ازقلم: اریبہ فاطمہ
اللہ رب العزت نے نے بے شمار صحیفے سے اپنے انبیاء کرام پرنازل فرمائے۔ آئے جن میں خاص طور پر پر توریت، زبور اور اور انجیل کا شمار ہوتا ہے ہے۔ یہ تمام صحیفے سے کسی ایک قوم ، ایک گروہ کے لۓ مخصوص تھے تھے۔ لیکن ایک اور صحیفہ جسے اللہ تعالی نے محسن انسانیتﷺ پر نازل فرمایا۔ قرآن مجید جو تمام انسانوں کے لۓ ہدایت کا سر چشمہ ہے ۔ اس کتاب کو اللہ تعالی نے نے انسانیت کے لیے شفاء للناس، نور، زکر، کتاب الٰہی اور خاص طور پر اور انسانیت کے لیے ہدایت بنا کر بھیجا۔ قرآن مجید، فرقان حمید ایک نوشتہ الہی ہے۔ جس کا مصنف خود رب کائنات ہے۔ یہ انقلاب کا عظیم سرچشمہ ہے ھداللمتقین اور ھداللناس ہے۔ اس کی ذمہ داری خود اللہ تعالی نے لی رکھی ہے اور قیامت تک کوئی بھی اس تبدیلی نہیں کر سکتا۔ قرآن مجید کی نزول کے بعد اس کے مخاطب سب سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تھے۔ جن لوگوں نے اسے سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا قرآن ان کے لۓ چلتی پھرتی حقیقت بن گیا۔ وہ اس کے ہر لفظ کو زندگی کے معاملات اور تجربات سے بالکل متعلق پاتے اور اسے مکمل طور پر اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتے تھے اس قرآن نے ان کو فردا اور معاشرتی طور پر ایک بالکل نئے زندہ اور حیات آفریں وجود میں مکمل طور پر تبدیل کر دیاتھا
جو بکریاں چراتے تھے، اونٹوں کی نگہبانی کرتے تھے، معمولی کاروبار کرتے تھے انسانیت کے رہنما بن گئے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید پر عمل پیرا ہو کر ایک ایسا معیار قائم کردیا تھا کہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ وہ ہر آیت پر عمل پیرا ہونے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے۔ تحویل قبلہ کا حکم سنتے ہی نئے قبلے کی طرف رخ کر لیتے ہیں، شراب کی حرمت کا حکم آتا ہے تو مدینہ کی گلیوں میں شراب بہ نکلتی ہے ،جب کہ حجاب کا حکم آتے ہی مومن خواتین خود کو ڈھانپ لیتی ہے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی ” لن تنالوا البر حتی تنفقو مما تحبون ” حضرت طلحہ ؓ اپنامحبوب ترین باغ اللہ کی راہ میں پیش کردیتے ہیں۔
صحابہ کرام ؓ کی بے شمار مثالیں ہمارے سامنے موجود ہے۔ جن کی زندگی کے ہر پہلو سے ان کی صداقت، دیانت اور شجاعت جھلکتی ہے۔ ان کا اللہ پر یقین اس قدر مضبوط ہوتا کہ وہ بغیر تلوار کے بھی میدان میں کود پڑتے اور ہر میدان کے فاتح ہوتے۔ کیونکہ قرآن نے نہ صرف ان کے ان کے دلوں کا نور تھا بلکہ عملی زندگی میں بھی موجود تھا۔ اندلس اسپین کی سرزمین کو بلند حوصلہ سپہ سالار طارق بن زیاد نے آٹھ سو سالوں کے بعد فتح کیا۔ اسی طرح سندھ کی عظیم فتح کا سہرا محمد بن قاسم جیسے نوجوان سپہ سالار کے سر جاتا ہے جس نے محض 17 سال کی عمر میں اپنی بصیرت اور بہادری سے راجہ داہر کو شکست دے دیں۔ اس کی عظمت و کردار نے نہ صرف بصرا کی عوام کو جنگ کے لئے تیار کیا بلکہ سندھ میں موجود دلوں کو بھی فتح کرلیا ۔ ان کے دلوں پر بند قفل اسلام کی روشنی سے کھلنے لگے اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ یہ وہ آفتاب تھا جو عرب کا آسمان پر نمودار ہوا اور سندھ کی سر زمین پر غروب ہو گیا۔ صلاح الدین ایوبی کی عظیم مثال ہمارے سامنے موجود ہے جس نے بیت المقدس فتح کرنے کے لیے سخت آزمائشوں کو برداشت کیا۔ لیکن پنے غیر معمولی عزم اور استقامت سے قبلہ اول کو فتح کرلیا۔ لیکن آج۔۔۔۔۔ہم نے نہ صرف اسلامی مملکت کھودی۔ بلکہ بیت المقدس کے ساتھ بابری اور قرطبہ جیسے شعائر اللہ کو بھی کھو دیا۔ گزشتہ چار صدیوں سے یہ ماتم جاری ہے کہ امت زوال کا شکار ہے۔ ہمارا ہر دن ہمیں پستی کی جانب لے جا رہا ہے۔اور مسلمان غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔ خلافت عثمانیہ کا چراغ سو سال پہلے ہوا تو اس وقت اقبالؒ نے امید قائم کرتے ہوئے لکھا تھا
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے کہ
خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
لیکن گزشتہ ایک صدی سے وہ سحر آج تک طلوع نہ ہوسکی۔ جس کی امید میں اس امت کے شب و روز اشک رواں ہوتے ہیں۔ لیکن کیا یہ امت اللہ کی طرف سے عطا کردہ نعمتوں اور خزانوں سے محروم ہے۔۔؟ الجزائر سے برونائی کے ساحلوں تک ک امت مسلمہ 12 ٹائم زونز میں آباد ہے۔ اس خطے میں اللہ نے تیل کی فراوانی رکھی ہے جو اس وقت پوری دنیا کی لائف لائن ہے۔ جس کے بغیر دنیا کی ضروریات پوری نہیں ہوسکتی۔ انڈونیشیا اور ملائشیا ربع اور ٹن کی دولت سے مالا مال ہے۔افغانستان وہ ملک ہے جسے لیتھیم کا سعودی عرب کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں 21 ارب ڈالرس کا لوہا، 274 ڈالرز کا تانبہ ،51ارب ڈالرز کی کوبالٹ موجود ہے۔ معدنیات، زراعت، تیل، افرادی طاقت اور ایٹمی قوت ان سب کو یکجا کریں تو یہ دنیا کا طاقتور بلاک نظر آتا ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ امت مسلمہ زوال کا شکار ہے۔ ذلت اول رسوائی ان کا مقدر بن چکی ہے۔ ناکامی اور نامرادی نے انہیں گھیر لیا ہے۔ وہ سبب ایک ارب ساٹھ کروڑ مسلمانوں پر کتابیں ہدایت قرآن نے چودہ سو سال پہلے واضح کردیا تھا۔ اللہ کے نزدیک ایک ایسی خطا ہے کہ کسی امت سے سرزد ہو جائے تو اللہ اس سے پہلے دنیا میں سزا دیتا ہے اور پھر آخرت میں شدید عذاب ایسی امتوں کا منتظر ہوں گا۔ اللہ تعالی سورہ بقرہ میں ارشاد فرما تے ہیں” تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے کے ساتھ کفر کرتے ہو پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ان کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہے اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائے”
آج مصائب و آلام میں گرفتار ،ہر ظلم ستم سہنے پر مجبور، ذلت کی دلدل میں پھنسے ہوئے اپنے حق سے محروم وہ کون سی قوم ہے جن کے نوجوان آج ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے اور ناکردہ جرم کی پاداش میں جیلوں کی تاریخ کوٹھیوں میں بند ہے، دشمن حملہ آور ہے ان کے شعائر کا مذاق سرعام اڑایا جا رہا ہے اور جو اپنے شعائرر کو اپنائے اسے دہشت گرد کا لقب دیا جا رہا ہے بلاشبہ امت مسلمہ ہے۔ صدیوں تک دنیا کی حکومت اس کے قبضے میں رہیں، کوئی قوم مقابلہ کرنے کی تاب نہ رکھتی تھی۔ فرزندان اسلام جدھر کا رخ کرتے، فتح کے علم نسب کر دیتے ۔ ہر میدان کے ان کے ہاتھ ہوتا۔ہاتھ ہوتا۔ جن کے عزائم و حوصلے، بہادری و شجاعت کے واقعات پڑھ کر ہر ہفتہ یہ شعر ذہن میں آتا ہے
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
ہم نماز روزہ حج اور زکوۃ کو تو مانتے ہیں لیکن سود سے انکار کرنے کی جرات نہیں کرتے۔ آج قرآن محض طاقوں کی زینت بن کر رہ گیاہے۔ ہم قرآن کی تلاوت تو کرتے ہیں لیکن ہمارے دل اس کی لذت سے محروم ہے۔ ہم کلام الہی کی تفسیر تو پڑھتے ہیں لیکن اس میں موجود جواہر سمیٹ نہیں پاتے ۔ ہم قرآن کی تلاوت کرتے ہیں لیکن عملی زندگی میں اسے نافذ نہیں کرتے۔ ہمارے سامنے زندگی گزارنے پر آمادہ کرنے والے تقاریر کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری ہے لیکن آنکھیں خشک رہتی ہے۔ دلوں پر اثر نہیں ہوتا، زندگیوں میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ایسا کیوں ہے۔۔۔اس لئے کہ اب ہم قرآن کو زندہ حقیقت کے طور پر تسلیم نہیں کرتے ۔ یہ کتاب ہمیں صرف ماضی کی قوموں کی باتیں، کافروں اور مومنوں کے متعلق ہی نہیں بتاتی بلکہ شر اور باطل قوتوں کے مقابلے میں جدوجہد کے لئے عظیم رہنمائی بھی کرتی ہے۔ آج امت تاریکیوں میں بھٹک رہی ہے اور خوف اور پریشانیوں کے گہرے جال میں پھنسی ہوئی ہے۔ ایسے وقت میں ہمارے لئے نجات کا ذریعہ صرف قرآن ہے۔ آج وہی قرآن ہمارے سامنے موجود ہے مگر اس سے دوری کے سبب پیدا ہونے والے مسائل ہمارے سامنے ہیں اور ان سے دوری نے ہمیں ذلت و خواری میں مبتلا کردیا ہے ۔ ہم اگر روہنگیا مسلمانوں کی جانب دیکھے تو ان کی املاک کو آگ لگائی جارہی ہے، لاکھوں بچے بوڑھے عورتیں بے دردی سے قتل کیے جا رہی ہے ، بیت المقدس جو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کا قبلہ اول رہا اس کی حرمت پامال ہو رہی ہے۔ زمین کا ہر حصہ مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہا ہے۔ کیونکہ مسلمان قرآن سے دور ہو گئے۔ ہمارے خواری کا سبب ترک قرآن کے علاوہ اور کچھ نہیں یہ قرآن ہی ہے جو کل تک ہماری نجات کا دہندہ تھا اور آج بھی ہماری بقاء اسی قرآن میں پوشیدہ ہے ۔ لیکن ہم نے قرآن کو چھوڑ دیا ،اس کے حقوق سے لاپروائی کی، اسے صرف چند موقعوں کے لئے خاص کر دیا تو اللہ کی نظرِ رحمت ہم سے ہٹ گئی۔ حدیث کے مطابق اس کتاب کے ذریعے اللہ کچھ لوگوں کو سرفرازی و سربلندی عطا کرے گا اور کچھ لوگوں کو اس کی غفلت کی وجہ سے ذلیل فرماۓ گا۔
آج ضرورت ہے اس بات کی کہ ہم قرآن کو محض تلاوت کا مخصوص نہ رکھیں بلکہ عملی زندگی میں بھی اس پر عمل پیرا ہو۔ ہم” اہل القرآن ” بن جائے تاکہ ہم اللہ تعالی کے خاص بندوں میں ہمارا شمار ہواور امت زوال سے عروج کی جانب اپنے سفر کا آغاز کر سکے اور ہم دنیا و آخرت میں سرخرو ہو۔