تحریر: عبدالرشید مصباحی
قیامت سے پہلے قیامت کا منظر
گذشتہ قسط میں آپ نے پڑھا کہ کرونا مہاماری ولاک ڈاؤن کا عالمی منظر نامہ کسی قیامت نما منظر سے کم نہیں! کیونکہ آج امریکہ,اٹلی ودیگر یورپین ممالک میں انسانی لاشوں کا ڈھیر دیکھ کر تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ "قیامت سے پہلے قیامت کا منظر ہے "
اب ایسے قیامت خیز ماحول میں ‘جب کہ پوری دنیاتباہی کے دہانے پر کھڑی ہے ‘ ہم اپنے گھروں میں مرغن غذاؤں سے لطف اندوز ہوتے رہیں,حسب روایت عید کی تیاری میں شاپنگ مال و مراکیٹوں کی سیر کرتے رہیں اور ہمارے بھائ فاقہ کشی کے شکار ہو رہے ہوں, اپنا وطن مالوف چھوڑ کر پردیسوں میں جو اپنے بچوں کے ساتھ کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہوں, اور لاچاری میں گداگری پر مجبور ہوں تو ضرور ہمارا ضمیر مردہ اور ہماری انسانیت دم توڑ رہی ہے.
اس معاملہ میں آپ حق بجانب ہیں کہ یہ مال ودولت جو کچھ آپ نے کمایا ہے سب پر آپ کا حق ہے جسے آپ حسب منشاء اپنے اور اپنے اہلنوعیال پر خرچ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں!
مگر سوچئے ان غریبوں مزدوروں وفقیروں کے بارے میں جو رمضان میں آپ کے سہارے بیٹھے ہیں, لاک ڈاؤن کے چلتے جن کی یومیہ مزدوری بھی متاثر ہوچکی ہے اور لوگ دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں , اپنے ننھے منے بچوں کے بھوک اور پیاس کو دیکھ کر جن ماؤں کی رات کی نیندیں حرام ہوگئ ہیں, اور وہ غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر اپنے ان معصوموں کی زندگی کا صدقہ مانگتی پھر رہی ہیں وہ رمضان المبارک کے اس صبر واستقلال والے مہینہ میں کسی مسیحا کی مسیحائ کا انتظار کر رہی. ہیں
اب اگر آپ ان کی مسیحائ نہیں کریں گے تو بھلا کون کرے گا ؟
ماہ صیام کا تقاضہ
کیا کبھی آپ نے سوچا کہ یہ رمضان اور اس میں صدقات وفطرات کی ادائیگی کےحکم کا تقاضہ کیا ہے؟ ,
پورے دن بھوک وپیاس کی شدت برداشت کرنا, قبل افطار دستر خوان کا طرح طرح کی نعمتوں سے مزین ہونے کے باوجود ان نعمتوں سے کنارہ کش ہو کر راضی بحکم الہی ہونے کا تقاضہ کیا ہے ؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ رمضان المبارک صبر واستقامت,ایثاروقربانی و انسانی ہمدردی کے احساسات کا مہینہ ہے جو انسان کے اندر مادی ومعنوی لحاظ سے بہت اثر انداز ہوتا ہے جن میں سب سے اہم اخلاقی پہلو و وتربیتی فلسفہ بھی ہے ,جس کے ذریعہ انسانی روح میں لطافت اور اس کی قوت ارادی میں مضبوطی وخواہشات میں اعتدال پیدا ہونا چاہئے.اور جب بندۂ مومن روزہ کے عالم میں سرکش خواہشات اور انسانی جذبات پر کنٹرول کرکے لَعَلّکُمْ تَتّقُونْ کی عملی تفسیر بن جاتا ہے تو اس کے بدلے میں اللہ رب العزت اس روزہ کو اس کے لئے ڈھال بنا دیتا ہے. "الصَّوْمُ جُنَّۃُ مِنَ النَّارْ "کا پیغام یہی ہے.
مذکورہ تمہید کی روشنی میں ہمارے سامنے کئ طرح کے چیلنجز ہیں جن کا سامنا آج ہمیں ہر حال میں کرنا ہے.
بتقاضائےصوم رمضان سب سے پہلے اپنے اخلاقی قدروں کی بحالی کے لئے سعی پیہم کرنا ہے. اور خدمت خلق کے جذبہ کی نشو نما کے لئے اپنے نفسانی خواہشات کو قربان کرکے اپنی قوت ارادی کی تربیت کرنا ہے.
اور اسی تناظر میں ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ لاک ڈاؤن period میں ” باوجود اس کے کہ کرونا کے معاملات میں دن بدن اضافہ ہی ہو رہا ہے ” Shoping Mall , Super markeets ,جوتے وچپل کی دکانیں کھولنے کی رعایت دینا اور مارکیٹوں میں مسلمانوں کو ازدحام کے مواقع فراہم کرنا کسی بڑی سازش کا ہی شاخسانہ معلوم ہوتا ہے .اب اس کے بعد اگرہم اس سازش کا شکار ہوکر حسب سابق خریداری کے لئے بازاروں میں جم غفیر کا حصہ بنے تو پھر گودی میڈیا کروناو سوشل Distancing کی خلاف ورزی کا سارا ٹھیکرا آپ پر ہی پھوڑ کر اسلام ومسلمانوں پر لعن طعن کرنا شروع کر دے گی جو کہ سازشا تبلیغیوں کے بہانے مسلسل جاری بھی ہے.اور یہ اسی میڈیائ پروپیگنڈہ کا ہی نتیجہ ہے کہ آج شب وروز Tv چینلوں پر اسلام اور مسلمانوں کو گالیاں دی جارہی ہیں , راہ چلتے مسلمانوں پر کرونا پھیلانے کی پھبتیاں کسی جا رہی ہیں, مالم سبزی فروشوں ودکانداروں کے ساتھ جانبدارانہ رویہ برتا جا رہا ہے اور انھیں غیر مسلم محلوں اور گاؤں سے مطعون کرکے اور مار پیٹ کر بھگایا جا رہا ہے,اسی گودی میڈیا نے پورے ملک میں نفرت کی ایسی کاشت کاری کی ہےکہ گاؤں ودیہاتوں کے لوگ جن کا صبح وشام ساتھ میں اٹھنا بیٹھنا تھا آج وہی لوگ مسلمانوں سے نفرت کررہے ہیں اور ان سے ترک موالات ومعاملات کر رہے ہیں ,جس کے نتیجہ میں آج پورا ملک نفرت وعداوت کی مسموم ہو اسے گرد آلود ہو چکاہے۔
ایسے ماحول می
ں اگر اب بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو پھر اس وطن عزیز کو بھی برما ومیانمار بننے سے کوئ نہیں بچا سکتا۔
سیاسی چالوں سے با خبر رہنے کی ضرورت
اب اگر کچھ بھی ہوشمندی وغیرت مندی باقی ہے تو آئیے مل کر عہد کریں اور عزم مصمم بھی کہ یہ رمضان اور عید سادگی سے گذاریں گے اور نئے کپڑے ,نئے سوٹ بوٹ , تو بالکل نہیں پہنیں گے , مرغن,پر لطف ومتنوع پکوان کے پیسہ بچا کر غریب ونادار ,مفلس ولاچار اور کسی بھی جہت سے کہیں بھی پریشان حال کی امداد واعانت کریں گے اور اس رمضان ایثار وقربانی,صبر واستقامت کی ایسی مثال پیش کریں گے کہ رہتی دنیا تک جسے یاد کیا جاتا رہے گا
اسراف سے ہمیشہ قابل گریز
اسلام ہر شعبہ حیات میں سادگی، اعتدال اور میانہ روی کی تلقین کرتا ہے۔ فضول خرچی، عیش و عشرت اور نمود و نمائش سے نہ صرف منع کرتا ہے بلکہ اس کی شدید مذمت بھی کرتا ہے۔
فضول خرچی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے
يَا بَنِي آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
’’اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتاo‘‘
الاعراف، 7 : 31
فضول خرچی کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ سخت تنبہیہ کی گئی ہے اور ایساکرنے والوں کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَآتِ ذَا الْقُرْبَى حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًاO إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًاO
’’اور قرابتداروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤo بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے‘‘
بنی اسرائيل، 17 : 26، 27
اسلام ہر شعبۂ زندگی کی طرح مال خرچ کرنے میں بھی اعتدال اور میانہ روی کا درس دیتا ہے، چنانچہ فرمایا گیا
وَلاَ تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلاَ تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا
’’اور نہ اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھا ہوا رکھو (کہ کسی کو کچھ نہ دو) اور نہ ہی اسے سارا کا سارا کھول دو (کہ سب کچھ ہی دے ڈالو) کہ پھر تمہیں خود ملامت زدہ (اور) تھکا ہارا بن کر بیٹھنا پڑےo‘‘
مذکورہ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ کسی بھی معاملہ میں فضول خرچی واسراف سے کام لینا اللہ کے نزدیک بے حد ناپسندیدہ ہے۔
سورۂ بنی اسرائیل کی روایت میں جہاں ایک طرف اسراف سے بچنے کا حکم دیا گیا وہیں دوسری طرف کفایت شعاری سے کام لیکر اپنے مال میں سے قرابت داروں ومفلسین و ناداروں کی اعانت کی تلقین کی گئ ہے۔
نیز "ولا تجعل یدک۔۔۔۔۔۔۔
والی آیت میں حکم ہوا کہ اگر کفایت شعاری سے کام نہیں کروگے تو ایک دن تم خود رنج وملال میں مبتلا ہوکر بئٹھ جاؤگے۔
اسی لئے اس تناظر میں ہم کہ سکتے ہیں کہ آج پوری ملت لاچاری وکسمپرسی کی زندگی جو گذارنے پر مجبور ہے یہ ہمار انھیں سابقہ کوتاہیوں وفضول خرچیوں کا نتیجہ ہے
فضول خرچی کیا ہے ؟
رب العالمین نے اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے جو اسباب و وسائل عطا کیے ہیں، ان کے تعلق سے اسی نے یہ ہدایت بھی دی ہے کہ ان کے استعمال میں افراط و تفریط سے پرہیز کیا جائے۔ اسی افراط وتفریط کو فضول خرچی یا اسراف و تبذیر کہا جاتا ہے اور تفریط کو بخل یا تقتیر کا نام دیا جاتا ہے۔ اسراف و تقتیر یہ دونوں مذموم حدیں ہیں، انھیں چھوڑ کر انسان کو میانہ روی، اعتدال اور توازن کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔
اس لئے یہ اعتدال پسندی ومیانہ روی ہمیشہ ہونا چاہئے۔
جاری