میری ڈائری: سفرنامہ کشمیر (قسط 1)
ازقلم: ابن الفظ، جھارکھنڈ
دہلی میں تقریباً ایک مہینہ قیام رہا اس دوران کئی تاریخی مقامات کی سیر کرنے کا موقع ملا جن کو دیکھنے کا برسوں سے انتظار تھا ، ساری چیزیں ۔۔سفرنامہ دہلی ۔۔ میں درج ہو چکی ہیں ،
اسی دوران کشمیر جانے کا بھی اتفاق ہوا ، میرے دو چچا زاد بھائی ایک بہنوئی جو فیملی کے ساتھ قریب بیس سال سے وہاں مقیم ہیں ، دہلی میں میرے آمد کی خبر سن کر مسلسل رابطہ میں رہے اور اپنے پاس آنے کی دعوت دینے میں زیادہ پر اصرار نطر آئے ، میری بھی بڑی تمنا تھی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے عازم سفر ہوا ،
ٹرین سے جانا تھا چھ سے آٹھ بجے تک کشمیر کی اور جانے والی ٹرینیں تھیں میں چار بجے آٹو رکشہ بک کرکے نکلا لیکن دہلی میں راستوں پر جمی بھیڑ اس بات پر راضی نہیں ہوئی کہ مجھے وقت پر اسٹیشن پہنچنے دیتی جگہ جگہ ریڈ لائن اور پھر وہ تنگ راستے جہاں تل رکھنے کی بھی جگہ نہیں ہوتی وہاں گاڑیوں کو ایسا لگتا ہے جیسے سکیڑ کر بھر دیا گیا ہو باہر کا مسافر گاڑیوں میں بیٹھا قسم کھا رہا ہوتا ہے کہ اب دوبارہ دہلی کا رخ نہ کرے ، سوئے اتفاق اس ٹرافک نے کشمیر کی اور جانے والی تمام گاڑیوں کو اپنے اندر نگل لیا ،
اب جانے کا واحد راستہ بس گاڑی تھی ، کشمیری گیٹ سے موسوم بس اسٹیشن کی راہ لی اندر داخل ہوئے اور گاڑی کی معلومات حاصل کی پتہ چلا کہ کشمیر جانے والی گاڑی کھڑی ہے اور نکلنا چاہ رہی ہے ، جلدی سے ٹکٹ لی اور اپنی سیٹ پر براج مان ہو گیا ، گاڑی روبہ سفر ہوئی اور دہلی کے راستوں کو الوداع کہتے ہوئے وادی کشمیر کا بگل بجا یا ،
سفر چاہے ٹرین کا ہو یا بس یا دیگر گاڑیوں کا مسافر مختلف مذاہب مختلف رنگ و نسل کے باوجود بھی سب ایک ہی ہوتے ہیں ، سب اپنے اپنے موضوع پر ماہر اور فنکار ہوتے ہیں ، اپنے تجزیات و تبصروں سے کبھی چوکتے نہیں ہیں ، تجربہ تو یہی رہا ہے کہ کوئی بھی موضوع ان کے یہاں نیا نہیں ہوتا لاعلم ہونے کے باوجود بھی مہارت کا ثبوت دیتے ہیں ، میں بھی اسی صف میں خود کو شامل کرکے اسی دنیا کا آدمی بن گیا اور زبان کو خشک نہیں ہونے دیا ، مختلف تجزیات اور تبصروں میں قریب آدھی رات گزرگئ احساس تک نہیں ہوا اچانک گاڑی ایک گراؤنڈ میں رکی کو پتہ چلا کہ لودھیانہ ہے ،
قریب آدھا گھنٹہ گاڑی رکی اجنبی بھی اپنے ہو چکے تھے سب ایک دوسرے سے خوش دلی کے ساتھ مل رہے نہیں معلوم یہ زبان کی تاثیر تھی یا کچھ اور ، ہوٹل میں کچھ ناشتہ وغیرہ ہوا ضروریات سے فارغ ہوئے گئے رات کی خنکی سے ذہن میں انبساط کی کیفیت پیدا ہوگئی ،
ابھی ٹہل ہی رہے تھے کہ گارڈ نے سب کو بیٹھنے کیلئے کہا جھٹ سے سب سوار ہوئے اور گاڑی دھیرے دھیرے اپنے رفتار میں آگئی اب آنکھیں جواب دے چکی تھیں نیند نے بسیرا ڈال دیا اور ہلکی پھلکی چھپکی سامنے کھڑی مسکرانے لگی ، سیٹ کے ایک کنارے میں بھی ان جھپکیوں کے ساتھ کھیلنا شروع کر دیا ، اسی کیفیت میں صبح کی پو پھٹی تو خود کو پٹھان کورٹ میں پایا جیب سے موبائل نکالا تو نیٹ ورک غائب تھا میری پریشانی میں اضافہ ہوگیا ہر حربہ استعمال کیا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا اجنبی دیار میں اب رابطہ کا ایک سہارا تھا جو ختم ہو چکا ،
باقی اگل قسم میں۔۔۔۔