مرتضی پور سے ممبئی سفر کے دوران کسی اسٹیشن سے ایک مراٹھی خاندان ٹرین میں سوار ہوا. ایک بڑے میاں، ایک عورت، دو بچے. بڑے میاں بچوں کے دادا یا نانا ہوں گے. عورت کھڑکی پر بیٹھ گئی. اس نے ایک کتاب نکالی، چشمہ لگایا اور ایک کتاب کا مطالعہ شروع کیا. پہلے سفر میں یہ معمول کا حصہ ہوا کرتا تھا مگر اب یہ روایت تقریبا ختم ہوگئی ہے. ہر ہاتھ میں موبائل ہے اور اس میں ہر آدمی کی پسند کے مطابق الم غلم واہیات مواد ہے.
مطالعے کے علاوہ موبائل نے لوگوں سے ایک دوسرے سے گفتگو اور رسم و راہ بھی ختم کردی ہے. پورا پورا سفر ختم ہوجاتا ہے مگر یہ بھی علم نہیں ہوپاتا کہ بازو میں یا سامنے بیٹھا آدمی کون ہے اور کہاں جارہا ہے. حالانکہ پہلے اسی طرح کے سفر کے دوران اچھے تعلقات بن جاتے تھے جو کبھی کبھی تاعمر باقی رہتے تھے.
بہر حال خاتون کو مطالعے میں دیکھ کر مجھے حیرت انگیز خوشی ہوئی. کچھ وقت گزرا تو میں نے پوچھ ہی لیا.
"بھابھی کون سی کتاب ہے.،،؟
خاتون متوجہ ہوئی اور بولی:
” پریم چندر کی جیونی پر پستکا ہے.،،
میں نے کہا:
"حیرت ہے کہ آپ ابھی بھی کتاب پڑھتی ہیں جب کہ اب سب لوگ موبائل دیکھتے ہیں.،،
خاتون نے بڑا برا سا منہ بنایا، کہنے لگی:
لوگ تو موبائل کی وجہ سے ایڑے ہوگئے ہیں، موبائل میں کیا ملتا ہے؟ اس کتاب میں تو ساہتیہ ہے، علم ہے، سنسکار ہے،اپدیش ہیں.،،
خاتون کتاب مجھے دینے لگی، میں پریم چندر سے واقف ہوں مگر مراٹھی میں کتاب پڑھنا میرے لیے ممکن نہ تھا.
بظاہر عام سی خاتون کی حکیمانہ باتوں سے میں بہت متاثر ہوا. وہ خاتون تھی تو عام سی ایک خاتون مگر اس نے ہمارے سماج کی ایک دکھتی رگ پر انگلی رکھ دی تھی.
مطالعے کے معاملے میں ہم مسلمانوں کا حال سب سے ناگفتہ بہ ہے. پہلے مطالعے کا عمومی مزاج تھا. میں بچپن میں اپنے جن رشتے داروں کے یہاں آتا جاتا تھا، ان کی بیٹھکوں میں اردو اخبارات، رسائل، دینی و ادبی کتابیں موجود پاتا تھا مگر افسوس کہ اب ایسا نہیں ہے.
پچھلے سفر میں ایک عزیز کے گھر گیا تو عجیب منظر نظر آیا. بچوں کے دادا، ایک چچا اور تین چار پوتے سب کے سب یوٹیوب پر مشغول تھے. میری آمد کے باوجود ایک ہی دو لوگوں کا موبائل بند ہوا. بڑے میاں نے موبائل میری طرف بڑھاتے ہوے کہا؛
لیا سنا، راحت اندوری کا مشاعرہ ہے. تھوڑا تونہوں سن لیا، کل حقیقت کھول کھول کے رکھ دیتھے، اتنا دم دار ایکو شاعر ناہیں یے
"راحت اندوری کا مشاعرہ ہے. تھوڑا سا آپ بھی سن لیجیے. سب حقیقت کھول کھول کر بیان کردیتا ہے، اتنا بہادر شاعر کوئی اور نہیں ہے،،
ہم نے کہا
چچا پہلے تو یہاں بہت سی کتابیں اور رسائل وغیرہ رکھے ہوتے تھے، اب تو ایک بھی نطر نہیں آرہا ہے، کہنے لگے:
موبائلوا سے فرصت ملی تب تو کیو پڑھی ؟،،
اب چچا سے کون کہے کہ جب آپ جیسا معمر اور سمجھدار آدمی اتنا بدل گیا تو اور کسی سے کیا امید رکھی جاے.؟
گھر میں تذکرہ ہوا تو بڑی بی کہنے لگیں، وہ تو دن رات موبائل میں ہی پڑے رہتے ہیں، اب تو کھیتی وغیرہ میں بھی دلچسپی نہیں لیتے.
سال بھر پہلے ممبرا ایک عزیز کی شادی میں گیا، حسب معمول کتابوں کے کچھ سیٹ ساتھ میں تھے. ایک صاحب جو عمر میں پچپن ساٹھ کے رہے ہوں گے، شکلا بھی سنجیدہ لگتے تھے ان کی خدمت میں کتابوں کا تحفہ پیش کیا تو انھوں نے ہاتھ ہی آگے نہیں بڑھایا، کہنے لگے:
"کیا لے جائیں، ہم کو کتابیں پڑھنے کا شوق نہیں، گھرمیں بھی کوئی نہیں چھوے گا، ادھر ادھر رکھی رہی گی، گناہ ہی تو ملے گا.،،
کتابوں سے لاتعلقی اور بے رغبتی کی وجہ سے ناجانے کتنے اخبار و رسائل بند ہوچکے اور ناجانے کتنے بڑے بڑے پبلشنگ ادارے آخری سانسیں لے رہے ہیں.
اس مراٹھی عورت کی اس بات میں بڑا دم تھا کہ لوگ مطالعہ نہ کرنے کی وجہ سے ایڑے(بے وقوف،ناسمجھ) بنتے جارہے ہیں.
الٹے سیدھے ویڈیو، واٹس آپ میسیجز ،بے تکی چیزوں کی فارورڈنگ، واہیات پروگرام، سیریل، اچھلنے کودنے والے مولویوں کی تقریریں ان سب نے لوگوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کر لی ہے. گھنٹوں گفتگو کی جاے کام کی کوئی بات سننے کو نہیں ملے گی.اچھے خاصے لوگوں سے باتیں کیجیے، علم اور شعور سے یکسر خالی۔
گھروں میں موجود ہماری خواتین مطالعے کی نتیجے میں وہ علم و عرفان اور شعور حاصل کرلیتی تھیں کہ بچوں کی تعلیم وتربیت میں ان کے باپوں سے چار قدم آگے رہتی تھیں مگر اب ہمارے گھروں میں لاتعداد سیریل بھابھیاں وجود میں آچکی ہیں جن کے ہاتھوں ایسی نسلیں تیار ہورہی ہیں جو اچھے بھلے گھرانوں کا سکون و اطمئنان بھی غارت کرنے پر تلی ہوئی ہیں.
کاش قوم کے سنجیدہ افراد ان سب امور پر توجہ دیتے.
ازقلم: اختر سلطان اصلاحی