ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات

تحریر: زین العابدین ندوی
اس وقت پوری دنیا میں مذہب اسلام شیطان صفت انسانوں کی آنکھوں کا کانٹا بنا ہوا ہے، ہر طرف اسے مٹانے کی سازش اور اس کے نام لیواوں کو نیست ونابود کرنے کے منصوبے تیار کئے جا رہے ہیں، ملک ہندوستان کی صورتحال تو آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے، جہاں ہر مسئلہ کا بس ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے مسلمان،ملک میں کورونا پھیلانے کا احمقانہ اور بے بنیاد الزام لگا کر جس طرح مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، حکومت، عدالت اور صحافت جس بد دیانتی کا ثبوت دے رہے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ افسوسناک ہے بلکہ انسانیت کو شرمسار کرنے والا ایک گھناؤنا عمل ہے، مسلمانوں سے آخر یہ سراسیمگی کیوں ہے؟ لوگوں کے دلوں میں اسلام کے تئیں نفرت کی بیج کیوں بوئی جا رہی ہے، ہو سکتا ہے قارئین کے ذہنوں میں اس کے مختلف جوابات ہوں، لیکن اس کا سادہ سا جواب بس یہی ہے کہ ان کی یہ حرکتیں خود ان کے ہی خوف و ہراس کا پتہ دیتی ہیں، انہیں خطرہ اسلام اور مسلمانوں سے اس لئے ہے کہ مسلمانوں نے ہی ان کی نا جائز سلطنتوں کا خاتمہ کیا تھا، ہندوستانیوں کو ان کے ظالمانہ رویہ سے چھٹکارا دلایا تھا، ملک ہندوستان کو جبر وتشدد اور طبقاتی جابرانہ نظام سے آزاد کیا تھا، اسلامی عزم و حوصلہ اور ثبات و استقامت کے سامنے ان کے پاوں پھولنے لگتے ہیں، کیونکہ انہوں نے ہم سے زیادہ ہماری تواریخ کا مطالعہ کیا ہے، انہیں یہ یقین ہے کہ اگر یہ قوم بیدار ہو گئی اور اپنے رشتہ کو مالک دوجہاں سے مضبوط کرلیا تو پھر کوئی بھی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی، اس لئے ان کی یہ پوری کوشش ہے کہ ہمیں خوف و ہراس کا شکار بنایا جائے۔ 
ان سخت ترین دشوار کن حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم کبھی بھی اپنے دماغ میں یہ نہ لائیں کہ حکومت ہمارے ہاتھ میں نہیں اس لئے ہم کچھ نہیں کر سکتے، صحافت پر ہمارا قبضہ نہیں اس لئے ہم اپنی بات نہیں رکھ سکتے، نہیں ہر گز نہیں ہمارے ساتھ رب العالمین کی طاقت ہے، اس جہاں کا پالنہار ہمارا ناصر ومددگار اور سازگار ہے، جس کے ارادہ کے بغیر جہان کا ایک پتہ بھی حرکت نہیں کر سکتا، ہمیں ہر حال میں یہ سبق یاد رکھنا ہےکہ سختیاں بلند ہمتی کا پیغام دینے کے لئے ہی آیا کرتی ، صبر آزما مراحل ہمیں سنبھلنے کا موقع فراہم کرتے ہیں، پھولوں کی طرح کھلنے کے لئے کانٹوں کا سفر کرنا ضروری ہوتا ہے، جس سے گھبرانے کے بجائے مزید قوت حاصل کرنا ایک مومن کی شان ہے۔ 
باطل طاقتیں ہر نفس امت مسلمہ کی بیداری سے ڈرتی ہیں کیونکہ اس کی بیداری ان سب کے لئے موت کا پیغام ہوا کرتی ہے، اور ہمارا یہ خاصہ ہے اور ہونا چاہئے کہ باطل کے سامنے ہم کبھی اپنے کو کمزور نہ جانیں، ہمارے پاس خدا کی ہدایات وفرامین اور اس کے وعدہ حسنی ہیں، جس کی بدولت ہم ہر ایک سے ٹکرانے کی طاقت رکھتے ہیں، مگر آخر میں بہت افسوس کے ساتھ یہ کہوں گا کہ آج یہ دن ہمیں اپنے ہی ناعاقبت اندیش لوگوں کے سبب دیکھنا پڑ رہا ہے، امت مسلمہ کی موجودہ بدحالی کا ذمہ دار ہمارے سوا کوئی نہیں، ہم نے ہی اپنے نشیمن کو پھونکنے کی شروعات کی، ہم نے ان تمام گندی خصلتوں کو اپنی فطرت ثانیہ بنا لیا ایک مسلم کے لئے جن کا تصور ناممکن ہے، ہمارے درمیان ہماری ہی شکلوں میں ایسے اژدہے ناگ موجود ہیں جنہوں نے بدتمیزی اور بدکرداری میں ساری دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا، وہ شکلا تو فرشتے معلوم ہوتے ہیں مگر ان کے دل بھیڑوں سے بھی زیادہ خونخوار ہیں، اسلامی قلعہ سمجھے جانے والے بعض مدارس اسلامیہ کو جنہوں نے اپنی جاگیر سمجھ لیا ہے، اور خود کو خدا سمجھنے کی بھول میں مست ہیں، جن کا کام یہ تھا کہ وہ احتساب کائنات کا فریضہ انجام دیتے انکا حال یہ ہے کہ وہ محاسبہ نفس کی طاقت سے بھی محروم ہیں، جس کی وجہ سے ان کی آنکھیں حق بات دیکھنے سے اندھی کان حق بات سننے سے بہرے اور دل حق بات سمجھنے سے عاجز ہو چکے ہیں، اور وہ حق و ناحق کے درمیان فرق کرنے سے کوسوں دور جا چکے ہیں، ایسے ہی گھٹیا لوگوں کی حرکتوں نے ہمیں آج یہ دن دیکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ 
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں نیک نیتی سے دین اسلام پر قائم رہنے والا بناے۔ آمین یارب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے