تحریر:شاہ خالد مصباحی
قارئین!! جیسا کہ آپ نے قسط چہارم میں آپریشن میجک کارپٹ کے تعلق سے پڑھا جس کا سارا عمل در آمد یہودی النسل کی بقا اور تحفظ کے لیے دنیا بھر میں مختلف آپریشن کی شکل میں اک مہم چلائی گئی تھی جو زور و شور سے 1947 سے 1950 تک چلی تھی مگر اس سے قبل عالمی سانحوں میں جس واقعہ کا تذکرہ پورے گمبھیر روپ سے ملتا ہے وہ جرمنی کی سرزمین پر یہودیوں کے قتل عام سے جانا جاتاہے جس کی ابتدا 1939 سے ہٹلر کی سپہ سالاری میں نازی جماعتیں ، نئی آبادی بسانے کے چکر میں ، یہودیوں کو ٹارگیٹ بناکر ، پولینڈا پر حملہ زن ہوئے* ۔۔۔
بایں صورت کہ جرمنی کے منصوبہ سازوں نے نومبر 1939ء میں نعرہ لگایا کہ “پولینڈ کے باشندوں کی مکمل تباہی سے کم کچھ بھی منظور نہیں“۔
اور ہنرچ ہملر نے اس موقع پر قسم کھائی کہ “پولینڈ کے تمام باشندے اس دنیا سے غائب ہوجائیں گئے۔“ پولینڈ کی ریاست کو جرمنی قبضہ کرکے پولینڈ کے باشندوں سے پاک کر دے گی اور جرمنی کی بستیاں بسانے والوں کو جرمنی کی بستی بنانے کی ایک اور بستی مل جائیگی۔
اسی منصوبے کو لے کر یہ فرمان جاری کیا گیا کہ 1952ء تک صرف تیس سے چالیس لاکھ (3سے 4 ملین) پولینڈ کے باشندوں کو پولینڈ میں رہنے دیا جائیگا اور وہ بھی محض اس لیے کہ وہ جرمنی سے آنے والے باسیوں کے غلام بن کر رہیں۔ اور یہاں تک کہ پولینڈ کے باشندوں کے شادی کرنے اور کسی بھی قسم کی طبی امداد لینے پر پابندی ہوگی اور اسی طرح کی پابندی پولینڈ کے باشندوں پر جرمنی میں بھی عائد کی جائیگی اور اس طرح رفتہ رفتہ پولینڈ کے باشندوں کو بالکل ختم کر دیا جائیگا۔ *22 اگست، 1939ء جنگ سے تقریباً ایک ہفتہ قبل، ہٹلر نے مشرقی حصے میں ان تیاریوں کو حتمی شکل دیتے ہوئے، میرا سربکف نامی خصوصی دستہ بناتے ہوئے احکامات جاری کیے کہ تمام عورتوں، بوڑھوں، پولینڈ نسل کے بچوں اور پولینڈ کی زبان بولنے والوں کو بلا تاسف یا رحم قتل کر دیا جائے*۔ یہی ایک راستہ ہے جرمنی کی نئی بستی کے لیے
جگہ حاصل کرنے کا۔ تاہم پولینڈ نژاد باشندوں کا قتلِ عام اتنے بڑے پیمانے پر نہیں کیا گیا کہ جتنے بڑے پیمانے پر یہودی یا یہودی نژاد افراد کا کیا گیا۔
*یعنی جنگ کے دوران پولینڈ میں ہونے والے نقصان میں جنگ سے پہلے کی مردم شماری کے مطابق پولینڈ اپنی سولہ فیصد آبادی سے محروم کر دیا گیا۔، چونتیس لاکھ میں سے اکتیس لاکھ پولینڈ نژاد یہودی (%90) اور بیس لاکھ (%6) غیر یہودی پولینڈ نژاد باشندے جرمنی کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ اور ہلاک ہونے والوں میں نوے فیصد (%90) سے زائد عام شہری تھے کیونکہ جرمنی اور سوویت کی افواج نے جان بوچھ کر عام شہریوں کو اپنی کارروائیوں کا نشانہ بنایا تھا۔*____
حتی کہ اس قتل کے وجوہات پر جیمس ڈی اسٹیکلی کی تبصرے کے ذریعے یہ بات معلومات میں آتی ہے کہ جرمنی کا اصل مسئلہ مجرمانہ کردار نہیں بلکہ مجرمانہ افکار تھا اور "gesundes Volksempfinden” (لوگوں کی معقول صحت) ایک نمایاں ڈھال بن گیا اور اس طرح سے یہ ایک عام قانون کی طرح لاگو ہو گیا۔
اور دیکھتے ہی دیکھتے 1936ء میں ہنرچ ہملر نے مرکزی دفتر برائے انسدادِ ہم جنس پرستی و اسقاطِ حمل قائم کیا اور ہم جنس پرستی کو صحت کے لیے نقصان دہ قرار دے دیا گیا۔ اور جیسا کہ یہ بتایا جاتا ہے کہ ہم جنس پرستتی یہودیوں کی خمیر میں شامل ہے ۔
اور آخر کار ہم جنس پرستوں کو “پراگندہ جرمن خون“ قرار دے دیا گیا۔
*اورگسٹاپو_نے_ہم_جنس_پرستوں_کے_مےخانوں پر چھاپے مارے اور اُن سے کڑی در کڑی ہم جنس پرستوں کو گرفتار کرتے چلے گئے، ہم جنس پرستی کے جرائد کے صارفین کی فہرستیں بھی اس امر کے لیے استعمال کی گئیں اور عوام میں ہم جنس پرستی کی فوری شکایت درج کرانے کی حوصلہ افزائی کی گئی، یہاں تک کہ ہم جنس پرستوں کے پڑوسیوں تک پر کڑی نظر رکھ کر اُن کے عمل و کردار کی جانچ پڑتال کی کہ کہیں اُن میں یہ خرق عادت تو نہیں۔*
*پھر یہی سے جرمنی جنگ کا نقشہ شروع ہوتا کہ 1933ء سے 1944ء کے دوران ہزاروں لوگوں کو سزا کے طور پر کیمپوں میں “بحالیء صحت“ کے لیے بھیج دیا گیا، جہاں اُن کی شناخت کے لیے ہاتھوں میں پیلے رنگ کی ڈوری باندھ دی جاتی، پھر بعد میں ایک گلابی رنگ کا تکون نشان اُن کی صدری (جیکٹ) کی بائیں جانب سینے پر اور پاجامے پر دائیں ٹانگ کی جانب لگا دیا جاتا، جس کا مطلب ہوتا تھا کہ اب نشان دہندہ کی صحت بحال ہوچکی ہے*۔
اور سینکڑوں عدالتی احکامات کے تحت آختہ کاری کرکے بانچھ یا جنسی اعضاء سے محروم کر دیے گئے۔
اُن کی تذلیل کی گئی، تشدد کیا گیا اور انگیزیاتی تجربات میں استعمال کیا گیا جو ایس ایس کے معالجوں نے منعقد کیے اور ان کو قتل کر دیا۔
اور جس کی ح
قیقتوں کو مرگ انبوہ ، ہالوکاسٹ جیسے تاریخ کے اوراق میں چھپے لفظوں میں سمیٹا گیاہے ۔جس سے بالکلیہ عیاں ہوتا ہے کہ جرمنی جنگی نقشے کی تفہیم کے لیے مرگ انبوہ ، ہالوکاسٹ جیسے لفظوں پر روشنی ڈالنے کی بے حد ضرورت ہے _
قارئین! مرگ انبوہ جسے انگریزی زبان میں ہالوکاسٹ کہا جاتا ہے یہ دوسری جنگ عظیم کے دوران ساٹھ لاکھ یہودیوں کی تباہی کے لیے بنایا گیا نظام تعدیم تھا۔1933 تک نوے لاکھ یہودی یورپ کے اکیس (21) ممالک میں پھیلے ہوئے تھے جو جنگ عظیم کے دوران جرمنی کے زیر تسلط آ گئے۔ دوتہائی یہودی قتل کردیے گئے تھے، جن میں پندرہ لاکھ بچے بھی شامل ہیں۔ جس میں سے بارہ لاکھ بچے یہودی دیگر ہزاروں خانہ بدوش اور معذور بچے بھی شامل تھے۔”
*اور یہی لفظ دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی افواج کے مظالم کا شکار ہونے والے دیگر نسلی و گروہی مظلوموں کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ یہودیوں کی نسل کشی قتل عام کی بھیانک مثال بن گئی اور اس طرح سوہ یا مرگ انبوہ نازی حکومت کے اُن اقدامات سے منسوب ہو گئے جو یورپی یہودیوں کوبرباد کرنے کے لیے دوسری جنگ عظیم کے دوران کیے گئے تھے۔۔*۔ سب سے پہلے اس اصطلاح کا تاریخی تناظر میں استعمال کرنے والے یروشلم کے مورخ بینزیوں ڈائنر (دینابرگ) تھے، جس نے 1942 میں کہا کہ مرگ انبوہ ایک “عذاب“ تھا، جس نے یہودیوں کو دنیا بھر کی اقوام عالم میں ایک انوکھی صورت حال سے دوچار کیا، جو کہ بے نظیر ہے۔_
*جس میں نازیوں کے زیرنگیں تمام علاقوں میں مذبح خانے تھے، جہاں انسانی ذبیحہ کیا جاتا تھا، اب اُن علاقوں میں 35 مختلف یورپی ممالک موجود ہیں۔ اور مشرقی یورپ کے لیے بدترین وقت تھا، 1939ء یورپ میں تقریباً سترلاکھ (7ملین) یہودی آباد تھے، جن میں تقریباً پچاس لاکھ (5 ملین) یہودی مارے گئے۔ جس میں سے تیس لاکھ (3 ملین) پولینڈ میں قتل کیے گئے اور دس لاکھ (ایک ملین) سوویت یونین میں قتل کیے گئے ۔ اس کے علاوہ لاکھوں یہودی نیدرلینڈز، فرانس، بلجئیم، یوگوسلاویہ اور یونان میں قتل کیے گئے۔ وانسی پروٹوکول نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ وہ “یہودیوں کے سوال کا حتمی جواب“ کا یہ مشن انگلینڈ اور آئرلینڈمیں بھی کرنا چاہتے تھے*۔ *حتی کہ ہر اس انسان کو نسل کشی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، جس کی تین یا چار نسل قبل بھی دادا، دادی،نانا یا نانی کوئی بھی یہودی تھا۔ نسل کشی کے دوسرے واقعات میں لوگوں کو جان بچانے کے لیے مذہب تبدیل کردینے یا کسی دوسرے مذہب کو قبول کرلینے پر جان بخشی کردی جاتی تھی لیکن مرگِ انبوہ کے دوران مقبوضہ یورپ کے یہودیوں کے لیے یہ گنجائش بھی نہیں تھی۔ اور جرمنی کے زیرِ تسلط علاقوں میں یہودیوں سے نسب کے حامل تمام اشخاص کو نسل کشی کے نام پر قتل کر دیا گیا۔* _
*یہ تاریخ کی بد ترین داستان قتل ہے جس نے مذہب کو بنیاد بناکر انسان و انسانیت کو ظلم کا مارا بناکر ، پوری دنیا کو پھر سے جنگ و جدال ، فتنہ و فساد کے میدان میں لا اتارا تھا* _ ہر طرف ، بد امنیاں ، بد کرداریاں غریبوں کمزوروں لاچاروں کے ساتھ بد سلوکیاں کا اک رواج سا چل بسا تھا طاقتور ممالک غریب ملکوں کو ڈسنے میں ذرہ برابر بھی جھجھکتے نہیں تھے __ یعنی ہر لحاظ سے یہ دنیا پھر سے دور جاہلیت کے ظلم وستم کا رنگ و روپ لے رہی تھی لیکن یہ آبادی ابھی انسانیت سے خالی نہیں ہوئی تھی ، جس نے اپنی رحم دلی کا ثبوت دیتے ہوئے1945میں اقوام متحدہ کی بنیاد ڈالی ۔ اور تمام ممالک کے سربراہوں نے دنیا میں امن و شانتی ، اتحاد ، غریبوں و لاچاروں کی مدد اور ہر اس چیز کو کرنے کے لیے سب متحدہ ہوکر کھڑے ہوئے جس سے انسان اور انسانیت بحال رہے _
لیکن پھر دیکھا جا رہا ہے کہ جرمنی طرز طرایق سے ملک ہند ، وطن عزیز میں بھی اسی بنیادی قوانین شہریت کو ایسو بناکر مسلمانوں کے ساتھ ہٹلر شاہی کھیلنے کا کھیل جاری ہوچکا ہے جو این آر سی ، سی اے اے کی شکل میں ہم سب کی نظروں کے سامنے ہے _ ہمیں ضرور تاریج کے اس سوزناک پہلو سے، یہودیوں کے خلاف بنائے گئے ہٹلری منصوبے پر غورو فکر کرکے، اپنی سلامتی و حفاظت کے لیے اک سبق سیکھنا چاہیے___
ورنہ وہ دن دور نہیں کہ موجودہ وقت میں سرد پڑے ہوئے خون کے ندیوں کی سیلانی ہمارے ہی خونوں سے ہوں جس کے حقیقت کی داستان کو جرمنی کی زمین پر پڑھ لیا گیا اور جس کا ٹرائلز ہمیں وطن کی دھرتی ، آسام پر نظر آچکا ہے __
*اور واضح رہے کہ ہٹلر اور امراء وطن کے راستے بالکل ایک ہی ہیں یہ اور بات ہے کہ وہاں یہودیوں کے خون کی ندیاں بہیں تھی اور یہاں پر ہماری*___——–
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے