ازقلم: (مولانا) محمد عثمان ندوی و مظاہری
نائب مہتمم: دارالعلوم ہذا
دارالعلوم نور الاسلام جلپاپور سنسری نیپال ملک نیپال میں ایک مشہور و معروف و معتبر دینی و علمی درسگاہ ہے جو ام المدارس کی حیثیت رکھتا ہے، دارالعلوم ندوۃ العلماء کے نصاب و منہج کے مطابق یہاں عالیہ رابعہ تک تعلیم دی جاتی ہے، ملک کے طول و عرض میں پہاڑ سے ترائی تک اس کی تقریباً /٣٥/ شاخیں اور ملحقہ مدارس ہیں جو دین کی اہم اور بنیادی خدمات انجام دے رہے ہیں، ان مدارس کے طالبان علوم نبوت اپنے اپنے ادارے کے تعلیم مکمل کرکے اعلیٰ تعلیم کے لیے دارالعلوم نور الاسلام کی آغوش تربیت میں آتے ہیں، اور اسی راستے دارالعلوم ندوۃ العلماء سے فراغت پاکر ملک و بیرون ملک کے جامعات، یونیورسٹیز، اور درسگاہوں سے اونچی تعلیم سے ہم کنار ہوتے ہیں اور اپنے قوم وملت کا نام روشن کرتے ہیں، پچھتر یا چوہتر (٧٥/٧٤) سالوں سے یہ ادارہ علم دین کی اشاعت و تبلیغ اور آبیاری میں ہمہ تن مصروف عمل ہے، ایسے زمانے میں اس کا قیام عمل میں آیا جس وقت مدرسہ و مکتب کے نام سے لوگوں کے کان نامانوس تھے، ہر چہار جانب جہالت ناخواندگی کا بسیرا، ہر سمت بدعات و خرافات کا ڈیرا، ہرسو مشرکانہ ماحول کا دور دورہ، اور ہر طرف تاریکی و اندھیرا چھایا ہوا تھا، اللّٰہ تعالیٰ کے نیک اور مخلص بندوں نے ایسے نازک وقت میں علم کا ایک پودہ لگایا، ان کے اخلاص و للہیت اور ربانی تائید و نصرت کے نتیجے میں اس کے اندر برگ و بار پیدا ہوا، قبولیت حاصل ہوئی، شہرت ملی، جذب و کشش پیدا ہوئی، مکتب سے مدرسہ اور مدرسہ سے دارالعلوم و جامعہ بن کر ملت کا مداوا ثابت ہوا، پھوس اور چھپر کے دور سے نکل کر خوبصورت مسجد، ہاسٹلوں، درسگاہوں اور مختلف و متنوع شعبوں کے ساتھ آگے بڑھا۔ اس کے عطر بیز ہواؤں دل آویز نکہتوں اور صاف و شفاف چشموں نے ہزاروں تشنگان علم و معرفت کے مشام جاں کو معطر اور سیراب کیا، ہر دور میں الحمد للّٰه اس چمن پر بہار کو ایسے مخلص مالی و نگہبان میسر ہوئے جنہوں نے اپنی شبانہ روز کوششوں، محنتوں دعاؤں اور آنسؤں سے سینچا۔
جو بلاشبہ آج شجر سایہ دار و ثمر دار بن کر نگاہوں کو ٹھنڈک روح کو قوت اور دل و دماغ کو فرحت و سکون پہنچارہا ہے، اور پورے عالم میں توحید کی روشنی اخوت و محبت کا پیغام اور علم دین کا چراغ جلا رہا ہے، در حقیقت یہ ملک نیپال میں سرمایہ ملت کا نگہبان و ترجمان ثابت ہوا، جسے اللّٰه تبارک وتعالیٰ نے بر وقت بیدار و خبردار کیا، اس ادارے کی خصوصیت اور امتیاز یہ رہا ہے کہ اس نے روز اول ہی سے اعتدال و وسطیت کی صدا بلند کی اور (خذ ما صفا ودع ما كدر) جیسے سنہرے اصول کو گلے لگایا، گروہ بندی تحزب نفرت انتشار و اختلاف اور اور مسلکی تشدد کے کانٹوں سے دامن کو بچاکر رکھا ۔ اپنی حکمت تدبر وتفقہ کے ذریعے ایسی فضا اور ماحول تشکیل دیا جس سے باطل کو پاؤں جمانے اور غلط عقائد ونظریات پنپنے کا موقع نہیں مل پایا، اور وہ سد سکندری ثابت ہوا جس کے سامنے موجوں نے اپنا راستہ تبدیل کیا اور وہ منارہ نور ثابت ہوا جس کی روشنی میں گم گشتہ راہوں نے ہدایت پائی۔
اس وقت ملک بھر میں سیکڑوں مدارس و مکاتب اور جامعات تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں، ترائی سے پہاڑ تک مختلف رنگ و آہنگ میں دینی علوم کو عام کررہے ہیں، آپ جب ان کا مطالعہ کریں گے تو محسوس ہوگا کہ دارالعلوم نے ان کو کمک پہنچایا ہے افراد مہیا کیا ہے جو ان کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں، دارالعلوم نے جہاں ایک طرف علم کی شمعوں کو فروزاں کیا اور شریعت کی بالادستی کو عام کیا وہیں دوسری طرف اس نے ملی قیادت کا فریضہ بھی انجام دیا ہے، جب بات آئی ہے رہنمائی کی جب کوئی مسئلہ درپیش ہوا ہے صلح و آشتی کا جب ضرورت پڑی ہے پیچیدہ مسائل سلجھانے کی جب وقت آیا ہے دو ٹوک فیصلے کا جب گھڑی آئی ہے شیرازہ بندی کی جب حاجت پڑی ہے دلوں کو جوڑنے کی اخوت و بھائی چارگی کی تو نگاہیں اسی آستانے کی جانب اٹھی ہیں، یہیں دلوں کو سکون روح کو اطمینان اور نگاہوں کو سرور حاصل ہوا ہے ، دارالعلوم نے خاموشی کے ساتھ ایک انقلاب برپا کیا ہے امت کو ایک رخ اور جہت عطا کیا ہے، اور ایک فکر پر سب کو متحد کیا ہے، تفرقہ بازی انتشار و افتراق اور مسلکی اختلاف کو ہوا دینے سے ہمیشہ گریزاں رہا ہے ۔۔!
الغرض اس کا قیام ملک نیپال کیلئے رحمت ثابت ہوا اور خیر کا باعث بنا سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں علماء و دعاۃ اس سے فیض پاکر نکلے، اور وہ جہاں ہیں جس مسند پر فائز ہیں اور جس محاذ پر بھی ہیں اپنے قول و فعل تحریر و تقریر کے ذریعہ مضبوطی کے ساتھ اسلامی تعلیمات کو فروغ اور ان کی نشر و اشاعت کا مبارک کام انجام دے رہے ہیں!!!
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دین کے قلعے کو ہر شرور و فتن سے محفوظ رکھے اور ہمہ جہت ترقیوں سے نوازے آمین ثم آمین یا رب العالمین۔۔۔!!