ایک مخصوص طبقے کے عقیدہ کی عکاسی کرنے والا "جئے شری رام” کا نعرہ دوسری قوموں پر بھی تھوپنا اب اس سماج میں وطن پرستی کا شعار بن رہا ہے اور نہ لگانے پر ماضی قریب کے دل دھلانے والے ماب لنچنگ کے وقعات آج بھی قوم مسلم کے لیے کسی ناسور سے کم نہیں۔ شاید اس وقت بھی ماب لنچنگ کے واقعات بدستور جاری رہتے مگر یہ لاک ڈاؤن کی پابندیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں، نہیں ابھی دو روز قبل ملک کی دارالحکومت دہلی میں ہوئے ماب لنچنگ کے اس واقعے کو کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے جب محبوب علی نامی ٢٢ سالہ مسلم نوجوان کو ان سماج دشمنوں عناصر طاقتوں نے پیٹ پیٹ کر قتل کردیا صرف اس شک میں کہ وہ شخص کورونا سے متأثر ہے جبکہ وہ کورونا جانچ مکمل کرا چکا تھا اور اسے کورونا کا اثر دور دور تک نہیں تھا۔ اور اگر بالفرض ہوتا بھی تو کسی مریض خواہ کسی بھی قوم کا ہو اس کے مرض سے فقط احتیاط برتتے ہوئے دوری بنانا درست ہے اس کے مرض سے نفرت بھی نہیں مگر یہاں تو مرض سے نہیں مریض سے ہی اس قدر نفرت کہ اس بے چارے کو موت کے گھاٹ ہی اتار دیا گیا۔
اچھا ۔۔۔ تو یہ ہے میری محبت کا صلہ!!!
دو دن قبل راقم الحروف نے ایک تحریر لکھی تھی جس کا عنوان تھا "کیا یہی میری محبت کا صلہ ہے” جس میں راقم نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اس دھمکی کو موضوع سخن بنایا تھا جو انھوں نے ہمارے صاحب (مودی جی) کو ان کی بے شمار محبتوں کے باوجود دیا تھا کہ ملیریا کی دوا امریکہ نہ بھیجا گیا تو ہندوستان کو امریکہ کا عتاب جھیلنا پڑے گا جس کے بعد ہمارے صاحب نے اپنے محبوب کی اس خواہش کو بھی پوری کردی۔ خیر میں اس باگ کا دعوی تو نہیں کرسکتا کہ راقم کی وہ تحریر وہائٹ ہاؤس تک پہونچ گئی مگر جو بھی ہو کچھ نتیجہ ضرور ملا جیسا کہ وہائٹ ہاؤس جو ابھی تک کسی لیڈر یا کسی بھی شخص کو کبھی فالو نہیں کرتا تھا اس نے ہمارے صاحب کو پوری دنیا میں تنہا اس قابل سمجھ لیا کہ انہیں سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر فالو کرنے لگا، اور ہمارے صاحب عالمی پیمانے ہر تن تنہا وہ شخصیت بن گئے جنہیں یہ اعزاز نصیب ہوا۔ شاید یہی ان کی اس محبت کا صلہ امریکہ نے دیا ہے جس محبت میں صاحب نے امریکہ دورہ کر انھیں کارآمد مشوروں سے نوازا، بلکہ ان کی ہندوستان آمد پر استقبالیہ میں ایک سو بیس کروڑ روپئے تک بے دریغ خرچ کر ڈالے، اور حد تو یہ کہ اس پریشاں حالی میں بھی امریکہ کو ملیریا کی دوا بھیج کر اپنی محبت کا اظہار عام فرمایا۔
ہمارے صاحب کو ٹوئیٹر پر وہائٹ ہاؤس کے ذریعہ فالو کئے جانے کی خبر جیسے ہی جمہوریت کی چوتھی ستون (ہندوستانی) "میڈیا” کو ملی جو فقط خرافات اور مذہبی منافرت کو فروغ دینے میں ہمیشہ کوشاں رہتی ہے اس نے فورا اس خبر کو ٹیلی ویژن اور اخبارات کی سرخیاں بنانی شروع کردی۔ خیر ہم بھی اس عظیم مہربانی پر وہائٹ ہاؤس کے شکریے کے ساتھ اپنے صاحب کی جناب میں بھی مبارک باد پیش کرکے اپنے نام کو وطن پرستوں میں شمار کرانے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ ورنہ کب کسی صاحب کے ہم نواؤں، سنگھی مقلدین یا فرقہ پرستوں کی گروہ کے ہوتھوں زدوکوب کا شکار ہونا پڑے۔ کیوں کہ ملک کی اکثریت جو کہ اندھے مقلدین، فرقہ پرستوں اور سماج دشمن عناصر کی بنتی جارہی ہے اس کے نزدیک وطن پرستی کی بنیاد ہی ان جیسے امور پہ رکھ دی گئی ہے؛ مثلا مسلمانوں کا کسی بھی جانور کا گوشت کھانا انہیں برداشت نہیں صرف اور صرف اس شک میں کہ کہیں وہ گائے کا گوشت تو نہیں، مگر دوسری قومیں بڑے دھڑلے سے کھا سکتی ہیں کیوں کہ وہ گائے کا گوشت کبھی کھاتی نہیں جیسا کہ مشہور ہے اگر چہ حقیقت کے آئینے میں یہ بات اس سے کہیں زیادہ درست ہے کہ قانونی چارہ جوئی کے مدنظر مسلمان کبھی گائے کے گوشت کو ہاتھ نہیں لگاتا۔ مگر پھر بھی شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور فرقہ پرست عناصر کے عتابوں کو جھیلتا ہے اگر چہ وہ بکرے یا مرغے ہی کا گوشت کیوں نا ہو۔
اسی طرح "بھارت ماتا کی جئے” نعرہ لگانا اس معاشرے میں وطن پرستی کا اعلی ترین ثبوت ہے شاید ان کے نزدیک "ہندوستان زندہ آباد” سے یہ مراد پوری نہیں ہوتی۔ اور تو اور
اب ہمارے صاحب(محترم مودی جی) کو امریکی صدر سے محبت کا صلہ تو ٹوئیٹر پہ فالو بیک کرکے مل ہی گیا مگر ملک کی اس اقلیتی طبقے کو ہزارہاں سال اس ملک سے محبت، ہم دردی اور وطن پرستی کا صلہ کب ملے گا؟ اور جس طرح نربھیا عصمت دری معاملے میں مجرموں کو پھانسی دی گئی اس طرح سماج کے ان دشمن عناصر طاقت رکھنے والوں کو پھانسی کب دی جائے گی؟ جس سے کہ ملک کی عدالت اور اس کی جمہوریت کا چرچا دنیا کے ہر گوشے میں ہو۔