرتھی لے کر پہونچانا، اور ہندوؤں کی طرح اسے جلا دینا شروع کیا ہے، کیا اسلام ان کو اس کی اجازت دیتا ہے؟ کیا یہ رواداری ہے؟ ہرگز یہ روداری نہیں،بلکہ” مداہنت "اور” تشبہ بالکفار” ہے،جو حرام ہے۔ ملا علی قاریؒ فرما تے ہے کہ” جو لباس میں یا وضع قطع میں یا رہن سہن میں غیروں کی مشابہت اختیار کرلےتو وہ گناہ میں ان کے ساتھ برابر کا شریک ہے”(مرقاۃ المفاتیح ۸/۱۵۵)مفتی کفایت اللہ صاحب ؒفرما تے ہے کہ” غیر مسلموں کی تجہیز وتکفین اور جنازہ کے ساتھ چلنے اور اُس کے جلانے میں شرکت کرنے یا اِس سلسلہ میں اُس کا مالی تعاون کرنے کی شرعاً اِجازت نہیں ہے، اِس لئے کہ یہ چیزیں اُن کے مذہبی شعائر میں داخل ہیں، اگر کوئی مسلمان اس میں شرکت کرے تو وہ سخت گناہ گار ہوگا، جس کے لیے اس پر توبہ و استغفار ضروری ہوگا۔(مستفاد ازکفایت المفتی:۴/۲۰۳)
اور مفتی شفیع صاحب ؒ "ولاتصل علی احد منھم” کی تفسیر میں فرما تے ہے” اگر کسی مسلمان کا کافر رشتہ دار مرجائے اور اس کا کوئی ولی وارث نہ ہو تو مسلمان رشتہ دار کو اسی طرح بغیر رعایت طریق مسنون کے گڑھے میں دبا سکتا ہے(معارف القرآن ولاتصح علی احد منھم مات) البتہ غیر مسلم کی عیادت وتعزیت میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ آپﷺ بنو نجار کے ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے جو غیر مسلم تھا ﴿مسند احمد : ۳/۱۵۲ ﴾ اور ہدایہ میں ہے
“یہودی اور نصرانی کی عیادت میں کوئی حرج نہیں ہے ، اس لیے کہ یہ ان کے حق میں ایک طرح کی بھلائی اور حسن سلوک ہے ، اس سے ہمیں منع نہیں کیا گیا ہے ۔”   ہدایہ : ۴/۴۷۲
خلاصہ یہ کہ
غیر مسلم کی تجہیز وتکفین میں شریک ہونا اور مالی تعاون کرنا ہر گزجائز نہیں
غیر مسلم میت کو اولا ان کے ہم مذہب وارثوں کے سپرد کردیا جائے ، اوراگر کوئی نہ ہو تو ایک کپڑے میں لپیٹ کر بغیر کسی ہندوانہ رسم وطریق مسنون کے اسے زمین میں دبا دیا جائے۔
غیر مسلم میت کا احترام کرنا چاہیے ۔ جیسے ایک مرتبہ ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو رسول اکرمﷺ کھڑے ہوگئے ۔ صحابہ نے عرض کیا: یہ تو یہودی کا جنازہ ہے ۔ آپﷺ نے فرمایا : آخر وہ بھی تو انسان تھا “ ان فیہ لنفساً”﴿ صحیح بخاری ، بحوالہ مشکوٰۃ : ۷۴۱ ﴾ یعنی ہم نے انسانیت کا احترام کیا ہے اور انسان ہونے میں تمام نوع بنی آدم یکساں ہیں۔
غیر مسلم مریض کی عیادت کرنا ،اور اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا جائز ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے