- ظالم سماج کی ظلم و ستم کی بھینٹ چڑھی ایک لڑکی کی کہانی
نوے سالہ دادی جان پرانے زمانے کی سیدھی سادی عورت تھیں.تیسری نسل علم، ٹکنالوجی اور ایجادات کی بدولت ان سے کئی صدی آگے تھی،دادی کی بہت سی باتیں اور کہاوتیں اب ہماری سمجھ میں نہیں آتی تھیں. البتہ جب رات دیر گئے تک ابا ان سے باتیں کرتے تو ہم لوگ بھی دونوں کی باتیں سن سن کر مزے لیتے.
.میری عمر تیس سال ہوچکی تھی مگر اب تک کوئی معقول رشتہ نہیں آیا تھا.ابتدا میں کچھ رشتے تو آے مگر ابا جان اپنی لاڈلی کے لیے جس طرح کا مثالی رشتہ ڈھونڈ رہے تھے وہ اب تک سامنے نہیں آسکا تھا. ابا اماں اور گھر کے تمام لوگ میری شادی کے سلسلے میں پریشان تھے. دادی کی فکر مندی سب سے زیادہ تھی، وہ روزانہ مجھے شادی اور خوشحال زندگی کی دعائیں دیتیں.
ایک دن مجھ سے کہنے لگیں.
"عامرہ ! دیکھ رشتے اور فرشتے کبھی بھی آسکتے ہیں. بس اللہ کی مرضی،دعا کرتی رہو، اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں.،،
میں دادی کی بات نہیں سمجھ سکی، بعد میں جب عابدہ باجی نے مجھے اس کا مطلب بتایا تو مجھے بہت لطف آیا.
دادی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ شادی کے لیے رشتہ اور اسی طرح دوسری دنیا میں لے جانے والا موت کا فرشتہ کبھی بھی آسکتا ہے، اس کا کوئی وقت متعین نہیں ہے
بعد میں دادی کی یہ بات درست ثابت ہوئی. فرشتہ تو ابھی تک نہیں آیا مگر رشتہ بلکہ رشتے اللہ مجھے معاف کرے،ایسے ایسے آے کہ اللہ کی پناہ، کاش کہ رشتہ نہیں فرشتہ ہی آگیا ہوتا.!
رات دیر گئے تک ابا اور اماں دنیا جہاں کی باتیں کرتے، میں برآمدے میں سوئی ان کی باتیں سنتی رہتی، ان کی گفتگو میں روزانہ ہی میرے رشتے کے سلسلے میں ضرور کوئی نا کوئی بات ہوتی.
ایک دن عشاء کے بعد امی کہنے لگیں:
عامرہ بیٹا، بکھراں سے کل کچھ مہمان آنے والے ہیں. دوپہر کا کھانا وہ ساتھ میں کھائیں گے، بیٹا تم ذرا تیار ہوجانا. اب میں تیار ہونے کا مطلب اچھی طرح سمجھ چکی تھی. اس لیے کہ اب تک یہ کام درجنوں مرتبہ کیا جا چکا تھا.
پورا گھر صبح سے دل و جان سے مہمانوں کی ضیافت کی تیاری کر رہا تھا. کئی طرح کے پکوان تیار کیے جارہے تھے. بازار سے طرح طرح کے پھل اور مٹھائی بھی منگوائی جا چکی تھیں . دادی تو آج مصلے سے اٹھ ہی نہیں رہی تھیں. پڑوسن شکیلہ خالہ حسب معمول مجھے سجانے اور سنوارنے میں لگی ہوئی تھیں. شکیلہ خالہ درمیانہ شکل و صورت کی مالک تھیں، ان کے شوہر نے انھیں شادی کے تین سال بعد بد صورت ہونے کا الزام لگا کر طلاق دے دی تھی. اب وہ ساٹھ کے پیٹ میں تھیں.شکیلہ خالہ کی ہنر مندی کا کوئی جواب نہ تھا. چند منٹ میں ہی وہ مجھے ایسا تیار کرتیں کہ میں خود بار بار اپنی شکل آئینے میں دیکھتی.
بارہ بجے تھے کہ مہمان آگئے. چار عورتیں، تین مرد اور چار پانچ چھوٹے بچوں پر مشتمل یہ قافلہ گویا ایک چھوٹی موٹی بارات کا منظر پیش کر رہا تھا.
چاے ناشتہ کے بعد مجھے مہمانوں کے سامنے پیش کیا گیا.امی کے آواز دینے پر میں حسب معمول سلام کرتے ہوے چپ چاپ جا کر مہمانوں کے سامنے بیٹھ گئی. تینوں خواتین بڑی گہری نظروں سے میرا مشاہدہ کر رہی تھیں. ایک خاتون جو غالبا لڑکے کی والدہ تھیں، امی سے کہنے لگیں:
” بہن! لڑکیوں کو زیادہ نہیں پڑھانا چاہیے، کیا فائدہ؟ عمر زیادہ ہوجاتی ہے. ہمارے گھر میں تو لڑکیوں کو بس دسویں تک ہی پڑھایا جاتا ہے. لڑکے بھی کسی طرح بارہ پاس ہوجاتے ہیں. ماشاء اللہ اپنا کاروبار ہے. کہاں نوکری کرنی ہے.،،
ایک خاتون کہنے لگیں:
” بیٹا کیا تمہارے پیروں میں کچھ تکلیف ہے. بہت سنبھل سنبھل کر پاوں رکھ رہی تھیں.،،؟
امی مجھ سے کہنے لگیں:عامرہ بیٹا ذرا وہ دو جوڑے کپڑے لے کر آو، جو تم نے کل پرسوں میں سلے ہیں. ماشاء اللہ میری بیٹی تعلیم کے ساتھ ساتھ سلائی کڑھائی اور گھر داری کے تمام کاموں میں طاق ہے. یہ تمام ڈشیں بھی اسی نے بنائی ہیں.،،
میں کپڑے لینے کے لیے اٹھی تو زمانہ شناس خواتین نے میرے قدوقامت اور چال ڈھال کا بھی درست اندازہ لگا لیا. امی کا مجھے وہاں سے بھیجنے کا مقصد بھی یہی تھا.
کھانے کے بعد بھی مہمان دیر تک رکے رہے اور امی سے باتیں کرتے رہے. شام میں عصر کے بعد ان کی پھر بہت اہتمام سے ضیافت کی گئی اور انھیں رخصت کیا گیا.
امی بہت پرامید تھیں، انھیں لگتا تھا کہ یہ رشتہ ضرور طے ہوجاے گا، لڑکے کی والدہ، اور بہنیں شکل و صورت میں بہت عام سی تھیں. بلکہ دونوں بہنوں کو تو ایک طرح سے گہرا سانولا بھی کہا جاسکتا تھا. گہرے میک اپ کے باوجود بھی ان کے چہرے کا رنگ اپنی اصلیت چھپانے میں ناکام تھا. مگر دودن تک مکمل خاموشی کے بعد جب رشتہ بھیجنی والی خالہ سے رابطہ کیا گیا تو وہ بولیں:
"میں نے ان سے بات کی، مگر انھیں رشتہ نہیں جما، کہہ رہی تھیں کہ لڑکی بہت اچھی ہے، گھرانہ بھی اچھا لگا مگر ہمیں لڑکی دو انچ اور اونچی چاہیے. ہمارا عزیر قد کی لمبی دلھن چاہتا ہے.،،
چار پانچ سال تک درجنوں بار میں اس اذیت سے گزرتی رہی، ایک دن دادی کی بات سچ ثابت ہوئی، افسوس کہ اب دادی پوتی کی شادی کی خوشی دیکھنے کے لیے موجود نہ تھیں.
ایک دن امی نے مجھے بلایا کہنے لگی:
"عامرہ بیٹا! تم سے ایک مشورہ کرنا ہے رجن بوبو کے بیٹے فیضان کا تمہارے لیے رشتہ آیا ہے. لڑکا ماشاء اللہ حافظ عالم ہے، اس کی پھولپور میں اچھی دوکان ہے،بس عمر کچھ زیادہ ہوگئی ہے، پہلے ناجانے کیوں وہ شادی کے لیے تیار ہی نہ تھا. اب وہ لوگ خود چل کر آے ہیں. تمہاری کیا راے ہے.،،
میری کیا راے ہوتی. میں خاموش رہی، جب امی کا اصرار بڑھا تو میں نے کہدیا:
"امی جیسی آپ لوگوں کی مرضی، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے. باقی اللہ مالک ہے.،،
اصلا میں رشتے کے سلسلے میں بہت پریشان ہوچکی تھی. دل میں بس ایک ہی خیال آتا کہ کاش میری شادی ہوجاے چاہے رشتہ کیسا بھی ہو.،،
چند روز بعد ہی میں فیضان کے ساتھ شادی کے مقدس بندھن میں بندھ چکی تھی.
شادی کی پہلی رات ہی مجھے اپنی بدنصیبی کا اندازہ ہوچکا تھا. فیضان انسانی جذبات اور احساسات سے عاری بس ایک انسان نما حیوان تھا. میں نے اس کے ساتھ چار سال گزارے مگر کیسے بس اللہ ہی جانتا ہے. میں سوچتی تھی کہ اپنی خدمت اور حسن سلوک سے فیضان کا دل جیت لوں گی مگر وہ تو کسی اور ہی مٹی کا بنا ہوا تھا، اسے بیوی کے جذبات اور ضروریات کا کوئی احساس ہی نہیں تھا. اس نے کسی مدرسے میں چند سال تعلیم حاصل کی تھی، وہ بات بات پر میری تعلیم کا مذاق اڑاتا اور اپنی تعریف کرتا. اس کا انداز ہمیشہ بہت جارحانہ اور تحقیر آمیز ہوتا.
وہ میرے اخلاق اور چال چلن پر بھی شک کرتا، موقع بہ موقع اس کے غلیظ تبصرے میری روح کو زخمی کردیتے، آے دن تو وہ مجھے اپنے بیڈ سے بھگا دیتا، میں کمرے میں پڑی دوسری چارپائی پر شال لپیٹے سخت سردی میں ٹھٹھرتی مگر اسے رحم نہ آتا. رہی سہی کسر اس کی امی اور بہنیں پوری کردیتیں، وہ ہر موقع سے میرے خلاف اس کے کان بھرتیں.
میں اپنی چھ بہنوں میں سب سے سمجھدار اور قابل سمجھی جاتی تھی مگر مقدر کا کھیل کس کے پلے پڑگئی تھی. جہالت اور کم عقلی سے بڑا دنیا میں کوئی دوسرا عذاب نہیں ہے، افسوس کہ فیضان اس کا شاہکار تھا.
میں نے اپنے حالات کے بارے میں کبھی بھی ایک لفظ اپنے گھر والوں سے نہیں کہا، میں شب و روز اس امید میں بسر کرتی کہ میری شب و روز کی محنت، قربانی اور اعلی اخلاق شائد سنگ دلوں کی دل کی دنیا میں کچھ تبدیلی لائیں، مگر
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
میرے چھوٹے بھائی کی شادی کی تاریخ متعین ہوچکی تھی، امی کئی بار فون کرچکی تھیں مگر ساس اماں مجھے چند دن کے لیے بھی میکے بھیجنے کے لیے آمادہ نہ تھیں. ان کی دلیل تھی کہ گھر کے کام کون کرے گا.؟
حالانکہ وہ خود بھی ابھی بہت صحت مند تھیں اور میری دو نندیں بھی گھر پر موجود تھیں.
بھائی کی شادی سے ایک دن پہلے فیضان نے مجھ سے کہا:
"کل صبح ناشتہ وغیرہ سویرے ہی تیار کر لینا ، شادی میں شرکت کے لیے جلدی نکلنا ہے. اور ہاں سنو، کل ہی عشاء کے بعد ہی واپس آنا ہے. وہاں رات نہیں رہنا ہے …،،
دل تو چاہا کہ کہوں کہ اتنی دیر کے لیے جانے کا کیا فائدہ؟ مگر بات بڑھانے کا کوئی فائدہ نہ تھا.
صبح اس نے مجھے فجر سے ایک گھنٹہ پہلے ہی جگا دیا. میں نے پورے گھر کا کھانا بنایا اور آٹھ بجے اس کے ساتھ میکے روانہ ہوگئی. فیضان اپنی دوکان پر واپس چلے گئے. دوپہر میں کھانا کھانے آے تو کہنے لگے:
"اگر ارمان پورے ہوگئے ہوں تو ساتھ میں چلو، ورنہ مجھے شام میں دوبارہ ایک چکر لگانا ہوگا.،،
میں نے شام تک رکنے کی درخواست کی تو وہ مان گئے. البتہ یہ تاکید کیا کہ مغرب کے بعد تیار رہنا، میں جلدی آوں گا.
ساری بہنیں اور رشتے داروں سے گھر بھرا ہوا تھا، میرا جانے کا بالکل جی نہیں چاہتا تھا مگر مجبور تھی. بھائی، بہن سب اصرار کر رہے تھے کہ کم ازکم ایک رات تو رکو مگر میں دنیا بھر کے جھوٹ موٹ کے بہانے تراش رہی تھی میں فیضان کے مزاج کو جانتی تھی.
شام میں فیضان آگئے، اتفاق سے باہر بڑے بھیا سے ان کی ملاقات ہوگئی. انھوں نے کہا
” ارے بھائی عامرہ کو ایک دو دن تو چھوڑ دو، سب رشتے دار اکٹھا ہیں،،
فیضان بھیا سے الجھ گئے.،
"دیکھیے میری زبان نہ کھلوائیے، آپ کے گھر کا ماحول مجھے بالکل پسند نہیں ہے، وہ تو عامرہ کی ضد کی وجہ سے میں اسے ملاقات کے لیے لے آتا ہوں ورنہ میں ایک بار بھی یہاں اسے نہ لے آتا.،،
بھیا کو فیضان کی باتوں پر غصہ آگیا، انھوں نے بھی اسے کچھ سخت سست کہہ دیا، میں بہنوں کے درمان گھری تھی. ننھی فاکہہ موبائل پر گیم کھیل رہی تھی. فیضان نے کئی بار فون کیا، فاکہہ اس کا فون کٹ کر دیتی تھی. تھوڑی دیر بعد جب میں نے فون اٹھایا تو دیکھا اس کا کئی بار فون آچکا تھا، میں نے اسے فون لگایا.
وہ غصے سے پاگل ہورہا تھا.
"کان کھول کر سن لو، میں گھر واپس آگیا ہوں، خیریت چاہتی ہوتو کسی کے ساتھ آدھے گھنٹے میں واپس آجاو، ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا.،،
مین نے بھیا کو فون کرکے بلایا اور درخواست کی کہ مجھے میرے گھر چھوڑ دیں مگر بھیا بھی کافی برہم تھے.
کہنے لگے:
” تم اطمئنان سے رہو، دیکھتے ہیں وہ کیا کر لیتا ہے. ہم بھی اس کی دادا گیری دیکھ لیں گے.،،
میں نے کئی بار درخواست کی مگر بھیا کچھ سننے کو تیار نہ ہوے.
دو مردوں کے درمیان میری حالت بالکل اس سہمی ہرن کی طرح تھی جس کے پیچھے بیک وقت کئی چیتے دوڑ رہے ہوں اور اسے اپنی جان بچنے کی کوئی امید نہ ہو.
چند منٹ کے بعد فیضان کا فون دوبارہ آچکا تھا.
"کیا کر رہی ہو. نکلی گھر سے. جلدی بولو،،
میں بمشکل اتنا کہہ سکی. ابھی نہیں، تھوڑی دیر میں آتی ہوں .
مگر فیضان کی مردانگی ایک کمزور مجبور عورت پر اپنا پورا زور آزمانے پر تلی تھی.
” سنو! میں تم کو طلاق دیتا ہوں، طلاق طلاق، طلاق، اب خوب میکے میں رہو.،،
ایک لمحہ تو ایسا لگا کسی نے مجھے آسمان سے زمین پر دے مارا ہو.میں جیسے سن ہوکر رہ گئی، میری دنیا ایک لمحے میں ویران ہوچکی تھی. میرا سب کچھ لٹ چکا تھا. موبائل ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گرا اور میں بیہوش ہوکر گر پڑی.
ہوش آیا تو پورا گھر میرے پاس تھا، بھابھی نے فیضان کو فون لگایا تو پوری کہانی سمجھ میں آچکی تھی. ڈاکٹر نے مجھے گلوکوز میں سکون کا انجکشن ملا کر لگا دیا تھا. چند منٹ بعد ہی میں نیند کی گہری وادی میں سما چکی تھی.
دس بارہ گھنٹے کے بعد مجھے جاگنے دیا گیا. ابو، امی،بھائی، بہنیں سب مجھے گھیرے کھڑے تھے. جس گھر میں ایک روز قبل شادی کی شہنائی گونج رہی تھی اب وہاں موت کی ویرانی تھی. گھر کے لوگوں کے لیے یہ سب بہت حیرت انگیز اور اچانک تھا. شادی کے ان تین سالوں میں کبھی بھی میں نے اپنے گھر پر فیضان اور ساس نندوں کی کوئی شکایت نہ کی تھی. سب جانتے تھے کہ میں اپنے گھر میں بہت خوش ہوں. اعصاب کو سہارا دینے والی دواوں نے مجھے کھڑا کر رکھا تھا ورنہ میں بالکل ٹوٹ چکی تھی. چند روز بعد گھر والوں نے درمیان کی کوئی شکل نکالنے کی کوشش کی مگر میں اس کے لیے تیار نہ ہوئی. میں اب اس جہنم میں دوبارہ داخل نہیں ہونا چاہتی تھی.
فیضان کے گھر مجھے کبھی سکون نہ ملا تھا مگر میں نے چار سال کا عرصہ ہر آن اس امید پر قربانی دی تھی کہ شائد مجھے اس صبر و برداشت کا کچھ پھل ملے مگر مجھے جو حاصل ہوا وہ اللہ کسی دشمن کو بھی نہ دے. کوئی دن ایسا نہ گزرتا جب میں اپنے حال پر دل گرفتہ نہ ہوتی اور زارو قطار نہ روتی.
سال بھر بھی نہ گزرے تھے کہ ابو پھر میرا گھر بسانے کی فکر میں لگ گئے. اب رشتوں کی کمی نہ تھی مگر اب جو رشتے آتے تھے وہ الگ ہی قسم کے ہوتے تھے. الحمدللہ میں نے گریجویشن کر رکھا تھا مگر کبھی کسی ان پڑھ کا رشتہ آتا تو کبھی کسی بوڑھے چار پانچ بچوں کے باپ کا. گردش زمانہ نے میرے مزاج میں تلخیاں بھر دی تھیں، میرا بس چلتا تو ان آنے والے بیہودہ رشتوں کو ذلیل کر کے لوٹا دیتی. مگر جہاندیدہ ابا اور اماں ہر آنے والے رشتے پر غور و فکر کرتے اور مجھ سے مشورہ بھی کرتے.
میں نے امی سے کئی بار کہا "امی اب جانے بھی دیں، ایک بار تو سنت ادا ہوگئی، میں ان شاء اللہ تنہا سکون سے زندگی گزار لوں گی.مگر ابو امی کہاں مانتے تھے.
ایک دن ایک اور رشتہ آیا، یہ رشتہ ذویب بھائی کے دوست کی طرف سے آیا تھا بھائی نے اماں کو وارننگ دے دی تھی کہ امی یہ رشتہ بہت اچھا ہے اگر اب عامرہ نے انکار کیا تو میں اس کے لیے پھر کچھ نہ کروں گا. امی بہت پریشان ہوگئیں. طلال بھائی کا سب سے قریبی دوست تھا. اس کی بیوی چار بچوں کو چھوڑ کر دوسری دنیا سدھار گئی تھی. گھر کے سب لوگ طلال کو بہت اچھا سمجھتے تھے مگر میں اس کے بارے میں بہت کچھ جانتی تھی. اس کی بیوی فضیلت کا ہمارے یہاں آنا جانا تھا.فضیلت آے دن طلال کی بیوفائی، مزاج کی شدت اور گنوار پن کے کہانیاں سنایا کرتی. اس نے کبھی اپنی بیوی کو کسی طرح کی عزت نہ دی تھی. وہ اسے خادمہ اور نوکرانی سے زیادہ کچھ نہ سمجھتا تھا، بات بات پر طعنے دینا، جملے کسنا، ذہنی اذیت پہنچانا اس کے معمولات میں شامل تھا. بیوی کی موت بھی پورے گاوں کے لیے ایک معمہ بنی ہوئی تھی.
اچھی خاصی بیوی ایک دن بستر پر مردہ پائی گئی تھی، طلال نے سب کو رو رو کر بتایا کہ رات میں اچانک اس کے سینے میں شدید درد اٹھا، جب تک ڈاکٹر کے پاس لے جاتے،شدید ہارٹ اٹیک نے اس کی جان لے لی تھی.
اب اس طلال کا رشتہ میرے لیے آیا تھا.
امی نے آواز دی.
"عامرہ! بابا تجھ کو بلاتے ہیں. انھیں کچھ بات کرنی ہے.،،
میں بھاری قدموں سے بابا کے کمرے میں گئی تو وہ گہری سوچ میں ڈوبے ہوے تھے. انھوں نے نگاہ اٹھائی اور میرے سراپا پر ایک ترحم بھری نگاہ ڈالی، ان کی آواز بے جان سی ہورہی تھی.
” عامرہ! بیٹی، سب قسمت کا کھیل ہے. میری سب سے اچھی، سب سے لائق بیٹی آزمائش میں پڑ گئی، بیٹا! امی نے آپ کو طلال کے بارے میں بتایا ہوگا، گھر کا لڑکا ہے. تمہارا گھر آباد ہوجاے تو میں سکون سے مرسکوں، بیٹا یہ رشتہ بہت اچھا ہے.، سوچ کر جواب دینا.،،
بابا مہینوں سے جواب کے منتظر ہیں،میں نے چند روز پہلے ایک اسکول جوائن کرلیا ہے. بابا کی جواب طلب نگاہیں ہر وقت میری طرف امید سے دیکھتی ہیں، مگر میں نے تو کچھ اور ہی فیصلہ کر رکھا ہے.
مدتوں وقت سحر میں اپنے اللہ میاں سے التجا کرکے اچھا رشتہ ملنے کی دعائیں کیا کرتی تھی. مگر کئی روز سے ناجانے کیوں جب بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتی ہوں، دل سے ایک ہوک سی اٹھتی ہے، نا چاہتے ہوے بھی دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ بار الھا!
اب رشتہ نہیں فرشتہ بھیج دے.
رشتے تو بار بار آے، کاش ایک بار فرشتہ بھی آجاتا تو شائد دکھ اور تکلیف بھری اس دنیا سے میں نجات پا جاتی.
اب مجھے رشتے کا نہیں فرشتے کا انتظار ہے. کاش وہ جلد آے۔