تحریر: محمد ظفر نوری ازہری
١٤ اپریل کو جیسے ہی لوک ڈاؤن کی تاریخ بڑھی ادھر مسلمانوں کی بھی بیچینی بڑھنا شروع ہو گئی پھر کیا تھا لوگوں کے دھڑا دھڑ کالز و میسیجیز آنا شروع ہوگئے سب کو بس ایک ہی فکر تھی کہ تراویح کی نماز کا کیا ہوگا؟ تراویح کی نماز کس طرح ادا کی جائے گی؟ اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے تو ان شاء اللہ آج کچھ باتیں تراویح کے حوالے سے بیان کریں گےکہ آخر لوگ تراویح کے لئیے اتنا فکر مند کیوں ہیں؟
قارئین کرام!
سب سے پہلے ہم لفظ تراویح کو سمجھتے ہیں کہ تراویح کا کیا مطلب ہوتاہے تو لفظ "تراویح” کی تشریح کرتے ہوئےامام ابن حجر العسقلانی علیہ الرحمہ(متوفی۸٥۲ھ) اپنے تحقیقی انداز میں اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ "تراویح، ترویحہ کی جمع ہے اور ترویحہ کے معنی: ایک دفعہ آرام کرنا ہے، جیسے تسلیمہ کے معنی ایک دفعہ سلام پھیرنا۔ رمضان المبارک کی راتوں میں نمازِ عشاء کے بعد باجماعت نماز کو تراویح کہا جاتا ہے، کیونکہ صحابہٴ کرام کا اتفاق اس بات پر ہوگیا کہ ہر دوسلام (یعنی چار رکعت ) کے بعد کچھ دیر آرام فرماتے تھے” ۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب صلاة التراویح)
رمضان المبارک کا چاند نظر آتے ہی رحمتوں اور برکتوں کا موسم شروع ہوجاتا ہے نہ صرف زمین بلکہ آسمانوں پر بھی رمضان کی آمد کا جشن منایا جاتاہے اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں جکڑدیا جاتا ہے اس ماہ مبارک کے شروع ہونے کے بعد سب سے پہلے ہم جس عبادت سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہ تراویح ہی ہے. تراویح چاند دیکھنے کے بعد سے ہی شروع ہوجاتی ہے کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آخر ! تراویح چاند دیکھنے کے بعد کیوں شروع ہوجاتی ہے؟ ایسابھی ہوسکتا تھا کہ چاند دکھنے کے بعد اگلے دن روزہ رکھنے کے بعد رات میں تراویح پڑھی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے بلکہ رمضان کی عبادت تراویح سے شروع ہوتی ہے ایسا اس لیے ہے کہ روزہ "فرض” ہے اور تراویح "سنت” ہے اور رب کی رحمتوں نے یہاں یہ سمجھایا کہ اس ماہ مبارک کی عبادت کا آغاز سنت مصطفی سے کیا جائے تاکہ فرض عبادت کے لطف میں اور چار چاند لگ جائیں! سبحان اللہ تعالی!
تراویح کی نماز اس لئے بھی اہم ہے کہ یہ نماز صرف ماہ رمضان میں ہی ادا کی جاسکتی ہے باقی گیارہ مہینوں میں ادا
نہیں کی جاسکتی ہے اس لئے لوگ اس کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں اور تراویح کی نماز "سنت مؤکدہ” ہونے کی وجہ سے اس کی "قضاء” نہیں پڑھی جاسکتی ہےتو اس لئے بھی رمضان شریف میں اس کا خاص طریقے سے اہتمام کیا جاتاہے!
تراویح کی نماز کی احادیث کریمہ میں بہت فضیلتیں آئی ہیں ان میں سے صرف ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں:
(1)عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ”(بخاری ، ومسلم) ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو کوئی (رمضان کی راتوں میں) ایمان اور احتساب نفس کے ساتھ عبادت کرے گا اللہ اس پچھلے گناہ معاف فرمادےگا” یعنی گناہ صغیرہ معاف فرمادےگا اور تراویح کی نماز سے روزہ دار کے درجات بلند ہوجاتے ہیں دن بھر بندہ روزے سے رہتا ہے افطار کے بعد اسے بستر سے اچھی کوئی چیز نہیں لگتی ہے ابھی وہ اپنی پیٹھ بسترسے لگاتا ہی ہے کہ مسجد سے مؤذن کی آواز اس کے کانو میں آجاتی ہے اور پھر وہ تراویح کے لیے تیار ہوجاتا ہے تو ایسے عالم میں اللہ کی رحمت اس پر موسلا دھار بارش کی طرح برستی ہے اور اسی بارش میں اس کے گناہ صغیرہ کے میل کچیل دھل جاتےہیں وہ رحمت کی بارش میں نہا کر خوب طیب وطاہر ہوجاتا ہے!
اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی جانتے چلیں کہ تراویح کی نماز کتنی رکعت پڑھنی ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے طرز عمل سےبیس رکعات نماز تراویح ثابت ہے ناکہ آٹھ رکعات ہے اور امام عبد الوہاب شعرانی علیہ الرحمہ ۲۰ رکعت تراویح کے تعلق سے یہ فرماتے ہیں” امام اعظم امام شافعی امام احمد ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہم کا قول ہے” ان صلاۃ التراویح فی شہر رمضان عشرون رکعة” یعنی نماز تراویح رمضان المبارک میں ۲۰ رکعت ہے”(میزان الکبری) اور امام مالک رضی اللہ عنہ نے بھی ۲۰ رکعت کے قول کو پسند فرمایا(بدایۃ المجتہد)
شیخ ابراہیم الحلبی الحنفی صاحب بحر الرائق(متوفی ۹٥٦) نے ۲۰ رکعت تراویح کی یہ حکمت بیان فرمائی ہے کہ”دن اور رات میں فرض واجب اور سنت نمازوں کی رکعت کی تعداد ۲۰ ہے اسی مناسبت سے تراویح کی رکعت بھی ۲۰ ہےتاکہ مکمل اور مکمل کے درمیان یکسانیت ہوجائیے (بحر الرائق جلد۲)
اور اس سلسلے میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ ن
ے بڑی دلچسپ بات بیان فرمائی ہے”تراویح ترویحہ کی جمع ہے ترویحہ ہرچار رکعت کے بعد کچھ دیر بیٹھ کرراحت کرنے کو کہتے ہیںراویح آٹھ رکعت ہوتی تو بیچ میں ایک ترویحہ ہوتا اس صورت میں اس کا نام تراویح جمع نہ ہوتا کیونکہ جمع کم سے کم تین پر بولا جاتا ہے”(جاء الحق)
جیساکہ آپ کو معلوم ہے کورونا وائرس کی وجہ سے پورےملک میں ٣ مئی ۲۰۲۰ تک لوک ڈاؤن ہے اس صورت حال میں تراویح کی نماز کس طرح ادا کی جائےگی سب کےذہنوں میں اس وقت یہی مسئلہ گردش کر رہا ہے اس مسئلے کو بھی سمجھ لیں ” تراویح کی نماز سنت مؤکدہ ہے (مرد عورت دونوں کے لیے) بغیر عذر شرعی کے تراویح چھوڑنا جائز نہیں چاہے لوک ڈاؤن ہو یا نہ ہو (درمختار مع رد المحتار جلد ۲) اور جب "تراویح” کے لئے جماعت شرط نہیں ہے تو تراویح کی نماز تنہا تنہا بھی پڑھ سکتے ہیں تراویح کی جماعت سنت کفایہ ہے اگر مسجد میں سب لوگ چھوڑ دیں گے تو سب گنہگار ہوں گے اور اگر کسی ایک نے بھی گھر میں تنہا پڑھ لی تو سب گہنگار نہیں ہوئے اور تارکِ سنت بھی نہیں ہوئے اور جس نے تنہا پڑھی اسے جماعت کا ثواب نہیں ملے گا (فتاوی ہندیہ جلد ١)
المختصر لوک ڈاؤن میں جس طرح نماز پنجگانہ جتنے لوگ مسجدوں میں پڑھ رہے ہیں اسی طرح تراویح کی نماز بھی پڑھیں گے باقی لوگ اپنے اپنے گھروں پر پڑھیں گے اگر گھرمیں ہی کوئی شخص ایسا ہو جو از روئے شرع امامت کے فرائض انجام دے سکے تو گھروں میں تراویح کی جماعت بھی ہوجائے گی لیکن سماجی دوری ہر حال میں ضروری ہے ۔
یہ چند باتیں تراویح کے حوالے سے تھیں مولی ہمیں نماز تراویح سے کما حقہ فیضیاب فرمائے (آمین